کچرا عذاب ہے
پلاسٹک کی آلودگی نے موسمیاتی تبدیلی کو بھی تشویش ناک حد تک بڑھا دیا ہے
'' یہ افسوسناک ہے کیوں کہ ہم چاہے دل جمعی سے صفائی کر بھی لیں، کوڑا کم نہیں ہو رہا، اس کچرے کے خلاف یہ ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی ہے، ہمیں ماحول کا تحفظ کرنا ہے۔ کم ازکم یوں ہم اس کچرے کوکم کر رہے ہیں اور اسے پہاڑ نہیں بننے دے رہے۔''
یہ بیان ہے ایک اہل کارکا جسے فلپائن کی حکومت نے آبی راستے کی صفائی کا کام سونپا ہے، یہ وہ دریائی شاخ ہے جس میں ہر سال ٹنوں وزنی کوڑا پھینکا جاتا ہے۔ نرواس اپنے ہزاروں رینجرز اہل کاروں کے ساتھ اس اہم کام کو کرنے میں مصروف ہے لیکن وہ مایوس بھی ہے کہ کچرے کے ڈھیر بہت بلند اور وسیع ہیں۔
فلپائن کی حکومت نے دارالحکومت منیلا میں پلاسٹک کے بدبودار کوڑے سے بھرے دریا کی صفائی کا کام شروع کروا دیا ہے۔ اس دریا میں ہزاروں کی تعداد میں پلاسٹک کی بوتلیں، تھیلیاں اور شاپنگ بیگز دلدل کی صورت میں تعفن پیدا کر رہے ہیں جس کی صفائی ناگزیر ہے۔ مقامی محکمہ ماحولیات کے مطابق فلپائن ہر روز اکسٹھ ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جس کا چوبیس فی صد پلاسٹک سے بنی اشیا پر مبنی ہوتا ہے۔ فلپائن میں غربت نے مسائل کھڑے کر دیے ہیں وہ کچرا ری سائیکل کرنے والی تنصیبات سے محروم ہے۔
دنیا بھر میں پلاسٹک کی آلودگی کے حوالے سے فلپائن سرفہرست ہے۔ اس کا دریا پاسگ جو خلیج منیلا تک پہنچ کر سمندر میں گرتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ممالک کی چھان بین کی جاتی ہے جو سمندروں کو آلودہ کرتے ہیں ایسی ہی ایک ڈچ غیر سرکاری تنظیم اوشین کلین اپ کے مطابق فلپائن سمندری آلودگی اور فضلات کے حوالے سے پیش پیش ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے پاکستان کے اعداد و شمار بھی کچھ اچھے نہیں، لیکن اس میں کمی کے بجائے جس شرح سے ترقی دیکھی جا رہی ہے وہ پریشان کن حد تک ہے۔ ہم پلاسٹک بیگز، پلاسٹک کی بوتلیں اور روزمرہ کی استعمال کی اشیا میں پلاسٹک کا استعمال تو کھلے عام کرتے ہی ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ ایک عام پلاسٹک کے شاپر کو ماحول میں مکمل تلف ہونے کے لیے پانچ سو سال درکار ہوتے ہیں۔
پلاسٹک اور اس سے بنی اشیا دوسرے نامیاتی مرکبات سے بنی اشیا کے مقابلے میں مضبوط اور دیرپا ضرور ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد یہی اشیا ماحول میں جذب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، اسی بنا پر ان کے ڈھیر بنتے جاتے ہیں جن کے ری سائیکل عمل نہ ہونے کے باعث ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ڈھیر اونچے بلند پہاڑوں کی مانند ہمارے شہروں سے باہر اور اندر یوں ایستادہ نظر آئیں جیسے قدرت کے تخلیق کردہ ہوں، درحقیقت یہی ہماری صحت اور ماحول کے دشمن ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں بارہ ہزار سے پندرہ ہزار ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ فضلہ ہے جس کی ری سائیکلنگ کا کوئی انتظام نہیں۔ اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک میں بھی کچرے کی صورت حال کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ خاص کر دلی میں یہ نہایت ابتر ہے جہاں غازی آباد میں کچرے کا ڈھیر اس تیزی سے بلند ہو رہا ہے کہ اس کے آگے تاج محل بھی چھوٹا نظر آئے۔
کچرے کو بڑھانا آسان ہے لیکن اسے ٹھکانے لگانا اتنا ہی مشکل ہے۔ ایک عام انسان اپنے گھرکے کچرے کو ٹھکانے لگا سکتا ہے کیا وہ اسے اپنے ماحول اور اپنے گھر والوں کی صحت کی خاطر مفید بنا سکتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ آج کل کے اس تیز رفتار دور میں فرصت ہی کتنی ہے۔
