سخی شہباز قلندر
شہباز قلندر میں صوفیوں والی بے چینی ہمہ وقت موجود تھی لہٰذا صوفی سفر پر نکلتا ہے
سندھ کی فضائیں صوفی شعرا کے کلام سے گونجتی ہیں۔ ان ولیوں کی مزاریں آج بھی فن و فکر کا گہوارا بنی ہوئی ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی شاعری اور فلسفے کے توسط سے محبت، امن و آشتی اور یکجہتی کا پیغام دیا ہے۔ ان ہی صوفی شاعروں اور فلسفیوں میں حضرت لعل شہباز قلندر بھی شامل ہیں۔ آپ کی ولادت آذر بائیجان کے گاؤں مروند میں 538 ہجری میں ہوئی۔
آپ کے والد سید کبیرالدین نے لعل شہباز کا نام سید عثمان رکھا مگر بعد میں اس صوفی بزرگ نے لعل شہباز قلندر کے نام سے دنیا میں شہرت پائی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ سے جاملتا ہے۔ آذر بائیجان اور تبریز سے تقریباً 40میل کے فاصلے پر، مروند شہر واقع ہے۔ یہ خوبصورت باغوں سے گھرا ایک پرسکون شہر تھا جس میں ایک قلعہ اور چھوٹی سی مسجد موجود تھی۔ لال شہباز کو یہ جگہ پسند تھی۔ بعض علاقے بھی فکری و روحانی محرک عطا کرتے ہیں۔
شہباز قلندر میں صوفیوں والی بے چینی ہمہ وقت موجود تھی لہٰذا صوفی سفر پر نکلتا ہے۔ کائنات کے اسرار جاننے کی دھن، درحقیقت منزل حقیقی کے قریب پہنچنے کی جستجو سے عبارت ہے۔ ادراک کے دروازے ہر کسی پر نہیں کھلتے، عرفان کی منزلیں آسانی سے نہیں ملا کرتیں۔ یہ ایک کٹھن راستہ ہے۔ یہ تزکیہ نفس اور ذات کی دوری کا سفر ہے لیکن صوفی سفر کی پہلی منزل پر اپنے دل کو انسانیت کی محبت سے روشن کرتا ہے۔
سیہون شریف کے ریلوے اسٹیشن کے جنوب میں واقع پہاڑ میں اندر ایک غار واقع ہے جس کا سکوت دائمی اور روح پرور ہے۔ یہ غار ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے معطر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ 25ہزار سال پرانے پہاڑ ہیں۔ ان پہاڑوں نے کئی تہذیبوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھے ہیں۔ اس غار میں لعل شہباز قلندر نے چلہ کشی کی تھی۔ غار کے اندر داخل ہوتے ہی درمیان میں سل نظر آتی ہے۔ جسے یک تھنبی کہا جاتا ہے جہاں قبلہ رخ ایک محراب بنی ہوئی ہے۔
اس سل پر تشریف فرما ہوکر حضرت لال شہباز عبادت میں مصروف رہتے جس کے نیچے ہموار پہاڑی فرش کے طور پر استعمال ہوتی تھی جس پر تقریباً چار سال لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پہاڑوں کا ماحول ایک سچے طالب کو اپنی طرف بے اختیار کھینچتا ہے۔ زیادہ تر یہ پہاڑ ہی الہامی کیفیات و روایتوں کے امین رہے ہیں۔ناقابل بیان وجدانی کیفیت اس ماحول سے جھلکتی ہے۔ اس غار میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت لال شہباز کے دولت مند مرید کی قبر ہے جس نے مرشد کی محبت میں دنیا کے عیش و آرام تیاگ کے ان ہی پہاڑوں کے درمیان پڑاؤ ڈال لیا۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کی ملاقات بادشاہ غیاث الدین بلبن سے ہوئی، جو روحانی مکتبہ فکر کے قدردان تھے۔ انھوں نے شہباز قلندر سے ملتان میں قیام کرنے کی درخواست کی مگر آپ کھوج کے اس سفر میں دور دراز کے سفر سوچ کے بیٹھے تھے لہٰذا شہنشاہ سے معذرت ظاہر کی۔ جب مشہد کی طرف نکلے تو امام موسیٰ کاظم کے مزار پر حاضری دینے پہنچے جہاں آپ کی ملاقات شیخ جمال مجرد کے مرید خاص بابا ابراہیم سے ہوئی۔
بابا ابراہیم نے لعل شہباز قلندر کو قلندری طریقت کا علم و عرفان عطا کیا۔ مرشد کی منفرد محبت نے آپ کو ظاہری و باطنی علوم سے بہرہ ورکیا اور آپ روحانیت کی منزلیں طے کرتے رہے۔سیہون سے واپس آکر آپ نے فروغ اسلام کے لیے خدمتیں وقف کردیں۔ کراچی سے آگے منگھو نامی پہاڑی پر بھی حضرت لعل قلندر نے چلہ کشی کی تھی۔ اس پہاڑ پر واقع شہر شہباز قلندر کے نام سے منسوب ہے۔ اس دور میں سبزے سے گھرا یہ علاقہ درویشوں کا مسکن کہلاتا تھا۔لال شہباز بہاؤ الدین ذکریا، فرید الدین شکر گنج، سید جلال الدین بخاری اور مولانا رومی کے ہم عصر تھے۔
