خسرہ۔۔۔۔۔ ویکسی نیشن اور بروقت علاج کے ذریعے اس متعدی مرض سے بچاؤ ممکن ہے
خسرے کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ اس مرض کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے، ڈاکٹرعرفان جمیل
خسرہ ( میزلز) ایک متعدی مرض ہے جو بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں خسرے کے کیسز میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے اور اس مہلک مرض کی وجہ سے بچوں کی اموات بھی ہورہی ہیں۔ والدین اس ہلاکت خیز مرض سے ویکسی نیشن کے ذریعے اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کی شرح بھی بہت کم ہے۔
بچے خسرے کا شکار کیوں ہوتے ہیں، اس کا علاج کیا ہے اور اس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے سلسلے میں کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں، اس ضمن میں کراچی میں قائم سندھ انفیکشیئس ڈیزیز ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر (ایس آئی ڈی ایچ آر سی) سے وابستہ سنیئر میڈیکل افسر اور ماہر امراض اطفال ڈاکٹر عرفان جمیل سے کی گئی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
خسرہ کیسے پھیلتا ہے؟
خسرہ کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عرفان جمیل نے بتایا کہ خسرہ دراصل ایک وائرل انفیکشن ( وائرس کی وجہ سے لاحق ہونے والا متعدی مرض) ہے جو متاثرہ بچے کے کھانسنے اور چھینکنے سے پھیلتا ہے، متاثرہ بچے کے کھانسنے اور چھینکنے سے جراثیم ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں اور پھر سانس کے ذریعے دوسرے بچوں میں جاکر انہیں متاثر کرتے ہیں۔
ڈاکٹرعرفان کا کہنا تھا کہ خسرے کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ اس بارے میں آگاہی کی کمی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ خسرے میں مبتلا بچے کو فوری طور پر دوسرے بچوں سے جدا کردیا جائے، مگر آگہی اور شعور نہ ہونے کے باعث ایسا نہیں کیا جاتا۔ پھر ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ غربت کی وجہ سے اکثریتی آبادی چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتی ہے، یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی گھر میں کئی کئی خاندان رہائش پذیر ہوتے ہیں، اور وہاں بچے بھی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خسرے کا شکار بچے کو گھر کے دوسرے بچوں سے الگ رکھنا ممکن نہیں ہوپاتا، چنانچہ دوسرے بچے بھی اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خسرے کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
علامات
متاثرہ بچے کو ابتدا میں تیز بخار ہوتا ہے، عام دواؤں سے بخار میں افاقہ نہیں ہوتا، بچے میں چڑ چڑا پن آجاتا ہے، آنکھوں سرخ ہوجاتی ہیں اور ان سے پانی بہنے لگتا ہے، نزلہ زکام اور دست ہونا۔ یہ کیفیت چار سے پانچ دن تک رہتی ہے۔ اس کے بعد پھر جب بخار کی شدت میں کمی آتی ہے تو جسم پر سرخ رنگ کے دانے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ دانے نکلنے کا آغاز چہرے سے ہوتا ہے اور پھر یہ بتدریج نچلے بدن پر نمودار ہونے لگتے ہیں۔
علاج
ڈاکٹر عرفان جمیل کا کہنا تھا کہ خسرے کی کوئی مخصوص ادویات نہیں ہوتیں بلکہ اس مرض میں مبتلا بچے کا علاج اسے ظاہر ہونے والی علامات کی مناسب سے کیا جاتا ہے جسے سمٹومیٹک ٹریٹمنٹ کہتے ہیں۔ مثلاً اگر بچے کے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی ہوچکی ہے تو ڈرپ کے ذریعے وہ دور کی جاتی ہے۔ نمونیے کی علامات ہوں تو اسی مناسبت سے اینٹی بایوٹک ادویہ دی جاتی ہیں اور اگر سانس لینے میں دقت ہورہی تو آکسیجن لگائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو وٹامن اے دیا جاتا ہے جس سے ان کی طبیعت میں بہتری آتی ہے۔
خسرہ کس وقت جان لیوا ثابت ہوتا ہے؟
خسرے کے مرض سے جڑی پیچیدگیاں بچے کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ خسرے کے ساتھ بچے کو نمونیا ہوجانے، اور شدید پیچش کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر عرفان جمیل کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں غربت کی وجہ سے بچے پہلے ہی غذائیت اور خوراک کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، یوں ان کے جسم میں قوت مدافعت پہلے ہی کم ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں خسرہ جیسا مرض لاحق ہونے سے مرض کی پیچیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔
خسرے کے کیسز میں اضافہ
ڈاکٹر عرفان جمیل نے بتایا کہ خسرے کے کیسز میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے، اور اسی مناسبت سے بچوں میں شرح اموات بھی بڑھ رہی ہے۔ تین سال قبل ایس آئی ڈی ایچ آر سی میں آنے والے خسرے سے متاثرہ بچوں کی تعداد 200 سے زائد تھی جن میں سے 10 سے 15 بچے موت کا شکار ہوئے تھے۔ پھر2022 میں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 700 تک پہنچ گئی، ان میں سے 50 سے زائد بچے جانبر نہیں ہوسکے تھے۔ ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ رواں سال اب تک ہمارے پاس 700 سے زائد بچے خسرے کا شکار ہوکر آچکے ہیں اور بچوں کی اموات کی 40تعداد سے 50 کے درمیان ہے۔
ایج گروپ
ڈاکٹر عرفان جمیل کا کہنا تھا کہ خسرے کا مرض پیدائش سے لے کر بڑی عمر کے بچوں تک کو متاثر کرسکتا ہے تاہم عمومی طور پر یہ مرض 6 ماہ سے لے کر 5 سال تک کی عمر کے بچوں میں زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ڈاکٹر عرفان جمیل نے بتایا کہ 2021 میں ایس آئی ڈی ایچ آر سی میں لائے جانے والے خسرہ سے متاثرہ بچوں میں سے بیشتر کی عمریں ایک سے دو سال کے درمیان تھیں، لیکن رواں سال ایک سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔
کیا خسرے میں مبتلا ہر بچہ اسپتال میں داخل ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عرفان جمیل کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ خسرے میں مبتلا بچے کو اسپتال میں داخل کرنے کا انحصار اس کی حالت پر ہوتا ہے۔ جن بچوں کو خسرے کی ویکسین (حفاظتی ٹیکا) دو بار (9 ماہ اور پھر 15 ماہ کی عمر میں) لگ چکی ہوتی ہے، اگر انھیں بھی خسرہ نکل آئے تو اس کی شدت اتنی نہیں ہوتی جتنی ان بچوں میں ہوتی ہے جنہیں ویکسین نہیں لگی ہوتی، تو ایسے بچوں کا علاج اور دیکھ بھال ڈاکٹر کی ہدایات کی روشنی میں گھر پر بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم اگر والدین دیکھیں کہ بچے کو دست بہت زیادہ ہیں اور جسم میں پانی کی کمی ہورہی ہے، سانس کی رفتار بڑھ رہی ہے اور کھانا پینا چھوڑ چکا ہے تو انہیں بچے کو فوراً ڈاکٹر کے پاس یا اسپتال لے کر جانا چاہیے تاکہ بچے کا فوری علاج شروع ہو اور پیچیدگیاں مزید نہ بڑھیں۔
خسرے سے بچاؤ
ڈاکٹر عرفان جمیل کے مطابق بچوں کو حفاظتی ٹیکے (ویکسین) لگوا کر اس بیماری سے بچایا جاسکتا ہے، پاکستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام (ای پی آئی) کے تحت بچوں کو یہ ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے دو بار لگائے جاتے ہیں، 9 ماہ اور پھر 15 ماہ کی عمر میں۔
متاثرہ بچے کی خوراک
اس بارے میں ڈاکٹر عرفان جمیل نے کہا کہ جو دانے بچے کے جسم پر دکھائی دیتے ہیں ویسے ہی دانے بچے کی غذا اور سانس کی نالی میں بھی نکلے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچے کو کھانے پینے میں تکلیف اور اذیت ہوتی ہے، چنانچہ اس حالت میں بچے کو عمر کے لحاظ سے نرم غذا دہی، کھچڑی وغیرہ دی جائے۔
بیماری ختم ہونے کے بعد
ڈاکٹر عرفان جمیل کے مطابق اس مرض کی وجہ سے بچے کی قوت مدافعت بہت کمزور ہوجاتی ہے اور یہ خطرہ ہوتا ہے کہ قوت مدافعت کمزور ہوجانے کی وجہ سے خسرے سے صحتیاب ہونے کے بعد بھیاسے کوئی اور انفیکشن تو لاحق نہیں ہوگیا چنانچہ دو ماہ تک بچے کو دیکھنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔
خسرے کا پھیلاؤ کیسے روکا جاسکتا ہے
اس سلسلے میں ڈاکٹر عرفان جمیل کا کہنا تھا کہ ویکسین کے ذریعے خسرے سے بچاؤ ممکن ہے، اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو خسرے سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے (ویکسین) لگوائے جائیں۔ جب بچے کے جسم پر دانے نمودار ہونے لگیں تو اسے پانچ دن تک الگ تھلگ اور دوسرے بچوں سے دور رکھا جانا چاہیے تاکہ یہ مرض متاثرہ بچے سے دوسرے بچوں کو منتقل نہ ہو۔ اور سب سے اہم یہ کہ خسرہ اور دیگر متعدی امراض (وائرل انفیکشن) کے بارے میں عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بہتری لائی جائے۔