بالی ووڈ میں ماضی اور عہد حاضر کے مسلمان گیت نگار
گزشتہ برس بھارتی فلمی صنعت نے ایک صدی پورے ہونے کا جشن منایا،
گزشتہ برس بھارتی فلمی صنعت نے ایک صدی پورے ہونے کا جشن منایا، جب کہ اس فلمی صنعت کی حقیقی عمر پینسٹھ برس ہے، باقی پینتیس برس پاکستان اور بھارت کے مشترکہ ہیں، جن میں دونوں خطوں سے تعلق رکھنے والے بنا کسی تفریق کے کام کیاکرتے تھے، جب تقسیم ہوئی تو فنکار بھی منقسم ہوئے، ورنہ یہ ایک ہی فلمی صنعت تھی، لیکن کیسی عجیب بات ہے، بھارتی فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں نے اسے اپنے سو برس کہہ کر خوب جشن منایا۔ یہ ان کا حد سے بڑھا ہوا اعتماد ہے، جب کہ ہماری فلمی صنعت کی اس صورتحال پر خاموشی صرف باعث شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی، دونوں ادوار میں اس خطے کی فلمی صنعت کو فروغ دینے میں ہمارا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ اداکاری، ہدایت کاری اور موسیقی کے شعبوں نے بڑے بڑے نام پیدا کیے، مگر بھارتی فلمی صنعت میں منائے جانے والے جشن میں کہیں بھی ہمارے ان عظیم لوگوں کے نام کی بازگشت سنائی نہیں دی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اب تو ویسے بھی وہاں مودی سرکار کا دور دورہ ہے، نہ جانے مسلمان تخلیق کاروں کے اعتراف میں کتنے لوگ بخل سے کام لیں گے، صرف نواز شریف کی ملاقات سے یہ دھبے دھلنے والے نہیں ہیں۔
یہ تو ایک ایسا رویہ ہے، جس کی تاریخ کافی پرانی ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سچائی کے ساتھ فلمی صنعت کے سو برس مکمل ہونے میں ان مسلمان فنکاروں کا بھی اعتراف کرلیا جاتا، جنھوں نے اپنی زندگیاں اس فن میں جھونک دیں۔ ویسے بھی کسی نہ کسی صورت یہ فن کار آج بھی اس فلمی صنعت کی آبادکاری میں اپنے حصے کی کوششیں وقف کیے ہوئے ہیں۔ اس کی مثال موجودہ فلمی صنعت کے صف اول کے خان ہیروز ہیں۔ ماضی میں نوشاد اور عہد حاضر میں اسماعیل دربار جیسے موسیقار ہیں۔ پس پردہ گیتوں میں گونجنے والی پاکستانی گلوکاروں کی آوازیں ہیں اور اس کے علاوہ کئی شعبے ہیں، جن کا ذکر تک نہیں ہوتا، آج کا موضوع ایسے ہی ایک پہلو کا تذکرہ ہے۔
ہم اگر بھارتی فلمی صنعت کو دو ادوار میں تقسیم کریں، یعنی تقسیم سے پہلے اور بعد کا دور، تو اس عرصے میں فلمی صنعت کا ایک ایسا شعبہ بھی ہے، جس کو مستقل طور پر نظر انداز کیا گیا، وہ شعبہ گیت نگاری ہے۔ گیت نگار ہر دور میں نظر انداز کیے گئے۔ تقسیم سے پہلے کے دور پر معروف مصنف اور صداکار رضا علی عابدی اپنی کتاب ''نغمہ گر'' میں لکھتے ہیں۔
''حقیقت یہ ہے کہ جہاں جہاں ہوا پہنچتی ہے، مقبول نغمے بھی پہنچتے ہیں اور جہاں لوگ نغمے سنتے ہیں، وہ پہلے دو چار بول یاد رکھتے ہیں، گانے والے کی آواز پہچانتے ہیں اور اس کا نام بھی انھیں یاد رہتا ہے۔ ذرا دلچسپی بڑھے تو میوزک ڈائریکٹر کے نام سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ اس ساری فہرست میں جس کا نام رہ جاتا ہے، وہ غریب نغمہ گر ہے۔ ایک زمانے میں تو گراموفون ریکارڈ پر اس کا نام بھی نہیں ہوتا تھا۔ ریڈیو والے گانا نشر کرتے وقت ساری تفصیل بتاتے تھے، نغمہ گر کا حوالہ تک نہیں دیتے تھے۔ گانے کی رائلٹی کی رقم سب کو جاتی تھی، گیت کار کو صاف بھلا دیا جاتا تھا۔''