ہمارے گھروں کے دروازوں پرکچرے والے آتے ہیں اور ماہانہ ایک رقم لے کرکچرے سمیت رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نہیں جانتے کہ وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ دراصل یہ پورا ایک نظام ہے جس میں کام کی اشیا کچرے سے الگ کر لی جاتی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کام کی اشیا سے بہت منافع کمایا جاتا ہے لیکن ہمیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ ہم اکثر سڑکوں کے کنارے، نالوں میں اورکوڑے دانوں کے اردگرد اور کئی بار صاف ستھری سڑکوں کے ساتھ بھی ایسے کئی کچرے کے ذرائع الٹے دیکھتے ہیں۔
سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ پھر کچرا کیوں؟ جب کہ عام گھروں سے لے کر نجی سوسائٹیز والے اس طرح کی مد میں اچھے خاصے پیسے ادا کرتے ہیں، پھر ہماری سڑکوں پر کچرے کے باعث گٹر کیوں بہتے نظر آتے ہیں۔
ہم فلپائن سے بہتر حالت میں ہیں یا نہیں، لیکن اوپر والے کے فضل سے ہم خود سے کتے پکڑکرکھانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہمارے گھروں میں اور محکموں میں اوپر والے نے بڑا کرم کر رکھا ہے بس ہم اسی میں لگے رہتے ہیں کہ کیسے؟ہم اس '' کیسے؟ '' سے آگے اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتے جب تک ہم خود انفرادی طور پر اپنے اعمالوں کو نہیں کم ازکم اپنے کچروں ( گھروں کے ) کے ڈبوں کو کنٹرول کرنا سیکھ لیں،گھریلو طور پر چائے کی پتی اور پھلوں اور سبزیوں کے کچروں کو محلے کی سطح پرکسی ایک جگہ گڑھا کھود کر دفن کیا جاسکتا ہے۔
جہاں دو تین مہینے میں اچھی کھاد تیار ہوکر فروخت بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ کھاد ہم درختوں اور پودوں کی افزائش کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ویسے بھی خدا جانے ہمارے ملک میں شہروں سے درختوں کوکاٹنے کی کیا بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک اپنے وجود کے تمام عرصہ میں صحت مند ماحول، زندگی، صحت، خوراک، پانی اور اچھے معیار زندگی کے حقوق کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔
پلاسٹک کی پیداوار کے نتیجے میں خطرناک مادے خارج ہوتے ہیں اور اس کی تقریباً تمام تر پیداوار معدنی ایندھن کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ پلاسٹک میں بذات خود ایسے زہریلی کیمیائے مادے پائے جاتے ہیں جو انسانوں اور فطری ماحول کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔ ایک مرتبہ استعمال کے بعد پھینک دیا جانے والا 85 فیصد پلاسٹک زمین میں دبا دیا جاتا ہے یا اسے ماحول میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پلاسٹک کو جلانے، اسے ری سائیکل کرنے اور دیگر غیر محفوظ طریقے اس خطرے کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور پلاسٹک، اس کے باریک ذرات اور اس میں موجود خطرناک مادے ہماری خوراک، پینے کے پانی اور ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔
پسماندہ طبقات پلاسٹک سے متعلقہ آلودگی اور کچرے سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے رہائشی علاقے جو کھلی معدنی کانوں، پٹرول صاف کرنے والے کارخانوں، سٹیل کے پلانٹ اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے قریب ہوتے ہیں، وہاں کے لوگ ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پلاسٹک کی آلودگی نے موسمیاتی تبدیلی کو بھی تشویش ناک حد تک بڑھا دیا ہے جبکہ عام طور پر اس نکتے کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کے ذرات گرین ہاؤس گیسوں کو ماحول سے ختم کرنے کے لئے سمندری ماحولی نظام کی اہلیت کو محدود کر دیتے ہیں۔
یہ بیان ہے ایک اہل کارکا جسے فلپائن کی حکومت نے آبی راستے کی صفائی کا کام سونپا ہے، یہ وہ دریائی شاخ ہے جس میں ہر سال ٹنوں وزنی کوڑا پھینکا جاتا ہے۔ نرواس اپنے ہزاروں رینجرز اہل کاروں کے ساتھ اس اہم کام کو کرنے میں مصروف ہے لیکن وہ مایوس بھی ہے کہ کچرے کے ڈھیر بہت بلند اور وسیع ہیں۔
فلپائن کی حکومت نے دارالحکومت منیلا میں پلاسٹک کے بدبودار کوڑے سے بھرے دریا کی صفائی کا کام شروع کروا دیا ہے۔ اس دریا میں ہزاروں کی تعداد میں پلاسٹک کی بوتلیں، تھیلیاں اور شاپنگ بیگز دلدل کی صورت میں تعفن پیدا کر رہے ہیں جس کی صفائی ناگزیر ہے۔ مقامی محکمہ ماحولیات کے مطابق فلپائن ہر روز اکسٹھ ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جس کا چوبیس فی صد پلاسٹک سے بنی اشیا پر مبنی ہوتا ہے۔ فلپائن میں غربت نے مسائل کھڑے کر دیے ہیں وہ کچرا ری سائیکل کرنے والی تنصیبات سے محروم ہے۔
دنیا بھر میں پلاسٹک کی آلودگی کے حوالے سے فلپائن سرفہرست ہے۔ اس کا دریا پاسگ جو خلیج منیلا تک پہنچ کر سمندر میں گرتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ممالک کی چھان بین کی جاتی ہے جو سمندروں کو آلودہ کرتے ہیں ایسی ہی ایک ڈچ غیر سرکاری تنظیم اوشین کلین اپ کے مطابق فلپائن سمندری آلودگی اور فضلات کے حوالے سے پیش پیش ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے پاکستان کے اعداد و شمار بھی کچھ اچھے نہیں، لیکن اس میں کمی کے بجائے جس شرح سے ترقی دیکھی جا رہی ہے وہ پریشان کن حد تک ہے۔ ہم پلاسٹک بیگز، پلاسٹک کی بوتلیں اور روزمرہ کی استعمال کی اشیا میں پلاسٹک کا استعمال تو کھلے عام کرتے ہی ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ ایک عام پلاسٹک کے شاپر کو ماحول میں مکمل تلف ہونے کے لیے پانچ سو سال درکار ہوتے ہیں۔
پلاسٹک اور اس سے بنی اشیا دوسرے نامیاتی مرکبات سے بنی اشیا کے مقابلے میں مضبوط اور دیرپا ضرور ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد یہی اشیا ماحول میں جذب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، اسی بنا پر ان کے ڈھیر بنتے جاتے ہیں جن کے ری سائیکل عمل نہ ہونے کے باعث ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ڈھیر اونچے بلند پہاڑوں کی مانند ہمارے شہروں سے باہر اور اندر یوں ایستادہ نظر آئیں جیسے قدرت کے تخلیق کردہ ہوں، درحقیقت یہی ہماری صحت اور ماحول کے دشمن ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں بارہ ہزار سے پندرہ ہزار ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ فضلہ ہے جس کی ری سائیکلنگ کا کوئی انتظام نہیں۔ اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک میں بھی کچرے کی صورت حال کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ خاص کر دلی میں یہ نہایت ابتر ہے جہاں غازی آباد میں کچرے کا ڈھیر اس تیزی سے بلند ہو رہا ہے کہ اس کے آگے تاج محل بھی چھوٹا نظر آئے۔
کچرے کو بڑھانا آسان ہے لیکن اسے ٹھکانے لگانا اتنا ہی مشکل ہے۔ ایک عام انسان اپنے گھرکے کچرے کو ٹھکانے لگا سکتا ہے کیا وہ اسے اپنے ماحول اور اپنے گھر والوں کی صحت کی خاطر مفید بنا سکتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ آج کل کے اس تیز رفتار دور میں فرصت ہی کتنی ہے۔
ہمارے گھروں کے دروازوں پرکچرے والے آتے ہیں اور ماہانہ ایک رقم لے کرکچرے سمیت رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نہیں جانتے کہ وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ دراصل یہ پورا ایک نظام ہے جس میں کام کی اشیا کچرے سے الگ کر لی جاتی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کام کی اشیا سے بہت منافع کمایا جاتا ہے لیکن ہمیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ ہم اکثر سڑکوں کے کنارے، نالوں میں اورکوڑے دانوں کے اردگرد اور کئی بار صاف ستھری سڑکوں کے ساتھ بھی ایسے کئی کچرے کے ذرائع الٹے دیکھتے ہیں۔
سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ پھر کچرا کیوں؟ جب کہ عام گھروں سے لے کر نجی سوسائٹیز والے اس طرح کی مد میں اچھے خاصے پیسے ادا کرتے ہیں، پھر ہماری سڑکوں پر کچرے کے باعث گٹر کیوں بہتے نظر آتے ہیں۔
ہم فلپائن سے بہتر حالت میں ہیں یا نہیں، لیکن اوپر والے کے فضل سے ہم خود سے کتے پکڑکرکھانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہمارے گھروں میں اور محکموں میں اوپر والے نے بڑا کرم کر رکھا ہے بس ہم اسی میں لگے رہتے ہیں کہ کیسے؟ہم اس '' کیسے؟ '' سے آگے اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتے جب تک ہم خود انفرادی طور پر اپنے اعمالوں کو نہیں کم ازکم اپنے کچروں ( گھروں کے ) کے ڈبوں کو کنٹرول کرنا سیکھ لیں،گھریلو طور پر چائے کی پتی اور پھلوں اور سبزیوں کے کچروں کو محلے کی سطح پرکسی ایک جگہ گڑھا کھود کر دفن کیا جاسکتا ہے۔
جہاں دو تین مہینے میں اچھی کھاد تیار ہوکر فروخت بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ کھاد ہم درختوں اور پودوں کی افزائش کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ویسے بھی خدا جانے ہمارے ملک میں شہروں سے درختوں کوکاٹنے کی کیا بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک اپنے وجود کے تمام عرصہ میں صحت مند ماحول، زندگی، صحت، خوراک، پانی اور اچھے معیار زندگی کے حقوق کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔
پلاسٹک کی پیداوار کے نتیجے میں خطرناک مادے خارج ہوتے ہیں اور اس کی تقریباً تمام تر پیداوار معدنی ایندھن کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ پلاسٹک میں بذات خود ایسے زہریلی کیمیائے مادے پائے جاتے ہیں جو انسانوں اور فطری ماحول کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔ ایک مرتبہ استعمال کے بعد پھینک دیا جانے والا 85 فیصد پلاسٹک زمین میں دبا دیا جاتا ہے یا اسے ماحول میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پلاسٹک کو جلانے، اسے ری سائیکل کرنے اور دیگر غیر محفوظ طریقے اس خطرے کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور پلاسٹک، اس کے باریک ذرات اور اس میں موجود خطرناک مادے ہماری خوراک، پینے کے پانی اور ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔
پسماندہ طبقات پلاسٹک سے متعلقہ آلودگی اور کچرے سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے رہائشی علاقے جو کھلی معدنی کانوں، پٹرول صاف کرنے والے کارخانوں، سٹیل کے پلانٹ اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے قریب ہوتے ہیں، وہاں کے لوگ ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پلاسٹک کی آلودگی نے موسمیاتی تبدیلی کو بھی تشویش ناک حد تک بڑھا دیا ہے جبکہ عام طور پر اس نکتے کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کے ذرات گرین ہاؤس گیسوں کو ماحول سے ختم کرنے کے لئے سمندری ماحولی نظام کی اہلیت کو محدود کر دیتے ہیں۔