کھلاڑی یکجا نہیں ہیں

جب تک ایک دوسرے کی کامیابیوں پر خوش ہوتے رہے سب ٹھیک رہا جہاں دلوں میں شکوے گلے آئے کارکردگی بھی خراب ہو گئی

جب تک ایک دوسرے کی کامیابیوں پر خوش ہوتے رہے سب ٹھیک رہا جہاں دلوں میں شکوے گلے آئے کارکردگی بھی خراب ہو گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

''یار تجھے نہیں پتا میں بول رہا ہوں ناں، ابے تو ایسا کر ،میرے کو نہ بتا کہ کیا کرنا ہے''

اگر آپ کسی سنہری بالوں والے انگریز کو فرفر ایسی باتیں کرتے سنیں تو کیا سوچیں گے، میری بھی کچھ عجیب سی کیفیت تھی، ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے میں حیرت سے انھیں دیکھنے لگا، کچھ دیر بعد وہ میرے پاس آئے اور مسکرا کر کہنے لگے ''میں آپ کی حیرت سمجھ گیا، اکثر لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، دراصل میرے والد کا تعلق بھارت سے ہے اور والدہ انگریز ہیں،میں کئی برسوں سے دہلی میں رہتا اور میڈیا سے وابستہ ہوں۔

اس لیے اب روانی سے ہندی بولتا ہوں'' میری یہ حیرت تو دور ہو گئی لیکن پاکستانی ٹیم بھارت سے کیسے ہار گئی یہ حیرانی شاید ختم نہ ہو پائے، گوکہ ٹی وی پر 92 فیصد پاکستان کی فتح کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا لیکن مجھے تو 99 فیصد جیت یقینی لگتی تھی،میں نے خبر کا انٹرو بھی بنا لیا تھا لیکن 10 اوورز کے بعد جو کچھ ہوا اس کی وجہ شاید کوئی نہ بتا سکے۔

بھارت میں صف ماتم بچھنا شروع ہو گئی تھی، پاکستان میں جشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں مگر سب الٹ پلٹ گیا، میں نہیں سمجھتا کہ بھارتی ٹیم کو ورلڈکپ جیسے ایونٹ میں ہرانے کا شاید ہی دوبارہ ایسا کوئی موقع ملے،اچھا خاصا سب کچھ چل رہا تھا مگر پھر نجانے کیا ہوگیا، اب زیادہ کچھ بولوں گا تو کہیں مشکل میں نہ پڑ جاؤں لیکن ایسے میچز کی وجہ سے ہی باتیں بنتی ہیں۔

کرکٹ بائی چانس ہے مگر اتنا بھی نہیں، پچ مشکل ضرور تھی لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ آپ سے کھیلا ہی نہیں جاتا، سست بیٹنگ کر کے خود کو مشکل میں ڈالا اور پھر ہار گئے، میچ کے بعد عجیب سا ماحول تھا، پاکستانی صحافیوں کے منہ لٹکے ہوئے تھے،میڈیا کانفرنس میں کوچ گیری کرسٹن بھی پریشان لگ رہے تھے کہ آتے ہی کیا مصیبت گلے پڑ گئی،میں نے ان سے بابر اعظم کی کپتانی اور مسسلسل ناکامی کے باوجود شاداب خان اور افتخار احمد کو کھلانے کا سوال پوچھا تو انھوں نے گول مول سا جواب دیا، ویسے اگر گیری عقل مند ہوتے تو ہرگز ورلڈکپ سے قبل یہ عہدہ قبول نہ کرتے لیکن پی سی بی کو بھی جلدی تھی۔

نجانے محمد حفیظ کے بارے میں کسی نے چیئرمین محسن نقوی سے کیا کہہ دیا کہ وہ ان سے فون پر بھی بات کرنے سے کترانے لگے، ویسے ہی اسٹیڈیم میں بھارتیوں کا راج تھا اور بہت کم پاکستانی شائقین موجود تھے وہ بھی بیچارے افسردہ چہرے لیے واپس لوٹے، امریکا میں گوکہ کرکٹ ورلڈکپ تو ہو رہا ہے مگر امریکیوں کو اس کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔


اسٹیڈیم میں صرف انڈینز اور پاکستانی شائقین ہی نظر آئے، اکا دکا مقامی افراد میں سے ایک سے جب میں نے کرکٹ کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ ''مجھے تو میرا بھارتی دوستی ساتھ لایا ہے، آہستہ آہستہ اس کھیل کا بھی پتا چل جائے گا''لاہور کے اسپورٹس رپورٹر عباس رضا نے ''ایکسپریس نیوز'' کیلیے کچھ شائقین سے گفتگوبھی کی، سب ہی کارکردگی سے نالاں نظر آئے، بعض تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اب کبھی پاکستانی ٹیم کا میچ نہیں دیکھیں گے، چیئرمین محسن نقوی کو بھی سخت غصہ آ گیا۔

پی سی بی نے ان کا بیان بھی جاری کیا جس میں وہ سخت ایکشن لینے کا کہہ رہے تھے، ویسے میں سمجھتا ہوں محسن نقوی تھوڑی جلدی کر گئے، ایسی باتیں ایونٹ کے بعد کی جاتی ہیں،کیا پتا کوئی معجزہ ہوجائے، اگر ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی تو کیا کہا جائے گا؟ویسے ان کے بیان پر کرکٹرز کی مایوسی مزید بڑھ گئی اور انھیں مستقبل کی فکر ستانے لگی ہے،نساؤ اسٹیڈیم پر عارضی سیٹ اپ کی وجہ سے میڈیا سینٹر والے تیسرے فلور پر واش رومز موجود نہیں ،گراؤنڈ فلورز پر مختلف کنٹینرز میں واش رومز بنائے گئے جو عام شائقین اور میڈیا سب ہی کے یکساں استعمال میں ہیں، وہیں تھوڑا آگے مرچنڈائز کا اسٹال لگا ہوا تھا، میں ویسے ہی دیکھنے چلا گیا تو وہاں پاکستان ٹیم کے لوگو والی عام شرٹ بھی 45 ڈالر (ساڑھے 12 ہزار) کی تھی، کیپس وغیرہ کے ریٹس بھی زیادہ تھے۔

یہ رقم ہمارے لیے زیادہ ہے کیونکہ ہم روپے میں کماتے ہیں لیکن یہاں رہ کر ڈالرز کی آمدنی والوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے، میچ کے بعد جب ہوٹل واپس گیا تو صبح جیسا ماحول ہی نظر آیا ہر طرف بلو شرٹس کی بھرمار، البتہ زیادہ تر واپس اپنے گھروں کو جانے کی تیاری کر رہے تھے، وہ اس میچ کیلیے مختلف شہروں سے خاص طور پر نیویارک آئے تھے، پاکستانی کرکٹرز شکست کے بعد خاصے افسردہ تھے، نسیم شاہ کو روتے ہوئے سب نے ہی ٹی وی پر دیکھا، ڈریسنگ روم میں زیادہ بات نہیں ہوئی،ہوٹل آتے ہی کھلاڑی اپنے کمروں میں چلے گئے۔

کھانا بھی وہیں کھایا، اگلے دن گیری کرسٹن نے ٹیم میٹنگ بلائی جس میں ہار کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا، صبح میں ناشتے کیلیے نیچے آیا تو وہاں ریسٹورنٹ میں بنگلہ دیشی ٹیم کی شرٹ پہنے چند مداح دکھائی دیے، وہ اپنی ٹیم کا میچ دیکھنے آئے ہوئے ہیں، پاکستان کا کوئی کرکٹر نظر نہیں آیا، پتا چلا ان کے ناشتے کا الگ جگہ انتظام ہے،ویسے بھی کھلاڑی پبلک کا سامنا کرنے سے کترا ہی رہے ہیں، اب ٹیم کا کینیڈا سے مقابلہ ہونا ہے، عام حالات میں شاید کوئی اس میچ کو اہمیت نہ دیتا، مگر جو ٹیم امریکا سے ہار جائے اس کے لیے تو سب ہی حریف آسٹریلیا یا انگلینڈ جیسے مضبوط ہیں۔

دراصل کھلاڑی یکجا نہیں ہیں، جب تک ایک دوسرے کی کامیابیوں پر خوش ہوتے رہے سب ٹھیک رہا جہاں دلوں میں شکوے گلے آئے کارکردگی بھی خراب ہو گئی، مجھے کافی عرصے سے ٹیم میں مسائل کا علم تھا لیکن کئی بار آپ لوگوں کو اشارے دینے کے باوجود مکمل تفصیلات نہ بتائیں اب بھارت سے شکست کے بعد مایوس ہو کر مکمل رپورٹ شائع کی ہے، ورلڈکپ میں سفر اب دوسروں کا محتاج ہے، شاید ٹیم کو جلد گھر واپس جانا پڑے، چیئرمین آپریشن کلین اپ کا عندیہ تو دے چکے دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story