گراموفون کی ایجاد ہونے کے ساتھ ہی آوازوں کا ایک عہد شروع ہوا۔ مکالمہ ہونے لگا، ساز بکھرنے لگے اور سریلی آوازوں میں مدھر دھنیں سماعتوں میں رس گھولنے کا کام کرنے لگیں۔ عابدی صاحب نے اپنی کتاب میں جس تفصیل سے قبل از تقسیم فلمی صنعت میں گیت نگاروں کا تذکرہ کیا، وہ پڑھ کر اس وقت کی صورتحال واضح ہوتی ہے۔ ایک طرف تو موسیقار استاد شعرا کی شاعری کو اپنی دھنوں میں سجا کر پیش کرتے تھے، ان میں میر تقی میر، مرزا غالب، داغ دہلوی، ذوق، مجاز، اکبر الہ آبادی، بہزاد لکھنوی اور خمار بارہ بنکوی جیسے مستند شعرا شامل تھے، جن کی شاعری کو دھنوں میں ڈھال کر سامعین تک پہنچایا گیا، لیکن اساتذہ کے اس پہلو کو کبھی نمایاں طور پر اجاگر نہیں کیا گیا۔
اسی فلمی صنعت کے لیے باقاعدہ طور پر لکھنے والوں میں اس عہد کے تمام نمایاں شاعر موجود تھے۔ آرزو لکھنوی سے نغمہ نگاری کی شاندار روایت کی بنیاد رکھی گئی اور پھر ساحر لدھیانوی جیسے شاعر نے نغمہ نگار کو اس کا مقام فلمی صنعت میں دلوایا۔
ان کے علاوہ جن نغمہ نگاروں نے اس نوزائیدہ فلمی صنعت کو اپنے حروف سے نکھارا، ان شعرا میں، آغا حشر کاشمیری، اصغر حسین شور، منشی عاشق، کمال امروہوی، ڈاکٹر صفدر آہ، عظیم پریم راگی، فیاض ہاشمی، شکیل بدایونی، حسرت موہانی، وجاہت مرزا، تنویر نقوی، ناظم پانی پتی، شمس لکھنوی، جانثار اختر، ضیا سرحدی، وقار انبالوی، جمیل مظہری، راجا مہدی علی خاں، معین احسن جذبی، کیف عرفانی، کیف بھوپالی، حفیظ ہوشیارپوری، شوکت تھانوی، فیض احمد فیض، سردار علی جعفری، کیفی اعظمی شامل ہیں۔ یہ وہ شعرائے کرام ہیں، جن کی شب و روز کی محنت نے اس فلمی صنعت کو شاندار گیتوں کی روایت دی، جس کا جشن انھوں نے تن تنہا منایا، ان نغمہ نگاروں میں سے کسی کے نام کی بازگشت بھی ہمیں سنائی نہیں دی۔
تقسیم کے بعد سے اب تک بھارتی فلمی صنعت میں کوئی دہائی ایسی نہیں گزری جس میں مسلمان اور اردو شعرا نے اپنے حروف کا جادو نہ جگایا ہو، مگر کبھی کسی فلم کی تشہیر میں ان کا نام نمایاں طور پر نظر نہیں آتا۔ مجروح سلطان پوری، ندا فاضلی اور جاوید اختر کو آج اگر لوگ جانتے ہیں تو یہ ایک اتفاق ہے، وگرنہ سیکڑوں شعرا گمنامی کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے جن شعرا نے بھارتی فلمی صنعت میں تقسیم کے بعد اپنا حصہ ڈالا، ان میں قتیل شفائی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے علاوہ زہرہ نگاہ، امجد اسلام امجد، صابر ظفر، احمد عقیل روبی اور انورمقصود نے بھی کچھ فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ چند پاکستانی گلوکاروں نے بھی وہاں گیت نگاری کے جوہر دکھائے جن میں علی ظفر، عاطف اسلم، نعمان جاوید، مصطفیٰ زاہد اور علی عظمت شامل ہیں۔
پھر کتنے ہی ایسے شعرا ہیں، جن کا تعلق بھارت سے ہی ہے اور انھوں نے فلمی صنعت کو بے حد خوبصورت گیت دیے ہیں، مگر انھیں وہ مقام نہ دیا گیا، شاید آج بھی کسی ساحر لدھیانوی جیسے شاعر کی ضرورت ہے، ان شعرا کے لیے جو آواز بلند کرے۔ میں نے اس پہلو پر خاصی تحقیق کی، مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ موجودہ فلمی صنعت کے گیتوں کے خالق بہت بڑی تعداد میں بھارتی مسلمان شعرا ہی ہیں، جنھیں بے حد مقبولیت بھی حاصل ہے۔ میں نے خاصی تحقیق کے بعد ان کے اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں، ان میں سے چند ایک نام یہاں قلم بند کررہا ہوں، جس سے آپ کو موجودہ صورتحال کا اندازہ ہوسکے گا۔
