خواتین ڈرائیورز کو قبول کیجیے
بیگم تم بھی کمال کرتی ہو، تم سے اتنا نہیں ہوسکتا کہ بچوں کو اسکول سے ہی لے آؤ۔ پتہ نہیں تم کب ڈرائیونگ سیکھو گی اور سیکھ بھی لو گی تو کیا کر بھی لوگی؟ یہ چند جملے تو ایک طرف رہے بعض اوقات اپنے دفتر میں کولیگز سے بھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ اوہ نو یار میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جارہا، تم بس مجھے گاڑی کی چابی دے دو میں خود چلا لوں گا کیونکہ تمہاری ڈرائیونگ کا تو کوئی بھروسہ ہی نہیں۔
ڈرائیونگ کے معاملے میں اکثر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، کسی مصروف سڑک کی بات تو الگ رہی جب سڑک خالی بھی ہو تو غیر ضروری ہارن دیے جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر خواتین ڈرائیورز پر آوازیں کس کر انھیں پریشان کیا جاتا ہے اور بسا اوقات اوور ٹیک کیا جاتا ہے۔ یہ سب ہمارا منفی رویہ ہے۔ ٹریفک قوانین سب کےلیے یکساں ہیں اور سڑک بھی سب کےلیے ہے تو گاڑیاں چلانے والوں میں فرق کیوں؟
شاید ہم اپنی روایتی سوچ کو اب تک تبدیل نہیں کرسکے کہ نہیں میری بہن یا بیوی کار نہیں چلا سکتی۔ اس میں اعتماد نہیں یا یہ کہ میں ہی اس کام کےلیے ہوں۔ یہ سب عذر ہیں جو پیش کرنا بہت آسان ہے۔ کوئی بھی ایمرجنسی ہو اور گھر میں گاڑی موجود ہے تو کیا خواتین اپنے شوہروں یا بیٹوں کے آنے کا انتظار کریں یا خود گاڑی چلا کر معاملات سنبھالیں۔
میں صرف ان خواتین ڈرائیورز کی بات نہیں کر رہی جن کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں، دنیا کے ایسے کئی ممالک ہیں جہاں خواتین ٹیکسی بھی چلا رہی ہیں۔ ممبئی میں ایک ایسی ٹیکسی سروس ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کی ٹیم میں تمام ڈرائیورز خواتین ہیں بلکہ انھیں کسی بھی انہونی سے نمٹنے کےلیے مارشل آرٹ کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔
پاکستان کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور 53 سالہ شمیم اختر ہیں۔ انھوں نے اپنا پہلا سفر راولپںڈی سے آزاد کشمیر تک کیا تھا۔ پہلے وہ ٹیکسی چلاتی تھیں بعد ازاں انھوں نے ٹرک بھی چلایا۔
سعودی عرب میں پہلے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جدید ریاستی تصور نے سعودی عرب میں خواتین کو خودمختار بنانے اور ملکی دھارے میں لانے کےلیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب یہاں بھی خواتین ڈرائیونگ کرسکتی ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر کو کئی افراد نے پسند بھی کیا۔
خواتین کی ڈرائیونگ سے متعلق کئی دلچسپ باتیں بھی ہیں۔ دبئی حکومت نے یہ کہا تھا کہ خواتین کے ساتھ چونکہ بچے ہوتے ہیں لہٰذا انھیں ڈرائیونگ میں زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں کی حکومت نے دورانِ ڈرائیونگ میک اپ کرنے والی خواتین کو ایک ہزار درہم تک جرمانہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
جنوبی کوریا نے اپنی خواتین کےلیے خصوصی پارکنگ کا انتظام بھی کیا جہاں بہتر روشنی فراہم کی جاتی ہے اور یہاں گاڑی پارک کرنے کےلیے ضروری نہیں کہ گاڑی کو صرف ریورس کرکے ہی پارک کیا جائے۔ لیکن سوال اب بھی یہی ہے کہ ضابطے اور قوانین بھی ہم جیسے لوگ ہی بناتے ہیں اور جب تک ہماری سوچ میں تبدیلی نہیں آتی محض قوانین سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہمیں اپنی خواتین کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی سڑک پر مہذب اور ذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دے سکتی ہیں۔ لیکن ہمیں اپنی سوچ میں وسعت اور تبدیلی لانا ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