آئی ایم ایف مطالبہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلیے اضافی 121 ارب روپے مختص ہونے کا امکان
مجموعی رقم ریکارڈ 593 ارب روپے ہوجائے گی، مستفید خاندانوں کی تعداد 9.7 ملین کرنے کی تجویز
آئی ایم ایف کے مطالبے پر غریب ترین طبقے کیلیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اگلے بجٹ میں ریکارڈ 593 ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حکومت کو مہنگائی کے ہیش نظر اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اور ان کو دی جانے والی رقم میں اضافے کا کہا تھا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی روشنی میں مجوزہ رقم کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف اگلے مالی سال کے لیے تقریباً 518 ارب روپے کی ابتدائی رقم سے مطمئن نہیں تھا۔ اگلے بجٹ کیلیے مختص کی گئی رقم رواں مالی سال سے121 ارب روپے یا 26 فیصد زیادہ ہے۔
بی آئی ایس پی غریب ترین طبقے کی پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے تاہم یہ ملک کے سب سے کم درمیانی آمدن والے طبقے کے مصائب کو نظر انداز کر دیتا ہے جنہیں کوئی ریلیف نہیں ملتا اور وہ آئی ایم ایف اور حکومتی پالیسیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کو حتمی شکل دے رہا ہے اورآئی ایم ایف نے جن شرائط پر عملدرآمد کا کہا ہے اس سے عام لوگوں کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی ۔ آئی ایم ایف نے ایکسپورٹرز اور غیرملکی سودوں کے سوا پاکستان سے سیلز ٹیکس کی کم کردہ شرحوں کو واپس لینے اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرنے کا نیا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے گھریلو استعمال کی تقریباً ہر اہم شے کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ مجوزہ 593 ارب روپے مختص کرنے کا مقصد نقد معاوضے کو بڑھانا اور اس سے مستفید ہونے والوں کی فہرست میں مزید لوگوں کو شامل کرنا ہے۔ رواں مالی سال حکومت نے بی آئی ایس پی کفالت پروگرام میں 3لاکھ خاندانوں کا اندراج کیا ہے جس سے کل اندراج9.3 ملین ہو گئے ہیں۔ اب اگلے مالی سال میں مستفید ہونے والوں کی تعداد 9.6 ملین سے 9.7 ملین کرنے کی تجویز ہے۔ سہ ماہی معاوضے کو موجودہ 10,500 روپے سے بڑھا کر فی خاندان 13000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ موجودہ معاوضہ غریب ترین خاندان کے صرف 12 فیصد اخراجات کا احاطہ کرتا ہے جسے آئی ایم ایف اگلے بجٹ میں کم از کم 15 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔
آئی ایم ایف پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ بھی بی آئی ایس پی کے مستحقین تک بجلی کی سبسڈی کو محدود کرے اور بلوں کے ذریعے رعایتی بجلی فراہم کرنے کے بجائے ضرورت مند خاندانوں کو نقد رقم ادا کرے اور عام سبسڈی ختم کرے۔ وہ صحت اور تعلیم پروگرام کے نتائج کو بہتر بنانے اور بی آئی ایس پی کے مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام کے معیار کو بہتر بنانے کا بھی کہتا رہا ہے، اس مالی سال میں تقریباً 10 لاکھ خاندانوں اور 1.9 ملین بچوں کو ان صحت اور تعلیم کے مشروط پروگراموں میں شامل کیا گیا تھا۔ اب بھی پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں سے تقریباً 25فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
پاکستان کا بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے گھرانوں کی تعداد 20 ملین گھرانوں تک بڑھانے کا ہدف ہے۔ یہ اس کے لیے عالمی بینک کے ساتھ 400 ملین مالیت کے دو نئے قرضوں پر بھی بات چیت کر رہا ہے۔ یہ قرضے زیادہ تر مشروط نقد گرانٹ پروگرام کے تحت اسکول جانے والے بچوں کی تعداد بڑھانے اور ان کی صحت کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ بی آئی ایس پی قرض ادائیگی، دفاع، ڈیولپمنٹ، پنشن اور حکومتی اخراجات کے بعد چھٹا سب سے بڑا بجٹ پروگرام ہوگا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ نئے قومی مالیاتی معاہدے کے تحت بی آئی ایس پی کے اخراجات صوبوں کو منتقل کرے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حکومت کو مہنگائی کے ہیش نظر اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اور ان کو دی جانے والی رقم میں اضافے کا کہا تھا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی روشنی میں مجوزہ رقم کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف اگلے مالی سال کے لیے تقریباً 518 ارب روپے کی ابتدائی رقم سے مطمئن نہیں تھا۔ اگلے بجٹ کیلیے مختص کی گئی رقم رواں مالی سال سے121 ارب روپے یا 26 فیصد زیادہ ہے۔
بی آئی ایس پی غریب ترین طبقے کی پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے تاہم یہ ملک کے سب سے کم درمیانی آمدن والے طبقے کے مصائب کو نظر انداز کر دیتا ہے جنہیں کوئی ریلیف نہیں ملتا اور وہ آئی ایم ایف اور حکومتی پالیسیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کو حتمی شکل دے رہا ہے اورآئی ایم ایف نے جن شرائط پر عملدرآمد کا کہا ہے اس سے عام لوگوں کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی ۔ آئی ایم ایف نے ایکسپورٹرز اور غیرملکی سودوں کے سوا پاکستان سے سیلز ٹیکس کی کم کردہ شرحوں کو واپس لینے اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرنے کا نیا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے گھریلو استعمال کی تقریباً ہر اہم شے کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ مجوزہ 593 ارب روپے مختص کرنے کا مقصد نقد معاوضے کو بڑھانا اور اس سے مستفید ہونے والوں کی فہرست میں مزید لوگوں کو شامل کرنا ہے۔ رواں مالی سال حکومت نے بی آئی ایس پی کفالت پروگرام میں 3لاکھ خاندانوں کا اندراج کیا ہے جس سے کل اندراج9.3 ملین ہو گئے ہیں۔ اب اگلے مالی سال میں مستفید ہونے والوں کی تعداد 9.6 ملین سے 9.7 ملین کرنے کی تجویز ہے۔ سہ ماہی معاوضے کو موجودہ 10,500 روپے سے بڑھا کر فی خاندان 13000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ موجودہ معاوضہ غریب ترین خاندان کے صرف 12 فیصد اخراجات کا احاطہ کرتا ہے جسے آئی ایم ایف اگلے بجٹ میں کم از کم 15 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔
آئی ایم ایف پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ بھی بی آئی ایس پی کے مستحقین تک بجلی کی سبسڈی کو محدود کرے اور بلوں کے ذریعے رعایتی بجلی فراہم کرنے کے بجائے ضرورت مند خاندانوں کو نقد رقم ادا کرے اور عام سبسڈی ختم کرے۔ وہ صحت اور تعلیم پروگرام کے نتائج کو بہتر بنانے اور بی آئی ایس پی کے مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام کے معیار کو بہتر بنانے کا بھی کہتا رہا ہے، اس مالی سال میں تقریباً 10 لاکھ خاندانوں اور 1.9 ملین بچوں کو ان صحت اور تعلیم کے مشروط پروگراموں میں شامل کیا گیا تھا۔ اب بھی پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں سے تقریباً 25فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
پاکستان کا بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے گھرانوں کی تعداد 20 ملین گھرانوں تک بڑھانے کا ہدف ہے۔ یہ اس کے لیے عالمی بینک کے ساتھ 400 ملین مالیت کے دو نئے قرضوں پر بھی بات چیت کر رہا ہے۔ یہ قرضے زیادہ تر مشروط نقد گرانٹ پروگرام کے تحت اسکول جانے والے بچوں کی تعداد بڑھانے اور ان کی صحت کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ بی آئی ایس پی قرض ادائیگی، دفاع، ڈیولپمنٹ، پنشن اور حکومتی اخراجات کے بعد چھٹا سب سے بڑا بجٹ پروگرام ہوگا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ نئے قومی مالیاتی معاہدے کے تحت بی آئی ایس پی کے اخراجات صوبوں کو منتقل کرے۔