نوے کی دہائی سے بھارتی فلمی صنعت پر چھائے ہوئے گیت نگار کا نام ''فیاض انور'' ہے، وہ آج بھی بہترین گیت نگاروں میں سرفہرست ہیں۔ انھوں نے جن فلموں کے گیت لکھے وہ شائقین کی سماعتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں۔ ان فلموں میں دل ہے کہ مانتا نہیں، ساجن، ڈان، پاپا دی گریٹ، تم بن، دبنگ، رائوڈی راٹھور اور یہ جو محبت ہے اور دیگر ایسی کئی فلمیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سونونگم کی پہلی البم ''جان'' کے سریلے گیت بھی انھی کی تخلیق ہیں، جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔
گزشتہ دس برس سے ''شبیر احمد'' بھی بالی ووڈ میں گیت نگاری کررہے ہیں، اب تک وہ جن فلموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے ہیں۔
''سعید قادری'' کا نام بھی بالی ووڈ کا مقبول نام ہے، ان کو بھی فلموں کے لیے گیت لکھتے ہوئے دس برس ہوچکے ہیں، یہ شوقیہ شاعری کرتے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے کتنے خوبصورت اور رومانوی گانے تخلیق کیے، اس کا اندازہ ان فلموں کے ناموں سے ہوتا ہے۔
''کوثر منیر'' خاتون گیت نگار ہیں، انھوں نے بھی مختصر عرصے میں اپنی شاعری سے شائقین کے دل موہ لیے۔ انھوں نے جن فلموں کے لیے گیت لکھے ان میں ہیروپنتی، میں تیرا ہیرو، گوری تیرے پیار میں، چشم بددور، عشق ان پیرس، اک تھا ٹائیگر، عشق زادے، صاحب بیوی اور گینگسٹر، بلٹ راجا اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔
اسی طرح کے بے شمار نام ہیں جو بڑی فلموں کے گیتوں کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ ان کا نام کوئی نہیں جانتا، مگر ان کے لکھے ہوئے گیت ہر ایک کی زبان پر ہوتے ہیں۔
پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی، دونوں ادوار میں اس خطے کی فلمی صنعت کو فروغ دینے میں ہمارا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ اداکاری، ہدایت کاری اور موسیقی کے شعبوں نے بڑے بڑے نام پیدا کیے، مگر بھارتی فلمی صنعت میں منائے جانے والے جشن میں کہیں بھی ہمارے ان عظیم لوگوں کے نام کی بازگشت سنائی نہیں دی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اب تو ویسے بھی وہاں مودی سرکار کا دور دورہ ہے، نہ جانے مسلمان تخلیق کاروں کے اعتراف میں کتنے لوگ بخل سے کام لیں گے، صرف نواز شریف کی ملاقات سے یہ دھبے دھلنے والے نہیں ہیں۔
یہ تو ایک ایسا رویہ ہے، جس کی تاریخ کافی پرانی ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سچائی کے ساتھ فلمی صنعت کے سو برس مکمل ہونے میں ان مسلمان فنکاروں کا بھی اعتراف کرلیا جاتا، جنھوں نے اپنی زندگیاں اس فن میں جھونک دیں۔ ویسے بھی کسی نہ کسی صورت یہ فن کار آج بھی اس فلمی صنعت کی آبادکاری میں اپنے حصے کی کوششیں وقف کیے ہوئے ہیں۔ اس کی مثال موجودہ فلمی صنعت کے صف اول کے خان ہیروز ہیں۔ ماضی میں نوشاد اور عہد حاضر میں اسماعیل دربار جیسے موسیقار ہیں۔ پس پردہ گیتوں میں گونجنے والی پاکستانی گلوکاروں کی آوازیں ہیں اور اس کے علاوہ کئی شعبے ہیں، جن کا ذکر تک نہیں ہوتا، آج کا موضوع ایسے ہی ایک پہلو کا تذکرہ ہے۔
