آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم
تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر نئے انکم ٹیکس ریٹس کے معاملے پر اتفاق نہ ہوسکا
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے ایک اور راؤنڈ بے نتیجہ ختم ہوگئے۔
مذاکرات میں فریقین کے درمیان تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر نئے انکم ٹیکس ریٹس، ذراعت اور ہیلتھ سیکٹر پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کے عائد کیے جانے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں4لاکھ 67 ہزار ماہانہ سے زیادہ کمانے والے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر 45 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے پر بحث ہوتی رہی، اس وقت سب سے زیادہ انکم ٹیکس 5 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے افراد پر 35 فیصد عائد ہے۔
تاہم فریقین نے ایکسپورٹرز پر انکم ٹیکس بڑھانے پر اتفاق کرلیا، جنھوں نے رواں سال صرف 86 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے، جو کہ تنخواہ دار طبقے کی طرف سے جمع کرائے گئے ٹیکس سے 280 فیصد کم ہے، پاکستان نے پینشنز پر ٹیکس عائد کرنے کیلیے بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت انکم ٹیکس کی حد، تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کے انضمام اور افراد کیلیے زیادہ سے زیادہ انکم ٹیکس کی شرح پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار، غیر تنخواہ دار اور دیگر ذرائع سے انکم حاصل کرنے والے تمام افراد کو ایک ہی کیٹیگری میں شامل کرکے ایک ہی سلیب کے تحت لانے اور انکم ٹیکس کی بالائی حد کو 35 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کرنے پر اصرار کر رہا ہے، جبکہ حکومتی نمائندوں کی خواہش ہے کہ قابل ٹیکس انکم کی سالانہ حد کو 9 لاکھ روپے تک بڑھا دیا جائے، حکومت زیادہ سے زیادہ انکم ٹیکس 45 فیصد کرنے پر راضی نہیں ہے، البتہ قابل ٹیکس انکم کی 6 لاکھ روپے سالانہ کی موجودہ حد کو برقرار رکھنے کیلیے لچک دکھانے کو تیار ہے۔
زیر غور تجاویز میں سے ایک تجویز کے مطابق اگر انکم ٹیکس کے اطلاق کی سالانہ حد 9 لاکھ تک بڑھا دی جاتی ہے تو پھر ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے بڑھ کر 7.5 فیصد ہوجائے گی، ایک لاکھ 33 ہزار انکم پر انکم ٹیکس 12.5 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہوجائے گا، 2لاکھ 67ہزار پر انکم ٹیکس 22.5 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہوجائے گا۔
تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کے 11 ماہ کے دوران 325 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا ہے، جو کہ جون کے اختتام پر 360 ارب روپے ہوجانے کی توقع ہے، اگر آئی ایم ایف کی تجاویز قبول کرلی جائیں تو اگلے مالی سال تنخواہ دار طبقہ 540 ارب روپے ٹیکس ادا کرے گا، جس کے اثرات کو زائل کرنے کیلیے تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ بھی کافی نہیں ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ اگر وہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا تو اس کا متبادل پیش کرے، جلد مزاکرات کا ایک اور دور شروع ہوگا۔
آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان ایکسپورٹرز پر ٹیکس ریجیم تبدیل کرنے کیلیے سمجھوتہ طے پاگیا ہے، جس کے مطابق ایکسپورٹرز پر عائد موجودہ ایک فیصد انکم ٹیکس کو کم از کم تصور کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں ایکسپورٹرز کو اپنے اخراجات اور آمدنی سے متعلق دستاویزات جمع کرانی ہونگی، جس سے ایکسپورٹرز سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان فرٹیلائزر، پیسٹی سائیڈز، بیجون، میڈیسن، سولر پینلز، میڈیکل اور سرجیکل آلات سمیت دیگر تمام اشیاء پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے، حکومت خاص طور پر مذکورہ بالا اشیاء پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کیلیے تیار نہیں ہے۔
مذاکرات میں فریقین کے درمیان تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر نئے انکم ٹیکس ریٹس، ذراعت اور ہیلتھ سیکٹر پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کے عائد کیے جانے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں4لاکھ 67 ہزار ماہانہ سے زیادہ کمانے والے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر 45 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے پر بحث ہوتی رہی، اس وقت سب سے زیادہ انکم ٹیکس 5 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے افراد پر 35 فیصد عائد ہے۔
تاہم فریقین نے ایکسپورٹرز پر انکم ٹیکس بڑھانے پر اتفاق کرلیا، جنھوں نے رواں سال صرف 86 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے، جو کہ تنخواہ دار طبقے کی طرف سے جمع کرائے گئے ٹیکس سے 280 فیصد کم ہے، پاکستان نے پینشنز پر ٹیکس عائد کرنے کیلیے بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت انکم ٹیکس کی حد، تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کے انضمام اور افراد کیلیے زیادہ سے زیادہ انکم ٹیکس کی شرح پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار، غیر تنخواہ دار اور دیگر ذرائع سے انکم حاصل کرنے والے تمام افراد کو ایک ہی کیٹیگری میں شامل کرکے ایک ہی سلیب کے تحت لانے اور انکم ٹیکس کی بالائی حد کو 35 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کرنے پر اصرار کر رہا ہے، جبکہ حکومتی نمائندوں کی خواہش ہے کہ قابل ٹیکس انکم کی سالانہ حد کو 9 لاکھ روپے تک بڑھا دیا جائے، حکومت زیادہ سے زیادہ انکم ٹیکس 45 فیصد کرنے پر راضی نہیں ہے، البتہ قابل ٹیکس انکم کی 6 لاکھ روپے سالانہ کی موجودہ حد کو برقرار رکھنے کیلیے لچک دکھانے کو تیار ہے۔
زیر غور تجاویز میں سے ایک تجویز کے مطابق اگر انکم ٹیکس کے اطلاق کی سالانہ حد 9 لاکھ تک بڑھا دی جاتی ہے تو پھر ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے بڑھ کر 7.5 فیصد ہوجائے گی، ایک لاکھ 33 ہزار انکم پر انکم ٹیکس 12.5 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہوجائے گا، 2لاکھ 67ہزار پر انکم ٹیکس 22.5 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہوجائے گا۔
تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کے 11 ماہ کے دوران 325 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا ہے، جو کہ جون کے اختتام پر 360 ارب روپے ہوجانے کی توقع ہے، اگر آئی ایم ایف کی تجاویز قبول کرلی جائیں تو اگلے مالی سال تنخواہ دار طبقہ 540 ارب روپے ٹیکس ادا کرے گا، جس کے اثرات کو زائل کرنے کیلیے تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ بھی کافی نہیں ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ اگر وہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا تو اس کا متبادل پیش کرے، جلد مزاکرات کا ایک اور دور شروع ہوگا۔
آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان ایکسپورٹرز پر ٹیکس ریجیم تبدیل کرنے کیلیے سمجھوتہ طے پاگیا ہے، جس کے مطابق ایکسپورٹرز پر عائد موجودہ ایک فیصد انکم ٹیکس کو کم از کم تصور کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں ایکسپورٹرز کو اپنے اخراجات اور آمدنی سے متعلق دستاویزات جمع کرانی ہونگی، جس سے ایکسپورٹرز سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان فرٹیلائزر، پیسٹی سائیڈز، بیجون، میڈیسن، سولر پینلز، میڈیکل اور سرجیکل آلات سمیت دیگر تمام اشیاء پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے، حکومت خاص طور پر مذکورہ بالا اشیاء پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کیلیے تیار نہیں ہے۔