موبائل فون کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ آخری حصہ
ہر چیز کا ڈیٹا طلب کیا جا رہا ہے لیکن آئی ایم ایف ان تمام بڑھتے ہوئے درآمدات جن کا تعلق صنعتی ممالک وغیرہ سے ہے
فروری 24 کے درآمدی بل کا حجم 44 ارب 92 کروڑ روپے اور اس کے بالمقابل فروری 23 میں 8 ارب 81 کروڑ 50 لاکھ روپے 410 فی صد کا اضافہ ہوا۔ جنوری 2024 میں 54 ارب 64 کروڑ20 لاکھ روپے اس کے مقابل 12 ارب 17 کروڑ روپے کی درآمد کے ساتھ یہاں تقریباً 350 فی صد کا اضافہ نظر آ رہا ہے۔
سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی معیشت جوکہ قرض کے بال میں جکڑی ہوئی ہے، اچانک کہاں سے ایسی ضرورت پیش آ گئی کہ صرف موبائل فون کی درآمد میں 1400 فی صد 925 فی صد 410 فی صد اضافہ اور 350 فی صد کا اضافہ کرنا ضروری ٹھہرا۔
اب دسمبر 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 49 ارب 89 کروڑ مالیت کے موبائل درآمد ہوئے اس کے بالمقابل دسمبر 2022 میں صرف 16 ارب 25 کروڑ روپے کی درآمدات کے باعث 207 فی صد کا اضافہ ہوا۔ نومبر 2023 میں 41 ارب 84 کروڑ30 لاکھ روپے کے موبائل فون درآمد کر لیے گئے، اس کے بالمقابل نومبر 22 میں پی ڈی ایم کی حکومت تھی، اس وقت کے معاشی حکام ڈالر کے خرچ آمدن پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
بہت سی درآمدات کو سخت ضرورت کے تحت اجازت دی تھی درآمدی حجم کم ہو کر نومبر 22 میں موبائل فون کی درآمدات 14 ارب 34 کروڑ روپے کی رہیں لیکن 192 فی صد کا اضافہ ہو جانا کس ضرورت کے تحت تھا اس وقت یوں ضروری ہے کہ جون کے اختتام پر جب سالانہ تجارتی خسارہ 31 یا 32 ارب ڈالر تک جا پہنچے گا اور پاکستان کی برآمدات کے آس پاس تجارتی خسارہ ہو رہا ہوگا، بہتر یہ ہے کہ اچانک دگنے تگنے بڑھتے ہوئے درآمدات پر گہری نظر رکھ کر اسے مکمل کنٹرول کیا جائے۔
اکتوبر 2023 میں کچھ ایسا ہوا کہ 46 ارب 52 کروڑ روپے کی موبائل فون درآمد کر لیے گئے، اس کے بالمقابل اکتوبر2022 میں محض 14 ارب 51 کروڑ روپے کی درآمد کے ساتھ اکتوبر 2023 میں اکتوبر 2022 کی نسبت 22.1 فی صد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ستمبر 2023 میں موبائل فون کی درآمدات کی مالیت رہی تھی 37 ارب 9 کروڑ 30 لاکھ روپے کی اور ستمبر 2022 میں محض 13 ارب 46 کروڑ روپے کی درآمدات کے باعث ستمبر 2023 میں ستمبر 2022 کے مقابلے میں 176 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا۔
مضمون زیادہ طویل ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے موبائل کے اچانک فی صد اضافے کو ملاحظہ فرمائیں جسے دیکھ کر حکومت کو ایک کمیٹی بنانی چاہیے کہ اس مد کے تحت مجموعی طور پر 10 ماہ میں ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد اور اس کے بالمقابل مدت میں 50 کروڑ ڈالر سے کم پر بھی گزارا ہوتا رہا، معاملات صحیح چلتے رہے۔
ملک میں موبائل فون کی طلب بڑھنے پر ملک میں تیار موبائل فون کے ذریعے اس کی رسد کو برقرار رکھا گیا آخر کون سے ایسے لوگ آگئے کہ اچانک تیزی کے ساتھ درآمدی موبائل فون کی ضرورت پیش آگئی۔ گوشوارہ ملاحظہ فرمائیں:
ستمبر 23 میں ستمبر 22 کے مقابلے میں 176 فی صد اضافہ۔
اکتوبر 23 میں اکتوبر 22 کے مقابلے میں 221 فی صد اضافہ۔
نومبر 23 میں نومبر 22 کے مقابلے میں 192 فی صد اضافہ۔
دسمبر 23 میں دسمبر 22 کے مقابلے میں 207 فی صد کا اضافہ۔
جنوری 24 میں جنوری23 کے مقابلے میں 350 فی صد کا اضافہ۔
فروری 24 میں فروری 23 کے مقابلے میں 410 فی صد اضافہ۔
مارچ 24 میں مارچ 23 کے مقابلے میں 925 فی صد اضافہ۔
اپریل 24 میں اپریل 23 کے مقابلے میں 1400 فی صد اضافہ۔
اگر ان بڑھتے ہوئے رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو موبائل فونز کی درآمدات کو پی ڈی ایم کی حکومت نے کنٹرول کیا تھا کیونکہ ملک کو سخت ترین مالی مسائل کا سامنا تھا۔ پھر نگران حکومت کے دور میں تیزی سے اضافہ شروع ہوا، لیکن وہ کیا بات تھی، کون سے خدشات تھے کہ موقع سے جلد فائدہ اٹھا لیا جائے۔
دسمبر 23 میں مزید تیزی سے تیز تر اضافہ شروع ہوگیا، یعنی دو سو سے ساڑھے تین سو فی صد، پھر 4 سو سے مارچ 2023 میں دگنا اضافہ 9 سو سے زائد کا اور اگلے ماہ اپریل 24 میں اس سے ڈیڑھ گنا مزید اضافہ ہو کر 1400 فی صد تک جا پہنچنا معاملے کی سنگینی کو ظاہر کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمارے اوپر ہر طرح کی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
ہر چیز کا ڈیٹا طلب کیا جا رہا ہے لیکن آئی ایم ایف ان تمام بڑھتے ہوئے درآمدات جن کا تعلق صنعتی ممالک وغیرہ سے ہے۔ پاکستان سے ان کی حوصلہ شکنی کا مطالبہ نہیں کرتا۔ درآمدی موبائل فونز کن کن ممالک کا ہوتا ہے سب باتیں صاف ظاہر ہے۔ ان سب کے پیچھے عالمی سیاست و معیشت بھی کارفرما ہے اور ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسا طاقتور طبقہ ہو سکتا ہے شاید جس کے مفادات ہوں۔ بہرحال بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ جوکہ یکم یا دو جولائی تک اس کی خبر ہو جائے گی۔
میرا تخمینہ یہ ہے کہ برآمدات سے زائد تجارتی خسارہ ہوگا۔ اگر بہت ساری اشیا کی درآمد کو معاشی قوت کے زیر سایہ فیصلوں سے دور کرکے انتہائی سخت معاشی ضرورت کے زمرے میں لے کر آجاتے ہیں تو تجارتی خسارے کو کنٹرول کرنا آسان ہوجائے گا، بصورت دیگر پاکستان کے مالی مسائل بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں، کچھ تو اس کا تدارک کرنا ضروری ہے۔