ہم اگر بھارتی فلمی صنعت کو دو ادوار میں تقسیم کریں، یعنی تقسیم سے پہلے اور بعد کا دور، تو اس عرصے میں فلمی صنعت کا ایک ایسا شعبہ بھی ہے، جس کو مستقل طور پر نظر انداز کیا گیا، وہ شعبہ گیت نگاری ہے۔ گیت نگار ہر دور میں نظر انداز کیے گئے۔ تقسیم سے پہلے کے دور پر معروف مصنف اور صداکار رضا علی عابدی اپنی کتاب ''نغمہ گر'' میں لکھتے ہیں۔
''حقیقت یہ ہے کہ جہاں جہاں ہوا پہنچتی ہے، مقبول نغمے بھی پہنچتے ہیں اور جہاں لوگ نغمے سنتے ہیں، وہ پہلے دو چار بول یاد رکھتے ہیں، گانے والے کی آواز پہچانتے ہیں اور اس کا نام بھی انھیں یاد رہتا ہے۔ ذرا دلچسپی بڑھے تو میوزک ڈائریکٹر کے نام سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ اس ساری فہرست میں جس کا نام رہ جاتا ہے، وہ غریب نغمہ گر ہے۔ ایک زمانے میں تو گراموفون ریکارڈ پر اس کا نام بھی نہیں ہوتا تھا۔ ریڈیو والے گانا نشر کرتے وقت ساری تفصیل بتاتے تھے، نغمہ گر کا حوالہ تک نہیں دیتے تھے۔ گانے کی رائلٹی کی رقم سب کو جاتی تھی، گیت کار کو صاف بھلا دیا جاتا تھا۔''
گراموفون کی ایجاد ہونے کے ساتھ ہی آوازوں کا ایک عہد شروع ہوا۔ مکالمہ ہونے لگا، ساز بکھرنے لگے اور سریلی آوازوں میں مدھر دھنیں سماعتوں میں رس گھولنے کا کام کرنے لگیں۔ عابدی صاحب نے اپنی کتاب میں جس تفصیل سے قبل از تقسیم فلمی صنعت میں گیت نگاروں کا تذکرہ کیا، وہ پڑھ کر اس وقت کی صورتحال واضح ہوتی ہے۔ ایک طرف تو موسیقار استاد شعرا کی شاعری کو اپنی دھنوں میں سجا کر پیش کرتے تھے، ان میں میر تقی میر، مرزا غالب، داغ دہلوی، ذوق، مجاز، اکبر الہ آبادی، بہزاد لکھنوی اور خمار بارہ بنکوی جیسے مستند شعرا شامل تھے، جن کی شاعری کو دھنوں میں ڈھال کر سامعین تک پہنچایا گیا، لیکن اساتذہ کے اس پہلو کو کبھی نمایاں طور پر اجاگر نہیں کیا گیا۔
اسی فلمی صنعت کے لیے باقاعدہ طور پر لکھنے والوں میں اس عہد کے تمام نمایاں شاعر موجود تھے۔ آرزو لکھنوی سے نغمہ نگاری کی شاندار روایت کی بنیاد رکھی گئی اور پھر ساحر لدھیانوی جیسے شاعر نے نغمہ نگار کو اس کا مقام فلمی صنعت میں دلوایا۔
ان کے علاوہ جن نغمہ نگاروں نے اس نوزائیدہ فلمی صنعت کو اپنے حروف سے نکھارا، ان شعرا میں، آغا حشر کاشمیری، اصغر حسین شور، منشی عاشق، کمال امروہوی، ڈاکٹر صفدر آہ، عظیم پریم راگی، فیاض ہاشمی، شکیل بدایونی، حسرت موہانی، وجاہت مرزا، تنویر نقوی، ناظم پانی پتی، شمس لکھنوی، جانثار اختر، ضیا سرحدی، وقار انبالوی، جمیل مظہری، راجا مہدی علی خاں، معین احسن جذبی، کیف عرفانی، کیف بھوپالی، حفیظ ہوشیارپوری، شوکت تھانوی، فیض احمد فیض، سردار علی جعفری، کیفی اعظمی شامل ہیں۔ یہ وہ شعرائے کرام ہیں، جن کی شب و روز کی محنت نے اس فلمی صنعت کو شاندار گیتوں کی روایت دی، جس کا جشن انھوں نے تن تنہا منایا، ان نغمہ نگاروں میں سے کسی کے نام کی بازگشت بھی ہمیں سنائی نہیں دی۔
