نریندر مودی کی بھوٹان یاترا

کانگریس کی سابقہ بھارتی حکومت اپنی بیرونی اور معاشی پالیسی کے لحاظ سے سست روی کا شکار تھی


Shakeel Farooqi June 24, 2014
[email protected]

بی جے پی کے دوسرے پردھان منتری نریندر مودی نے بھارت کے نئے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے سب سے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز گزشتہ 15 جون کو اپنی بھوٹان یاترا سے کیا۔ بدھ مذہب کی پیروکار قوم پر مشتمل ہمالیہ پہاڑ کی گود میں چین اور بھارت کے درمیان واقع یہ چھوٹا سا ملک بھارت کے قریبی ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

اپنی جغرافیائی اور تزویراتی نوعیت کے اعتبار سے یہ خطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایک جانب چین اس علاقے میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے میں مصروف ہے تو دوسری جانب بھارت کی سر توڑ کوشش ہے کہ وہ اپنی بالادستی قائم رکھے۔ اسی خطے میں نیپال بھی واقع ہے جہاں سال رواں کے دوران بھارت کے مقابلے میں چین سب سے بڑے بیرونی سرمایہ کار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

کانگریس کی سابقہ بھارتی حکومت اپنی بیرونی اور معاشی پالیسی کے لحاظ سے سست روی کا شکار تھی۔ لیکن بی جے پی کی نئی حکومت نے اب نئی حکمت عملی اختیار کی ہے اور بیرونی ممالک سے اپنے تعلقات کو سنوارنے اور بڑھانے کی جانب اولین توجہ دی ہے۔ بی جے پی کی یہ حکمت عملی درحقیقت چین کی بیرونی پالیسی کا توڑ کرنے کی ایک کوشش ہے جو سری لنکا، بنگلہ دیش اور اپنے آزمائے ہوئے سدا بہار دوست پاکستان میں بندرگاہیں قائم کرنے کے علاوہ سرمایہ کاری پر بھی توجہ دے رہا ہے۔

مودی کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت جو دراصل چانکیہ کی پالیسی کی پیروکار ہے، بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ اس پورے خطے میں اپنے دائرہ اثر کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ وسیع کرے۔ چنانچہ اسی پالیسی کے تحت وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں پاکستان اور سری لنکا سمیت سارک کے تمام ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جوکہ بی جے پی جیسی ہندو قوم پرست پارٹی کے لیے کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کے نئے وزیراعظم نے اپنا منصب سنبھالتے ہی اپنے سب سے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے آخر بھوٹان جیسے چھوٹے سے ملک کا انتخاب کیوں کیا اور امریکا یا روس کا دورہ کرنا کیوں پسند نہیں کیا؟ بظاہر یہ سوال شاید مشکل نظر آتا ہو لیکن اس کا جواب نہایت سادہ اور بہت آسان ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت کی نئی قیادت بڑی گہری نظروں سے پورے سیاسی منظرنامے کو بھانپ رہی ہے۔ اس کی نگاہیں اپنے سب سے بڑے حریف پڑوسی چین کی تمام حرکات و سکنات پر مرکوز ہیں۔ بھوٹان کے ساتھ چین کے سرحدی مذاکرات اس کے پیش نظر ہیں جن کا مقصد بیجنگ کی جانب سے تھمپو کے ساتھ مضبوط تعلقات کو فروغ دینا ہے۔

یہی وہ پس منظر تھا جس میں پردھان منتری نریندر مودی نے بھوٹان کا اولین دورہ کیا۔ بھوٹان کے وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ اپنے روایتی لباس میں ملبوس اسکولوں کے سیکڑوں بچوں نے ایئرپورٹ کو جانے والے راستے کے دونوں جانب کھڑے ہوکر بھارتی وزیراعظم کا پرجوش استقبال کیا۔ بھارتی وزیراعظم کے اس دورے میں بھارت کی نئی وزیر خارجہ اور بی جے پی کی اہم ترین رکن سشما سوراج ان کے ہمراہ تھیں جب کہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول بھی ان کے ساتھ تھے۔