آپ کو قادریہ سلسلے کی بزرگی کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ آپ زیادہ تر سرخ رنگ کا لباس زیب تن کیے رہتے جس کی بنا پر آپ کو لال شہباز کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ اس صوفی کا فلسفہ حیات انسانیت سے محبت رہی۔ حضرت لعل شہباز قلندر شاعری سے والہانہ شغف رکھتے تھے کیونکہ شاعری الہامی کیفیات کے قریب تر ہے۔ وجد کی کیفیت میں آپ نے روحانی رمز سے سرشار شاعری کی۔ بعض محققین نے آپ کو سندھ کا پہلا شاعر اور عالم لسانیات قرار دیا کیونکہ آپ صرف ونحو کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
اسی حوالے سے دو مشہور کتابیں ''میزان الصوف'' اور ''صرف ِصفر'' کو تاریخی اہمیت حاصل رہی ہے۔ جو حضرت شہباز قلندر کی تحریر کردہ تھیں۔ آپ کو پشتو، فارسی، ترکی، سندھی اور سنسکرت زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، مخدوم بلاول اور سچل سرمست حضرت شہباز قلندر کے معتقد تھے۔ مجذوبیت و قلندری مزاج، انکساری و قناعت پسندی کا عکس ہے۔ یہ رویے سندھ کی خالص سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مجذوبیت و قلندری سلسلے آج بھی جاری وساری ہیں۔ یہ زندگی کی بے ثباتی کی تجدید کرتے ہیں اور منتشر معاشرے کو محبت کے مرکز کی طرف واپس بلاتے ہیں۔
یہ سلسلے پیغام دیتے ہیں کہ انا ذات کی تخریب کاری ہے۔ ذہن کا فشار ہے۔ یہ رابطے توڑتی ہے۔ پھر فرد، گروہ یا تنظیم اجتماعی دھارے سے کٹ جاتے ہیں لیکن جب دھمال کے موقعے پر ڈھول یا نقارہ بجتا ہے، تو یہ سر ایک خاص سماں باندھ دیتا ہے۔ یہ بے یقینی کے بھنور سے واپس بلاتا ہے، کھوئی محبت و اپنائیت کی طرف لہٰذا اس کیفیت کے تناظر میں قلندر شہباز فرماتے ہیں ''سماع اور رقص و سرور سے قلب میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے۔ یوں سرور سماع وجد کی کیفیت طاری کردیتا ہے۔
یہ محبوب حقیقی سے وصال کا وسیلہ ہے۔'' راقم کا بچپن سیہون شریف میں اسی مزار کے احاطے میں گزرا۔ ہمارا گھر مزار کے قریب تھا۔ والدہ سندھ کے صوفیوں سے خاص عقیدت رکھتی تھیں لہٰذا ان کے ساتھ سندھ کے اکثر صوفی بزرگوں کے مزاروں پر جانے کا اتفاق ہوا۔ مزار کا اپنا الگ مزاج اور سحر ہے۔ جس جگہ اجتماع ہو، وہ سرزمین قوت کا سرچشمہ کہلاتی ہے۔ اس جگہ فطری توانائی کا اثر غالب آجاتا ہے۔ یہ اجتماعات اسلامی معاشروں کی انفرادیت و طاقت رہے ہیں۔ سیہون کے قریب لکی شاہ صدر میں شفا دینے والا پانی کا چشمہ بہتا ہے۔
7سال کی عمر میں قلندر شہباز کی مزارپر جو راقم نے دھمال کا سماں دیکھا تھا، وہ بھلائے نہیں بھولتا۔ جب لوگوں نے ہاتھوں میں رنگین جھنڈیاں تھام رکھی تھیں۔ گلے میں گانے رنگین دھاگوں سے بنے ہار جھولتے تھے۔ مجذوب کے پیروں سے گھنگھرو چھنکتے تھے۔ آنکھیں سرخ دھڑکنیں منتشر تھیں، نوبت کی آواز کا جلال فضا میں رقص کرتا ، تو لوگ بے خودی میں جھومنے لگتے۔ دما دم مست قلندر کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ سب یکجا ہوتے ایک ہی دھن ایک ہی خیال پر رقصاں لڑکیاں زمین پر گول گھومتیں تو ان کے لمبے بال ہوا میں لہراتے تو ایک عجیب سا سماں بندھ جاتا، زماں و مکاں کی قید سے آزاد۔
قلندر شہباز کا روضہ مبارک سلطان فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں تعمیر ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ایران کے سابق شہنشاہ رضا شاہ پہلوی نے مزار پر حاضری دی اور سونے کے نقش و نگار سے مزار کو آراستہ کروایا۔ آج کل حضرت شہباز قلندر کا 762 واں عرس منایا جارہا ہے۔ گرمی کی شدت سے اکیاون زائرین کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ملی ہیں لیکن موسموں کی شدت اور مشکلات بھی عقیدت مندوں کے ہجوم کو کم نہیں کرسکی۔ پورے پاکستان سے لوگ اس موقعے پر سیہون شریف پہنچ جاتے ہیں۔ زائرین میں ہندو عقیدت مند بھی شامل ہوتے ہیں۔ زمین کا رہن عارضی و بے ثبات عمل ہے جب کہ مٹی کی سمجھ جاوداں فکری و روحانی ورثے کے قریب تر کر دیتی ہے۔ انسانیت و محبت کا پیامبر مروند سے ہجرت کرنے والا یہ صوفی فقیر آج دنیا بھر میں سندھ کی پہچان بن چکا ہے۔