تقسیم کے بعد سے اب تک بھارتی فلمی صنعت میں کوئی دہائی ایسی نہیں گزری جس میں مسلمان اور اردو شعرا نے اپنے حروف کا جادو نہ جگایا ہو، مگر کبھی کسی فلم کی تشہیر میں ان کا نام نمایاں طور پر نظر نہیں آتا۔ مجروح سلطان پوری، ندا فاضلی اور جاوید اختر کو آج اگر لوگ جانتے ہیں تو یہ ایک اتفاق ہے، وگرنہ سیکڑوں شعرا گمنامی کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے جن شعرا نے بھارتی فلمی صنعت میں تقسیم کے بعد اپنا حصہ ڈالا، ان میں قتیل شفائی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے علاوہ زہرہ نگاہ، امجد اسلام امجد، صابر ظفر، احمد عقیل روبی اور انورمقصود نے بھی کچھ فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ چند پاکستانی گلوکاروں نے بھی وہاں گیت نگاری کے جوہر دکھائے جن میں علی ظفر، عاطف اسلم، نعمان جاوید، مصطفیٰ زاہد اور علی عظمت شامل ہیں۔
پھر کتنے ہی ایسے شعرا ہیں، جن کا تعلق بھارت سے ہی ہے اور انھوں نے فلمی صنعت کو بے حد خوبصورت گیت دیے ہیں، مگر انھیں وہ مقام نہ دیا گیا، شاید آج بھی کسی ساحر لدھیانوی جیسے شاعر کی ضرورت ہے، ان شعرا کے لیے جو آواز بلند کرے۔ میں نے اس پہلو پر خاصی تحقیق کی، مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ موجودہ فلمی صنعت کے گیتوں کے خالق بہت بڑی تعداد میں بھارتی مسلمان شعرا ہی ہیں، جنھیں بے حد مقبولیت بھی حاصل ہے۔ میں نے خاصی تحقیق کے بعد ان کے اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں، ان میں سے چند ایک نام یہاں قلم بند کررہا ہوں، جس سے آپ کو موجودہ صورتحال کا اندازہ ہوسکے گا۔
نوے کی دہائی سے بھارتی فلمی صنعت پر چھائے ہوئے گیت نگار کا نام ''فیاض انور'' ہے، وہ آج بھی بہترین گیت نگاروں میں سرفہرست ہیں۔ انھوں نے جن فلموں کے گیت لکھے وہ شائقین کی سماعتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں۔ ان فلموں میں دل ہے کہ مانتا نہیں، ساجن، ڈان، پاپا دی گریٹ، تم بن، دبنگ، رائوڈی راٹھور اور یہ جو محبت ہے اور دیگر ایسی کئی فلمیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سونونگم کی پہلی البم ''جان'' کے سریلے گیت بھی انھی کی تخلیق ہیں، جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔
گزشتہ دس برس سے ''شبیر احمد'' بھی بالی ووڈ میں گیت نگاری کررہے ہیں، اب تک وہ جن فلموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے ہیں۔
''سعید قادری'' کا نام بھی بالی ووڈ کا مقبول نام ہے، ان کو بھی فلموں کے لیے گیت لکھتے ہوئے دس برس ہوچکے ہیں، یہ شوقیہ شاعری کرتے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے کتنے خوبصورت اور رومانوی گانے تخلیق کیے، اس کا اندازہ ان فلموں کے ناموں سے ہوتا ہے۔
''کوثر منیر'' خاتون گیت نگار ہیں، انھوں نے بھی مختصر عرصے میں اپنی شاعری سے شائقین کے دل موہ لیے۔ انھوں نے جن فلموں کے لیے گیت لکھے ان میں ہیروپنتی، میں تیرا ہیرو، گوری تیرے پیار میں، چشم بددور، عشق ان پیرس، اک تھا ٹائیگر، عشق زادے، صاحب بیوی اور گینگسٹر، بلٹ راجا اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔
اسی طرح کے بے شمار نام ہیں جو بڑی فلموں کے گیتوں کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ ان کا نام کوئی نہیں جانتا، مگر ان کے لکھے ہوئے گیت ہر ایک کی زبان پر ہوتے ہیں۔