کرکٹ کے چاہت فتح علی خان

سپر اوور شروع ہوا تو محمد عامر جنھیں بڑی چاہت سے واپس لایا گیا تھا وہ کرکٹ کے چاہت فتح علی خان ثابت ہوئے


Ayaz Khan June 09, 2024
[email protected]

ایک کرکٹ ہی بچی تھی جو کبھی کبھار قوم کو خوشی کا کوئی موقع فراہم کر دیتی تھی لیکن شومئی قسمت وہ بھی بڑی تیزی سے تباہی اور بربادی کی طرف گامزن ہے۔

چیئرمین پی سی بی نے جب ٹیم کو یہ سمجھایا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں تو وہ پر اعتماد تھے کہ اب ہمارے کرکٹر بہترین پرفارمنس دیں گے۔ تب شائقین کو بھی یوں محسوس ہوا جیسے ہماری ٹیم ہر میدان میں کامیابیاں سمیٹنا شروع کر دے گی۔

چیئرمین پی سی بی کی نصیحت کے بعد یاد آیا کہ گزشتہ ماہ انڈین پریمیئر لیگ کی تیسری بار چیمپیئن بننے والی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے کوچ گوتم گمبھیر نے بتایا کہ وہ جب اس ٹیم کے کپتان بنے تھے تو کے کے آر کے اونر شاہ رخ خان نے ان سے کہا تھا کہ انھیں یہ کبھی پسند نہیں آیا کہ کوئی انھیں یہ بتائے کہ انھیں اداکاری کیسے کرنی چاہیے' بالکل ایسے ہی آپ کو بھی یہ اچھا نہیں لگے گا کوئی آپ کو یہ بتائے کہ کرکٹ کیسے کھیلنی ہے۔

بالی ووڈ کے سپرا سٹار نے کرکٹ ٹیم خریدنے کے باوجود یہ ضروری سمجھا کہ جس کا کام ہے وہی اسے بہتر انداز میں کر سکتا ہے' کسی ایسے شخص کا مشورہ جو کرکٹ کی اے بی سی بھی نہیں جانتا محض خرابی ہی لا سکتا ہے۔ ہمارا تو یہ ویسے بھی مسئلہ ہے کہ جس کو جو کام نہیں آتا وہ اس کا ماہر بنتا ہے۔

نقوی صاحب نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ قوم ایک ماہ کے لیے کرکٹرز کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ تنقید نہ کی جائے۔ حضور اگر قومی ٹیم کی پرفارمنس ایسی ہی رہی تو ایک ماہ کیا پوری زندگی کے لیے قوم انھیں چھوڑ دے گی۔ ہاکی کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ ہاکی ٹیم اب بہتر پرفارم کرنے لگی ہے۔

قومی کرکٹرز کی کاکول میں ہونے والی ٹریننگ پر بھی بہت تنقید ہوئی تھی بلکہ اب بھی ہو رہی ہے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ انھیں کمانڈو بنانے کی ضرورت نہیں۔ کرکٹر کو کرکٹر ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ ماجد خان کو کون نہیں جانتا۔ اپنے دورکے اسٹائلش بیٹسمین' ایک انتہائی با اصول انسان اور بہترین منتظم کی شہرت رکھنے والے مائٹی خان جب اپنے کیرئیر کے آخری دورمیں تھے تو وہ باغ جناح کی کرکٹ گرائونڈ میں نیٹ پریکٹس کے بجائے ہاکی کھیلا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اتنی کرکٹ کھیل چکے ہیں کہ انھیں اب نیٹ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد اور کچھ تو نہیں ہوا البتہ ان کا کرکٹ کیرئیر ختم ہو گیا۔

یہ بات درست ہے کہ آج کے دور میں کرکٹ بہت زیادہ ہو گئی ہے اس لیے کھلاڑیوں کی فٹنس بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھیں کمانڈو جیسی سخت ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ انھیں صرف کرکٹ کے میدان کے لیے فٹنس درکار ہے' محاذ جنگ پر جانے یا جان کی بازی لگانے والے مشن کی تکمیل کے لیے فولاد بننے والی ٹریننگ کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ امریکا جیسی نو آموز ٹیم سے ہار کے بعد نقوی صاحب پر بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔

اگرچہ نیوزی لینڈ کے ''بچوں'' کی ٹیم کے خلاف ہوم گراؤنڈ اور پھر آئر لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف بھی قومی ٹیم ٹھیک پرفارم نہیں کر سکی لیکن اس سب کا ملبہ اکیلے چیئرمین پر ڈال دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ان کا قصور ہے تو صرف اتنا کہ بطور نگران وزیر اعلیٰ ان کی پرفارمنس پر خوش ہو کر انھیں چیئرمین پی سی بی کی ذمے داری سونپی گئی' پھر انھیں سینیٹر منتخب کرا دیا گیا اور بونس کے طور پر وفاقی وزیر داخلہ بھی بنا دیا گیا۔ وہ انتہائی جانفشانی سے اپنی ساری ذمے داری ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بجلی چوروں کے پیچھے وہ لگے ہوئے ہیں' دہشت گردی روکنے کے لیے پوری کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی نادرا اور کبھی پاسپورٹ آفس پہنچ جاتے ہیں۔ اسلام آباد جا کر انھیں محسوس ہوا کہ ٹریفک کے بہائو کی بہتری کے لیے انڈر پاسز کی ضرورت ہے تو اس پر بھی اجلاس کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔

ورلڈ کپ کے دوران انھیں محسوس ہوا کہ قومی ٹیم کا ہوٹل اسٹیڈیم سے بہت دور ہے تو ان کو قریبی ہوٹل میں شفٹ کروا دیا۔ انھیں اپنے اسٹیڈیم عالمی معیار کے نہیں لگے تو ان میں بھی توڑ پھوڑ کر کے جدید شکل دینے کے لیے جت گئے۔ ان سب کے علاوہ بھی بے شمار کام انھوں نے انپے ذمے لیے ہوئے ہیں۔

فرد واحد سے مزید کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ وہ بے قصور ہیں' اگر کسی کا قصور ہے تو انھیں اتنی ذمے داریاں دینے والوں کا ہے۔ انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ نقوی صاحب چونکہ دوستوں کے دوست ہیں اس لیے انھوں نے اپنے نگران وزیر کھیل وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر بھی بنایا اور ورلڈ کپ کے لیے سینئر منیجر بھی مقرر کر کے ساتھ بھجوا دیا۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ٹیم پرفارم نہیں کر رہی تو اس میں نقوی صاحب یا وہاب ریاض کا کیا قصور ہے۔

امریکا کے حوالے سے اس قوم کو ہمیشہ بتایا گیا ہے کہ وہ سپر پاور ہے۔ ہمارے کرکٹر جمعرات کواس کے خلاف میدان میں اترے تو ان کی باڈی لینگوئج سے بھی لگ رہا تھا کہ وہ کسی سپر پاور سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ امریکی ٹیم کی بولنگ' فیلڈنگ اور بیٹنگ شاندار تھی۔ وہ پہلی گیند سے جیت کے لیے کھیل رہے تھے۔

بابر اعظم ٹاس ہار کر ہی پریشر میں آ گئے۔ رضوان کا انتہائی مشکل کیچ سلپ میں پکڑ لیا گیا تو ٹیم انتہائی دفاعی موڈ میں چلی گئی۔ پھر چند وکٹیں لاپروائی سے گنوانے کے بعد بابر اور شاداب نے بیٹنگ کو سہارا دیا۔ شاداب آئوٹ ہوئے تو بھاری بھر کم اعظم خان نے پہلی گیند پر پویلین کی راہ لے کر سفر مشکل کر دیا۔ بولرز نے ایک موقع پر امریکی بیٹنگ کو پھنسا لیا تو اسٹار بولر حارث رئوف نے آخری گیند پر چوکا کھا کر میچ ٹائی کروا دیا۔

سپر اوور شروع ہوا تو محمد عامر جنھیں بڑی چاہت سے واپس لایا گیا تھا وہ کرکٹ کے چاہت فتح علی خان ثابت ہوئے اور انھوں نے وائیڈ بولز کی بھرمار کر کے 18رنز بنوا دیے۔ اس کے بعد بھی ٹیم نہ ہارتی تو کوئی معجزہ ہی ہو سکتا تھا جو نہیں ہوا۔

اعظم خان کو ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں شامل کرنے والوں کو داد دینا تو بنتا ہے۔ بطور کیپر شامل کریں تو اس سے کیچ چھوٹ جاتے ہیں' بیٹنگ اس سے ہوتی نہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ٹیم پر اتنا بوجھ ڈالنا کیوں ضروری تھا۔ شاید یہاں پر کسی کی کسی طاقتور سے دوستی کام آ رہی ہو۔ کہتے ہیں کہ اعظم خان ہارڈ ہٹر ہے۔ کہنے والے بالکل ٹھیک کہتے ہیں اس نے جتنا اپنی ٹیم کو ہٹ کیا ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔

اللہ خیر کرے اگلا میچ انڈیا کے ساتھ ہے۔ کھلاڑیوں کو یہ بتا دیا جائے انھیں پرفارم ہی کرنا پڑے گا کیونکہ اب اس قوم کی دعائوں میں بھی اثر نہیں رہا۔ آخر میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے' تب بوجھ اتارا کرتے ہیں۔ کوئی ہے جو کرکٹ کو بچا لے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں