بھارتی انتخابات اور مضمرات پہلا حصہ
بھارت کی تاریخ کا وہ منحوس اور سیاہ ترین دن تھا جب عنان حکومت نریندر مودی کے ہاتھ میں آئی تھی۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلسل 3 مرتبہ فتح حاصل کرکے بھارت کے سب سے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا ریکارڈ برابر کردیا ہے لیکن بھاری اکثریت سے چناؤ جیتنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ ان کا نعرہ بلکہ دعویٰ تھا کہ ''اس بار چار سو پار'' یعنی وہ بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا کا چناؤ جیت کر ایک نیا ریکارڈ قائم کریں گے لیکن ان کا یہ دعویٰ دھرے کا دھرا رہ گیا اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ محض سادہ اکثریت حاصل کرسکے اور انھیں اپنی سرکار بنانے کے لیے این ڈی اے کی بے ساکھیوں کا سہارا لینا پڑے گا جس میں اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو ناڈو اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار شامل ہیں۔ اس سے قبل کہ کچھ اور کہا جائے بی جے پی کے سربراہ نریندر مودی کی شخصیت کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔
یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ نریندر مودی ایک انتہائی خود پرست، ضدی اور ڈھیٹ قسم کے شخص ہیں ۔ ان کا ماضی اور حال بتاتا ہے کہ وہ ایک شدید قسم کے نفسیاتی مریض ہیں جن کا علاج مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ان کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں یہ مرض بچپن سے ہی لاحق ہے، وہ جب اسکول کے طالب علم تھے تو تب سے ہی ان کی ہٹ دھرمی صاف ظاہر تھی، وہ نہ کسی کی بات مانتے تھے اور نہ اپنے آگے کسی کی چلنے دیتے تھے۔
ان کا سیاسی کیریئر اِس حقیقت پر مہر ثبت کرتا ہے، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس وقت سے ہی ان کی یہ مزاجی کیفیت سب پر عیاں ہوگئی تھی۔ یہ بات بھی صیغہ راز میں نہیں ہے کہ بی جے پی کو جنم دینے والی بھارتی انتہا پسند سیاسی جماعت آر ایس ایس میں بھی ان کی یہ ذہنیت ظاہر ہوگئی تھی لیکن سیاسی مصلحت کی وجہ سے یہ راز افشا نہیں ہوا۔
بھارت کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد یہ بھید کھل کر سب کے سامنے آگیا۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ نریندر مودی کی رائے سے اختلاف کرسکے حتیٰ کہ بی جے پی کی دوسری اہم شخصیت امیِت شا بھی اس معاملے میں انتہائی محتاط رہتے ہیں۔
مودی نے جس دن وزارت عظمیٰ کی باگ ڈور سنبھالی تھی، اسی دن جمہوریت کا قتل ہوگیا تھا اور فسطائیت کے دور کا قتل ہوگیا تھا۔ نریندر مودی محض نام کے وزیر اعظم تھے جب کہ عملاً وہ جرمنی کے بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ہٹلر کے جانشین تھے۔ انھوں نے شروع دن سے ہی طے کررکھا تھا کہ وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے خواہ اس کا انجام کچھ بھی ہو۔ جھوٹ پر جھوٹ بولنا اور پھر کہہ کر مکر جانا ان کی شخصیت کی خاصیت ہے جسے بھارت کے عوام و خواص خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔
بھارت کی تاریخ کا وہ منحوس اور سیاہ ترین دن تھا جب عنان حکومت نریندر مودی کے ہاتھ میں آئی تھی۔ ہندو توا کا نعرہ ان کا سب سے گھناؤنا حربہ و فریب تھا، جس کے ذریعے انھوں نے کٹر ہندو طبقات کو ورغلا کر اپنی ابلیسیت کی شروعات کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے منو اسمرتی نامی مذہبی یاد داشت کا حوالہ دیا جس کا درحقیقت کوئی اتا پتا نہیں ملتا۔
اس یاد داشت کو مودی نے اپنی من مانی کی بنیاد بنایا ہے جس کے مطابق ہندو مذہب میں براہمنوں کو سماج میں اولیت حاصل ہے، چناچہ انھوں نے اسی کو اپنی سیاست کی بنیاد بنا کر پسماندہ ہندو طبقات کو دبا کر رکھا۔ نچلی ذات کے ہندو طبقات کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت کی اکثریت نچلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے جنھیں عملاً اچھوت کہا جاتا ہے اور جن کو ہندوؤں کے عام مندروں میں داخل ہونے تک کی بھی اجازت نہیں ہے۔
یہ بات بھی انتہائی قابلِ ذکر ہے کہ بھارت کی آئین ساز اسمبلی کے سربراہ اور روح رواں بابا صاحب امبیڈکر کا تعلق بھی اسی اچھوت برادری سے تھا۔ دوسری جانب بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سیکولر ذہنیت کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے آئین میں سیکولر ازم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے۔
بھارت کا ہر شہری خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقہ یا مذہب سے ہو برابری کا حقدار ہے۔ بی جے پی جس کا منشور ہی ہندو توا کے خمیر سے اٹھا ہے، اسی وجہ سے بھارت کے آئین کا خاتمہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے، اگر کسی طرح ایک مرتبہ وہ پھر اکثریت سے برسر اقتدار آجاتی ہے تو اس کا پہلا ہدف سیکولر آئین کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ بہت ہی نازک نکتہ ہے جسے بھارت کا دانشور طبقہ خوب اچھی طرح جانتا اور مانتا ہے۔ یہ وہ نازک موڑ ہے جس پر بھارت کی بقا و سلامتی کا انحصار ہے۔ (جاری
یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ نریندر مودی ایک انتہائی خود پرست، ضدی اور ڈھیٹ قسم کے شخص ہیں ۔ ان کا ماضی اور حال بتاتا ہے کہ وہ ایک شدید قسم کے نفسیاتی مریض ہیں جن کا علاج مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ان کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں یہ مرض بچپن سے ہی لاحق ہے، وہ جب اسکول کے طالب علم تھے تو تب سے ہی ان کی ہٹ دھرمی صاف ظاہر تھی، وہ نہ کسی کی بات مانتے تھے اور نہ اپنے آگے کسی کی چلنے دیتے تھے۔
ان کا سیاسی کیریئر اِس حقیقت پر مہر ثبت کرتا ہے، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس وقت سے ہی ان کی یہ مزاجی کیفیت سب پر عیاں ہوگئی تھی۔ یہ بات بھی صیغہ راز میں نہیں ہے کہ بی جے پی کو جنم دینے والی بھارتی انتہا پسند سیاسی جماعت آر ایس ایس میں بھی ان کی یہ ذہنیت ظاہر ہوگئی تھی لیکن سیاسی مصلحت کی وجہ سے یہ راز افشا نہیں ہوا۔
بھارت کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد یہ بھید کھل کر سب کے سامنے آگیا۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ نریندر مودی کی رائے سے اختلاف کرسکے حتیٰ کہ بی جے پی کی دوسری اہم شخصیت امیِت شا بھی اس معاملے میں انتہائی محتاط رہتے ہیں۔
مودی نے جس دن وزارت عظمیٰ کی باگ ڈور سنبھالی تھی، اسی دن جمہوریت کا قتل ہوگیا تھا اور فسطائیت کے دور کا قتل ہوگیا تھا۔ نریندر مودی محض نام کے وزیر اعظم تھے جب کہ عملاً وہ جرمنی کے بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ہٹلر کے جانشین تھے۔ انھوں نے شروع دن سے ہی طے کررکھا تھا کہ وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے خواہ اس کا انجام کچھ بھی ہو۔ جھوٹ پر جھوٹ بولنا اور پھر کہہ کر مکر جانا ان کی شخصیت کی خاصیت ہے جسے بھارت کے عوام و خواص خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔
بھارت کی تاریخ کا وہ منحوس اور سیاہ ترین دن تھا جب عنان حکومت نریندر مودی کے ہاتھ میں آئی تھی۔ ہندو توا کا نعرہ ان کا سب سے گھناؤنا حربہ و فریب تھا، جس کے ذریعے انھوں نے کٹر ہندو طبقات کو ورغلا کر اپنی ابلیسیت کی شروعات کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے منو اسمرتی نامی مذہبی یاد داشت کا حوالہ دیا جس کا درحقیقت کوئی اتا پتا نہیں ملتا۔
اس یاد داشت کو مودی نے اپنی من مانی کی بنیاد بنایا ہے جس کے مطابق ہندو مذہب میں براہمنوں کو سماج میں اولیت حاصل ہے، چناچہ انھوں نے اسی کو اپنی سیاست کی بنیاد بنا کر پسماندہ ہندو طبقات کو دبا کر رکھا۔ نچلی ذات کے ہندو طبقات کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت کی اکثریت نچلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے جنھیں عملاً اچھوت کہا جاتا ہے اور جن کو ہندوؤں کے عام مندروں میں داخل ہونے تک کی بھی اجازت نہیں ہے۔
یہ بات بھی انتہائی قابلِ ذکر ہے کہ بھارت کی آئین ساز اسمبلی کے سربراہ اور روح رواں بابا صاحب امبیڈکر کا تعلق بھی اسی اچھوت برادری سے تھا۔ دوسری جانب بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سیکولر ذہنیت کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے آئین میں سیکولر ازم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے۔
بھارت کا ہر شہری خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقہ یا مذہب سے ہو برابری کا حقدار ہے۔ بی جے پی جس کا منشور ہی ہندو توا کے خمیر سے اٹھا ہے، اسی وجہ سے بھارت کے آئین کا خاتمہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے، اگر کسی طرح ایک مرتبہ وہ پھر اکثریت سے برسر اقتدار آجاتی ہے تو اس کا پہلا ہدف سیکولر آئین کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ بہت ہی نازک نکتہ ہے جسے بھارت کا دانشور طبقہ خوب اچھی طرح جانتا اور مانتا ہے۔ یہ وہ نازک موڑ ہے جس پر بھارت کی بقا و سلامتی کا انحصار ہے۔ (جاری