علم کی فضیلت اور اہمیت
معلم کو ہمیشہ اچھائی، نیکی اور بھلائی کی ترغیب دینی چاہیے
ہدایت کے دائمی منشور و مومنوں کی فلاح کے نسخہ کیمیا قرآن میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (ترجمہ) ''اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کر کے انہیں سب چیزوں کے اسماء کا علم دیا، پھر وہ چیزیں فرشتوں کے روبرو کر دیں پھر فرمایا کہ مجھ کو ان چیزوں کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو، فرشتوں نے عرض کیا آپ تو پاک ہیں ہم کو تو وہی کچھ علم ہے جو آپ نے ہمیں سکھایا۔ بے شک! آپ بڑے علم والے، حکمت والے ہیں۔'' (سورۃ البقرہ)
اس آیت مبارکہ سے علم کی فضیلت اور اہمیت اور اس کے دینے والوں یعنی عالموں کے مرتبے کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی وقار کا راز بھی علم میں ہی ہے۔ حضرت آدم ؑ کو فرشتوں پر فوقیت بھی اس لیے دی گئی کہ حضرت آدم ؑ کو اللہ پاک نے وہ علم عطا فرمایا جو فرشتوں کو حاصل نہیں تھا۔ رب تعالیٰ نے نبی پاکﷺ پر جو پہلی وحی نازل فرمائی اگر اس کی حکمت پر غور کیا جائے تو اندازہ ہو کہ دین اسلام نے حصول علم کو کس قدر اہمیت دی ہے۔
(ترجمہ) ''اے پیغمبر پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے مخلوقات کو پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ ﷺ قرآن پڑھا کیجیے اور آپﷺ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی اور انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا (سورہ علق) اور نبی پاکﷺ کو یہ ترغیب بھی دی کہ (ترجمہ) ''آپ ﷺ دعا کیجیے کہ اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما'' (سورہ طلحہ)۔ اور اسی علم کی بدولت انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا گیا۔
انسان کی بنیادی ضرورت علم حاصل کرنا ہے۔ قرآن کی مجالس مردہ دلوں کو زندگی بخشتی ہیں۔ قرآن کو جب دل سے سنا جائے تو قلب پر اس قدر اس کا اثر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں جو اس کی صداقت و حقانیت کی دلیل ہے کیونکہ دنیا میں اس سے زیادہ سچا کلام اور کوئی نہیں۔ چودہ سو سال گزرنے پر بھی اس میں کسی قسم کی تحریف نہ ہوسکی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ تو رب کے پاس ہے جو آسمان سے نبی پاکﷺ کے نورانی دل پر اتارا گیا۔
رب فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن کو سچائی اور حق کا راستہ دکھانے والا بنا کر اتارا۔ جزا و سزا والے دن انسان یہ سوچ رہا ہوگا کہ کاش قرآن کا راستہ اختیار کر لیتا جو نجات، سکون، انعامات کا راستہ ہے۔ قرآن کی تلاوت سے اللہ خود بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ حفاظ کے والدین کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا، جس کی روشنی سورج سے زیادہ ہوگی روز قیامت جس اکرام سے انہیں نوازا جائے گا، اسے دیکھ کر ہر شخص یہ خواہش کرے گا کہ کاش میں بھی حافظ ہوتا۔
قرآن کا علم حاصل کرنا ہر مومن پر فرض ہے جس سے اللہ کی عظمت کا فہم حاصل ہوتا ہے۔ قرآن کا علم انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ براہ راست قدرت کے خزانوں سے کیسے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ جہالت ہے جبکہ اسکول، کالج، مدرسے بہت ہیں اور اس کا اہم سبب قرآن و حدیث کا علم نہ ہونا ہے۔
آج کل کا سب سے بڑا المیہ تربیت کا بہت بڑا فقدان ہے کیونکہ گھروں کا ماحول دینوی، قرآنی و علمی نہیں رہا ہے جب کہ ہم سب اصلاح، تربیت کے محتاج ہیں۔ بے شک قرآن کا علم دینے والے علماء و قاری حضرات لائق ستائش ہیں اور ان کے مرتبے کا علم اس حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ دو مجلسوں کے پاس سے گزرے جو مسجد میں منعقد ہورہی تھیں آپﷺ نے ارشاد فرمایا دونوں مجلسیں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک دوسری سے بہتر ہے ان دونوں جماعتوں میں سے ایک عبادت میں مصروف اور خدا سے دعا کررہی ہے اور اس سے اپنی رغبت اور خواہش کا اظہار کر رہی ہے اور دوسری جماعت جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے، لہٰذا یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں، یہ ارشاد فرما کر آپﷺ بھی ان میں بیٹھ گئے (مشکوہ) اور طالبعلم کے بارے میں رسول پاکﷺ فرماتے ہیں کہ ''جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلے وہ جب تک گھر واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں ہے۔'' (مشکوہ)
معلم کو ہمیشہ اچھائی، نیکی اور بھلائی کی ترغیب دینی چاہیے۔ دنیاوی علم بھی کسی نہ کسی درجے میں اچھائی برائی کی تفریق کرنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے، اس لیے اس علم کو یہ کہہ کر مسترد کر دینا کہ اس علم کا آخرت میں کوئی نفع نہ ہوگا، یہ سراسر زیادتی ہے اور ویسے بھی جزا و سزا کے فیصلے کا حق صرف خدائے بزرگ و برتر کو ہے۔
خدا پاک فرماتے ہیں کہ (ترجمہ): ''آپ کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم لوگ کہیں برابر ہوسکتے ہیں؟ وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل ہیں'' (سورہ الزمر) اس فرمان الٰہی سے ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل علم ہی نصیحت پا سکتے ہیں کیونکہ وہ شعور رکھتے ہیں سمجھنے اور عمل کرنے کا ۔خدا ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)