بھوٹان سوئٹزرلینڈ کے سائز کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی کل آبادی 750,000نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کی پسماندگی کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی سب سے پہلی سڑک 1962 میں تعمیر ہوئی تھی اور انٹرنیٹ اس ملک میں 1999 میں آیا تھا۔ اس ملک میں ترقی کا پیمانہ Gross Domestic Product نہیں بلکہ Gross Domestic Happiness ہے۔ بھوٹان میں بادشاہت سے پارلیمانی طرز کی جانب منتقلی کا عمل 2008 میں ہوا تھا، جسے اس ملک میں جمہوریت کے آغاز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

بھوٹان اپنی قدیم روایات کی پاسبانی کرتے ہوئے جدید دور کی شاہراہ ترقی پر گامزن ہے۔ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بھی وہی ہے جو کم و بیش تمام غیر ترقی یافتہ بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک کو بھی درپیش ہے، یعنی بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بیرونی قرضوں کا زبردست بوجھ۔ موجودہ حکومت، جس نے 2012 میں اقتدار سنبھالا تھا، خوشی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے میں مصروف عمل ہے۔بین الاقوامی حلقوں میں وزیراعظم نریندر مودی کی بھوٹان یاترا کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ مودی نے اپنے اس دورے سے پوری دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ بھارت کی نئی حکومت ایک متوازن خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی خواہاں ہے اور اپنے پڑوسی ممالک کی اس کی نظر میں خاص اہمیت ہے۔

بھارت تھمپو میں چین کی سفارتی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ عشروں کے دوران بھوٹان خطے کا وہ واحد پڑوسی ملک ہے جس کے ساتھ بھارت کے گہرے دوستانہ تعلقات قائم رہے ہیں۔ گزشتہ سال جون کے اس مہینے میں بھارت کی یوپی اے حکومت نے کوہ ہمالیہ کی اس پڑوسی ریاست کو گیس کی فراہمی پر دی جانے والی سبسڈی میں کٹوتی کردی تھی جس سے اس ملک میں گیس سلنڈروں کی سپلائی کا بحران پیدا ہوگیا تھا اور نتیجتاً اس فیصلے کے منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔

گزشتہ حکومت کی اسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھوٹان کی حکومت اور عوام کے دل جیتنے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی حالیہ بھوٹان یاترا کے دوران 600 میگاواٹ کے آبی پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بھوٹان کے سپریم کورٹ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد بھی رکھا جسے بھارت کی امداد سے تعمیر کیا جائے گا۔ بھوٹان کے وزیراعظم نے بھارت کی امداد سے تعمیر کیے جانے والے پن بجلی کے منصوبے کو دونوں ممالک کے باہمی تعاون کا مرکزی نکتہ کہا ہے۔ بھوٹان نے 2020 تک 10,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف بھوٹان کے عوام کو راحت حاصل ہوگی بلکہ اس ملک کی معاشی ترقی کا پہیہ بھی تیز رفتار کے ساتھ گھومنے لگے گا۔اس کے علاوہ دونوں ممالک سیاحت کے میدان میں بھی باہمی تعاون کے فروغ کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے مستقبل قریب میں باقاعدہ ایک مشترکہ سیاحتی پالیسی وضع کیے جانے کے امکانات اور مواقع تلاش کیے جائیں گے۔ نیپال کی طرح خشکی سے گھرے ہوئے ملک بھوٹان کی بھی یہ بہت بڑی مجبوری ہے کہ اسے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

''مجبوری کا نام مہاتما گاندھی'' والی کہاوت اس صورتحال پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ اس حوالے سے پاؤڈر کے دودھ، گندم، خوردنی تیل، دالوں اور غیر باسمتی قسم کے چاول جیسی اشیا کی بھارت سے بھوٹان کے لیے برآمدات پر پابندیوں سے چھوٹ کی سہولت انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی۔ نریندر مودی کا یہ بیان بھی بھوٹان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس قبل بھارت کی اتحادی حکومت نے بھوٹان کی حکومت سے جو وعدے اور معاہدے کیے تھے بھارت کی نئی حکومت انھیں برقرار رکھے گی۔

وزیراعظم مودی کا بھوٹان کا حالیہ دورہ بھارت کے لیے اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دورے کے اختتام پر جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں واشگاف الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی سرزمین کو ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں استعمال ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ اس دورے پر چین کا ردعمل ابھی آنا باقی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں