ہندوستان کے عام انتخابات ایک غیر روایتی تجزیہ

مودی کو یوپی، راجھستان اور مہاراشٹر میں جو شکست دیکھنی پڑی ہے وہ ان کے لیے انتہائی پریشانی کا سبب ہے

zahedahina@gmail.com

ہندوستان میں لوک سبھا کے انتخابات کے مکمل نتائج سامنے آچکے ہیں اور ان پر پوری دنیا میں تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

عام طور پر جو تجزیے سامنے آرہے ہیں، ان میں روایتی انداز فکرکی جھلکیاں نظر آتی ہیں جس سے تصویرکا ایک رخ تو بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے لیکن ان انتخابات کا مکمل منظر نامہ اوجھل رہتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات کے ان پہلوئوں کو بھی اجاگرکیا جائے جن پر تجزیہ نگاروں کی جانب سے توجہ نہیں دی گئی۔

لوک سبھا ( جسے ہم قومی اسمبلی کہتے ہیں ) کی 543 نشستوں کے لیے انتخابات عمل میں آئے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے، کل ووٹروں کی تعداد 97 کروڑ سے زیادہ تھی۔ یہ انتخابی عمل ملک کی تاریخ کے طویل ترین عرصے پر محیط تھا۔

ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے ثابت کردیا کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک اور سب سے بڑے پارلیمانی انتخابات کو صاف اور شفاف انداز میں کس طرح کرایا جاسکتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں نے نتائج پر اطمینان کا اظہارکیا اور کسی کی جانب سے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام نہیں لگایا گیا۔

الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کے لیے 11لاکھ پولنگ اسٹیشن قائم کیے تھے، یہ جان کر لوگوں کو یقینا حیرت ہوگی کہ انتخابی عملہ ڈیڑھ کروڑ افراد پر مشتمل تھا۔ انتخابات الیکٹرونک مشین کے ذریعے ہوئے جس کے لیے 55 لاکھ ووٹنگ مشینیں نصب کی گئی تھیں۔ کسی بھی ملک میں اگر ادارے مضبوط ہوں، انھیں خود مختاری حاصل ہو اور تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، تو ملک میں ترقی کے لیے درکار سیاسی اور سماجی استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔

ہندوستان کے انتخابی نتائج کا تجزیہ غیر جذباتی انداز میں کرنا چاہیے۔کسی بھی سیاسی اور نظریاتی پسند نا پسند یا سوچ سے بالا تر ہو کر اگر معروضی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو بعض ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جنھیں یا تو نظر انداز کر دیا گیا یا پھر ان پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اس نکتے کو اجاگر نہیں کیاگیا کہ 1962کے بعد پہلی مرتبہ کوئی برسر اقتدار حکومت مسلسل تیسری بار اقتدار میں آئی ہے۔ 1962 سے پہلے کانگریس کے قائد پنڈت جواہر لعل نہرو مسلسل تین بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کو 63 نشستوں سے محروم ہونا پڑا ہے اور ان کے مخالف انتخابی اتحاد کو 2019کے مقابلے میں کافی زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کانگریس کو 47 سماج وادی پارٹی کو 37 اور ممتا بینرجی کی ترنمول کانگریس کو 29 اضافی سیٹیں ملی ہیں۔

نریندر مودی 400کا ہدف نہیں پاسکے اور ان کی اپنی جماعت کو بھی سادہ اکثریت نہیں مل سکی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کی قیادت میں 37جماعتی اتحاد مل کر بھی اتنی نشستیں نہیں لے سکیں، جتنی ان کی مخالف بی جے پی نے تنہا حاصل کی ہیں۔کانگریس کے 99 امیدوار کامیاب ہوسکے جب کہ اس کی مخالف جماعت کے 242 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ اس حوالے سے بی جے پی کی دو بڑی اتحادی جماعتوں کا جائزہ لے لیا جائے۔


آندھرا پردیش کے تلگو دیشم پارٹی کے پاس 16 لوک سبھا ووٹ ہیں۔ اس کے سربراہ ماضی میں کئی بار اپنے موقف پر یو ٹرن لے چکے ہیں اور نریندر مودی کے خلاف سخت بیان دیتے رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ صرف ان کی پارٹی کے ووٹوں سے بی جے پی کو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت نہیں مل پائے گی، لیکن ان کی مدد کے بغیر مودی وزیراعظم بھی نہیں بن سکتے، لہٰذا یہ طے ہے کہ چندر بابو در پردہ یا کھلے عام اتحادی حکومت میں اگر آج نہیں تو آگے چل کر اہم عہدے اور وزارتوں مانگیں گے۔

اسی طرح جے ڈی یو کے سربراہ اور بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار بھی یو ٹرن لینے کا '' شاندار '' ریکارڈ رکھتے ہیں اور ماضی میں کم ازکم چھ بار پلٹا مار چکے ہیں، اسی حوالے سے انھیں ' پلٹو کمار' کا لقب دیا گیا ہے، وہ بہار پر سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کی جماعت کے لوک سبھا میں 12 ووٹ ہیں۔ انھیں بہار اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے جہاں ان کو بی جے پی کی مدد کی کوئی ضرورت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے، اس لیے وہ سیاسی بلیک میلنگ کا اپنا ہنر خوب آزمائیں گے۔

ہوسکتا ہے بعض لوگوں کو یہ بات زیادہ پسند نہ آئے لیکن حقیقتاً مودی اب بھی اپنے ملک کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ ان کی جماعت کے ووٹ شیئر میں کمی نہیں آئی جب کہ انھیں عام توقعات کے برعکس کافی کم نشستیں مل سکیں۔ کانگریس اور ا س کے اتحاد میں شامل جماعتیں اس بات پر خوشیاں منا رہی ہیں کہ ان بدترین سیاسی حریف کی جماعت کو سادہ سے زیادہ اکثریت نہیں ملی ہے، لیکن خوشی کے یہ لمحات عارضی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ این ڈی اے اتحاد پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرچکا ہے۔

کانگریس کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ راہول گاندھی کو نریندر مودی کا سیاسی متبادل نہیں بنا سکی۔ لوک سبھا کے انتخاب میں ووٹروں نے بی جے پی کو نہیں بلکہ مودی کو ووٹ ڈالے تھے، یہ کام کانگریس نہیں کرسکی، یہ بات ہندوستان کی جمہوریت کے حق میں ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر یہ حقیقت واضح ہے کہ ہندوستان میں قومی سطح پر اس وقت کوئی رہنما نریندر مودی کے مضبوط متبادل کے طور پر موجود نہیں ہے۔

حقیقت پسندی کا تقاضہ ہے کہ وہ حقائق بھی سامنے لائے جائیں جو ہندوستان کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ کم تجزیہ نگاروں نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ کانگریس کا 37جماعتی اتحاد کسی بھی صوبے میں کلین سوئپ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ لوک سبھا کے ساتھ بعض ریاستوں میں صوبائی انتخابات بھی منعقد ہوئے تھے۔ ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کامیاب ہوئی ہے۔

ارونا چل پردیش، آندھرا پردیش، اڑیسہ، سکم میں کانگریس کو بری طرح ہزیمت اٹھانی پڑی ہے، جو لوگ ہندوستان کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں ان کا خیال تھا کہ کیرالہ میں بھی بی جے پی کو ہمیشہ کی طرح ایک بھی نشست نہیں ملے گی لیکن وہاں بھی اس جماعت کو ایک کامیابی ملی ہے ۔ مزید برآں تلنگانہ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ،اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور دلی میں کانگریس اتحاد کو بد ترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ جنوب اور مشرق کی ریاستوں میں بی جے پی کو غیر متوقع کامیابیاں ملی ہیں۔

نریندر مودی خوش ہوں گے کہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن انھیں یوپی، راجھستان اور مہاراشٹر میں جو شکست دیکھنی پڑی ہے وہ ان کے لیے انتہائی پریشانی کا سبب ہے۔ یہ علاقے بی جے پی کا گڑھ تصورکیے جاتے ہیں جو اگر ہاتھ سے نکل جائیں تو نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔

انتخابی نتائج کے بعد بطور وزیر اعظم نریندر مودی کی طاقت میں کمی واقع ہوگی وہ پہلے اپنے اتحادیوں کی کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے تھے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کر لیا کرتے تھے اب انھیں ہر بڑے فیصلے میں اپنے اتحادیوں کی حمایت درکار ہوگی جو انھیں آگے چل کر بلیک میل بھی کرسکتے ہیں۔

ہندوستان کے حالیہ لوک سبھا انتخابات کے غیر روایتی اور زیادہ معروضی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انتخابات مستقبل میں نریندر مودی اور ان کے سیاسی مخالفین دونوں کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ مودی ایک طاقتور وزیر اعظم نہ بننے کی اذیت سے گزریں گے، جب کہ ان کی مخالف سیاسی جماعتیں ان کے سیاسی متبادل کی تلاش میں سرگرداں رہیں گی۔
Load Next Story