کرپشن کے ذمے دار صرف سیاستدان ہی کیوں
دونوں حکومتوں پر کرپشن، ملک لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات تھے
کرپشن، ملک لوٹنے اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کے جتنے الزامات سیاستدانوں پر لگے اتنے الزامات ملک کی بیوروکریسی اور دیگر اداروں پر نہیں لگے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خود بدنام ہو کر دوسروں کو اشرافیہ بنانے والے بھی خود سیاستدان ہی ہیں۔
1973ء کے آئین کے تحت ملک میں پہلی حکومت پیپلز پارٹی کی بنی تھی جس کے سربراہ کے اپنے غیر جمہوری اقدامات کے باعث ملک میں 1977میں مارشل لا لگا اور جنرل ضیا نے جنرل ایوب کی طویل حکومت کا ریکارڈ توڑ کر اگست 1988 تک سب سے طویل حکومت کی تھی جس کے دوران 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کی سیاسی حکومت بھی قائم ہوئی تھی جو ایک اچھی حکومت تھی جس کے وزیر اعظم پر کرپشن، غیر جمہوری اقدامات، من مانیوں کے الزامات نہیں لگے تھے بلکہ انھوں نے ملک سے مارشل لا ختم کرایا تھا جس کے بعد جنرل ضیا نے 1988 میں ان کی حکومت ضرور ختم کی تھی مگر جونیجو حکومت پر کرپشن کا کوئی بھی الزام نہیں تھا بلکہ وزیر اعظم جونیجو نے کرپشن کے باعث اپنا ایک وزیر بھی برطرف کیا تھا۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد 1988 میں بے نظیر بھٹو پھر نواز شریف، پھر بے نظیر بھٹو پھر 1997 میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت قائم ہوئی تھی جو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔
1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی چاروں حکومتیں کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں اور دونوں وزرائے اعظم نے اپنی اپنی حکومت میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے، مقدمات بنائے، ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی کا خیر مقدم اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے رہے تھے۔
جنرل پرویز بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ہی کو کرپٹ قرار دیتے تھے حالانکہ جنرل پرویز کے ہاتھوں نواز حکومت کی برطرفی کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کر کے جنرل پرویز کی حمایت کی تھی مگر بعد میں دونوں کو جنرل پرویز نے جلا وطن ہونے پر مجبور کیا اور دونوں کی سیاست ختم کرنے کے دعوے کیے اور دونوں کی پارٹیاں توڑ کر مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی جس نے 5 سال حکومت کی جس میں تین وزیر اعظم رہے مگر (ق) لیگ کی حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں لگے جتنے پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت پر لگے۔
دونوں حکومتوں پر کرپشن، ملک لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات تھے ان الزامات میں سرے محل اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل تھے جن کی دونوں تردید کرتے رہے۔ نواز شریف اور زرداری فیملی پر کرپشن کے سنگین الزامات عمران خان نے لگائے مگر دونوں نے عمران خان پر ہتک عزت کا کیس تک نہیں کیا ۔
عمران حکومت میں سی پیک کے سربراہ پر کرپشن کے الزامات لگے مگر وزیر اعظم عمران خان نے انھیں خود ہی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا اور نیب کو ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دی۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی حکومتوں میں اعلیٰ بیوروکریٹس پر الزامات سامنے آئے مگر تینوں حکومتوں میں انھیں اپنی اپنی حکومتوں میں تحفظ دیا گیا اور اپنے اپنے حامی ان اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی کی گئی۔
عمران خان واحد وزیر اعظم تھے جنھیں بعض ججز کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں پہلی بار ایک سیاستدان عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جن پر اپنی حکومت میں کرپشن، القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ لوٹنے کے الزامات لگے اور اب قید ہیں۔ ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ میں بعض ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ انھیں سیاستدانوں کو گاڈ فادر، سسلین مافیا اور پراکسی قرار دیا گیا۔ دو وزیر اعظم برطرف ایک کو پھانسی غلط طور دی جسے اب سپریم کورٹ نے بھی غلط قرار دیا ہے۔ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات سیاستدانوں پر لگے وہی قید ہوئے۔
انھوں نے ناحق سیاسی سزائیں بھگتیں مگر بیورو کریسی کے وہ افراد محفوظ رہے جن پر الزامات تھے مگر انھیں محفوظ رکھنے کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی تھے جنھوں نے اپنے اپنے من پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ کرپشن و دیگر الزامات کی ذمے داری ہمیشہ ہی سیاستدانوں پر رہی اور سیاسی سرپرستی اور اثر و رسوخ کے باعث اعلیٰ بیورو کریٹس ملک سے باہر جائیدادیں بنا کر اپنا مستقبل اس لیے بہتر اور محفوظ بناتے رہے کہ ریٹائر ہو کر انھوں نے فیملیز سمیت ملک سے باہر ہی رہنا ہے وہ سیاستدان نہیں ہیں کہ بعد میں انھیں سیاست کرنی ہو، جو چند سیاست میں آئے ناکام رہے اور سیاسی لوگ ہی سیاست کر رہے ہیں۔
1973ء کے آئین کے تحت ملک میں پہلی حکومت پیپلز پارٹی کی بنی تھی جس کے سربراہ کے اپنے غیر جمہوری اقدامات کے باعث ملک میں 1977میں مارشل لا لگا اور جنرل ضیا نے جنرل ایوب کی طویل حکومت کا ریکارڈ توڑ کر اگست 1988 تک سب سے طویل حکومت کی تھی جس کے دوران 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کی سیاسی حکومت بھی قائم ہوئی تھی جو ایک اچھی حکومت تھی جس کے وزیر اعظم پر کرپشن، غیر جمہوری اقدامات، من مانیوں کے الزامات نہیں لگے تھے بلکہ انھوں نے ملک سے مارشل لا ختم کرایا تھا جس کے بعد جنرل ضیا نے 1988 میں ان کی حکومت ضرور ختم کی تھی مگر جونیجو حکومت پر کرپشن کا کوئی بھی الزام نہیں تھا بلکہ وزیر اعظم جونیجو نے کرپشن کے باعث اپنا ایک وزیر بھی برطرف کیا تھا۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد 1988 میں بے نظیر بھٹو پھر نواز شریف، پھر بے نظیر بھٹو پھر 1997 میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت قائم ہوئی تھی جو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔
1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی چاروں حکومتیں کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں اور دونوں وزرائے اعظم نے اپنی اپنی حکومت میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے، مقدمات بنائے، ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی کا خیر مقدم اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے رہے تھے۔
جنرل پرویز بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ہی کو کرپٹ قرار دیتے تھے حالانکہ جنرل پرویز کے ہاتھوں نواز حکومت کی برطرفی کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کر کے جنرل پرویز کی حمایت کی تھی مگر بعد میں دونوں کو جنرل پرویز نے جلا وطن ہونے پر مجبور کیا اور دونوں کی سیاست ختم کرنے کے دعوے کیے اور دونوں کی پارٹیاں توڑ کر مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی جس نے 5 سال حکومت کی جس میں تین وزیر اعظم رہے مگر (ق) لیگ کی حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں لگے جتنے پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت پر لگے۔
دونوں حکومتوں پر کرپشن، ملک لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات تھے ان الزامات میں سرے محل اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل تھے جن کی دونوں تردید کرتے رہے۔ نواز شریف اور زرداری فیملی پر کرپشن کے سنگین الزامات عمران خان نے لگائے مگر دونوں نے عمران خان پر ہتک عزت کا کیس تک نہیں کیا ۔
عمران حکومت میں سی پیک کے سربراہ پر کرپشن کے الزامات لگے مگر وزیر اعظم عمران خان نے انھیں خود ہی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا اور نیب کو ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دی۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی حکومتوں میں اعلیٰ بیوروکریٹس پر الزامات سامنے آئے مگر تینوں حکومتوں میں انھیں اپنی اپنی حکومتوں میں تحفظ دیا گیا اور اپنے اپنے حامی ان اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی کی گئی۔
عمران خان واحد وزیر اعظم تھے جنھیں بعض ججز کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں پہلی بار ایک سیاستدان عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جن پر اپنی حکومت میں کرپشن، القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ لوٹنے کے الزامات لگے اور اب قید ہیں۔ ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ میں بعض ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ انھیں سیاستدانوں کو گاڈ فادر، سسلین مافیا اور پراکسی قرار دیا گیا۔ دو وزیر اعظم برطرف ایک کو پھانسی غلط طور دی جسے اب سپریم کورٹ نے بھی غلط قرار دیا ہے۔ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات سیاستدانوں پر لگے وہی قید ہوئے۔
انھوں نے ناحق سیاسی سزائیں بھگتیں مگر بیورو کریسی کے وہ افراد محفوظ رہے جن پر الزامات تھے مگر انھیں محفوظ رکھنے کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی تھے جنھوں نے اپنے اپنے من پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ کرپشن و دیگر الزامات کی ذمے داری ہمیشہ ہی سیاستدانوں پر رہی اور سیاسی سرپرستی اور اثر و رسوخ کے باعث اعلیٰ بیورو کریٹس ملک سے باہر جائیدادیں بنا کر اپنا مستقبل اس لیے بہتر اور محفوظ بناتے رہے کہ ریٹائر ہو کر انھوں نے فیملیز سمیت ملک سے باہر ہی رہنا ہے وہ سیاستدان نہیں ہیں کہ بعد میں انھیں سیاست کرنی ہو، جو چند سیاست میں آئے ناکام رہے اور سیاسی لوگ ہی سیاست کر رہے ہیں۔