مابعد بھارت یاترا
سابقہ پاکستان دشمن موجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیراعظم کو اپنی وزارت عظمیٰ کی
عصر حاضر کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ اس نے انسانی رشتوں سے منہ موڑ کر اپنا رشتہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جوڑ لیا ہے جو دن بہ دن گہرا اور مضبوط ہوتا جا رہا ہے پہلے یہ کمپیوٹر کے ذریعے ہر گھر کے دیوان خانے کی زینت بنی، پھر لیپ ٹاپ کے ساتھ انسان کے بغل میں بیٹھ گئی۔ اب بذریعہ اسمارٹ فون ہر فرد کی جیب میں داخل ہورہی ہے۔ نتیجتاً اب بنی نوع انسان کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ وہ بیک وقت دوستی اور دشمنی کی عیاشی کرسکے۔ چنانچہ اکیسویں صدی کا یہ نعرہ ہوا کہ ''دوستی سب سے، دشمنی کسی سے نہیں''۔
اس سلسلے میں پاکستانی پھرتیوں کی ایک جھلک۔ وزیر اعظم بھارت میں نریندر مودی سے ملاقات کر رہے تھے،تو دوسری جانب روس پاکستان سے فوجی سازوسامان کی فروخت پر سے پابندی اٹھا رہا تھا۔ وزیراعظم کے مشیر خاص سرتاج عزیز گن شپ جنگی ہیلی کاپٹروں کے بیڑے کی ڈیل کو فائنل کر رہے تھے۔ تاشقند میں بین الاقوامی کانفرنس میں وزیراعظم نواز شریف کی شرکت کا پروگرام طے ہے۔ رہا امریکا کا معاملہ تو وہ تو گھر آنگن کا معاملہ ہے۔ اور برطانیہ کا؟ جب بھی گپ شپ کو جی چاہے۔
سابقہ پاکستان دشمن موجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیراعظم کو اپنی وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے کر مشکل میں ڈال دیا بلکہ خود اپنی پارٹی کے پاکستان مخالف عقابوں (جس میں ایک مادہ عقاب شریمتی سشما سوراج شامل ہیں) پر سکتہ طاری کردیا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دونوں طرف مخالفت صرف خانہ پری کی حد تک تھی یعنی ''غوں غاں'' تک رہی ''غرفش'' تک نہیں پہنچی۔
بھارت اپنے قیام سے لے کر کمیونسٹ سپر پاور روس کے انہدام تک روسی کیمپ میں رہ چکا ہے، یہاں سیکولر نظریات، سوشلسٹ خیالات، ٹریڈ یونین تحریکوں، دائیں بائیں بازوؤں کی ٹسل (Tussle) ماؤ نواز، روس نواز دھڑوں کی مسابقت کو عروج حاصل ہوا۔ اترپردیش (جو بھارت کا زرخیز ترین خطہ ہے) یہ کسانوں کی شدت پسند تنظیم نکسل باڈی تحریک کا گڑھ بھی ہے۔ یہاں برصغیر کی تقسیم سے پہلے کے قائم شدہ بنیادی صنعتوں کے سرمایہ کار کسانوں کے دباؤ سے نکلنے کے لیے اپنے کارخانے دوسرے صوبوں میں شفٹ کرنا چاہتے تھے، دوسرے صوبوں کے وزرا اعلیٰ نے خوش آمدید کہنے میں دیر لگادی، لیکن نریندر مودی نے نہ صرف آگے بڑھ کر ان کو صوبہ گجرات آنے کی دعوت دی بلکہ گجرات میں ان کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
یوں نریندر مودی کارپوریٹ سیکٹر کے ٹائی کونز کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ جو اپنی برائیوں اور بدنامیوں کے باوجود محب وطن، کرپشن سے پاک، جنسی اسکینڈلز سے کوسوں دور، ہونے کی وجہ سے سیکولر بھارت (اکھنڈ بھارت میں) دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت (ہندو ریاست ہیں) کی وزارت عظمیٰ کے موزوں ترین امیدوار قرار دیے گئے۔ اور کارپوریٹ سیکٹر کے ان داتاؤں (ٹاٹا، امبانی برادرز وغیرہ) نے انتخابی پروپیگنڈے کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔
سیاست میں ہر وقت الٹی قلابازی میں مہارت کامیابی کی کلید ہوتی ہے۔ یہ بچوں کا کھیل، چوروں کا مشغلہ اور ابا جی کا ترکہ نہیں ہوتی۔ میاں نواز شریف کو لکھے گئے جوابی خط میں نریندر مودی کے چند فرمودات عالیہ ملاحظہ کیجیے۔
(1) میاں صاحب تشدد سے پاک ماحول میں آپ سے مل کر کام کرنا چاہتا ہوں۔ (2) پاکستان سے رشتے میں نئے باب کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ (3) تقریب حلف برداری میں آپ کی شرکت باعث ''فخر'' تھی۔ (4) نظریات میں مماثلت پر خوش ہوں۔ (یہاں اکھنڈ بھارت کے نظریات سے مراد نہیں ہے)۔ (5) اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی میں دہشت گردی کی کارروائی کی سخت مذمت کرتا ہوں اور اس ظالمانہ اور انسانیت سوز واقعے میں معصوم جانوں کے ضیاع پر اپنی اذیت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ اب جو ماحول بنا ہے اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اس سوال کو ابتدا میں اس لیے نہیں اٹھایا کہ اس کو صحیح سیاق و سباق میں پوچھوں۔ میری نظر میں صد فی صد کریڈٹ میاں نواز شریف کے فیصلے کو جاتا ہے جس کے لیے وہ پوری قوم کی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پاکستان کو اکھنڈ بھارت کے دعویداروں سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ان سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں دہلی لال قلعہ پر اسلامی پرچم لہرانے کے دعویداروں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مشرق میں بھارتی بارڈر کے قریب تھرکول پروجیکٹ اور مغربی سرحد کے قریب افغانستان کے قریب گوادر کی بندرگاہ پر ترقیاتی کام ہو رہا ہے۔ دونوں میگا پروجیکٹ پر چین کام کر رہا ہے۔ چین نے پاکستان سے صرف ایک شرط لگائی ہے وہ یہ ہے کہ چینی کارکنوں کی جان کی حفاظت کی ذمے داری پاکستانی حکومت کی۔ ایسے میں اگر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور افغانستان کے صدر عبداﷲ عبداﷲ کے درمیان گٹھ جوڑ ہوجائے تو پاکستان کے لیے بہت بڑے پرابلم کا سبب بن سکتا تھا۔
ہندو مت، ذات پات اور چھوت چھات کا نظام ہے، جو آدھی درجن ''ذاتوں'' (برہمن، چھتری، کھتری، کالسیتھ، شودر وغیرہ) پر مشتمل ہے۔ سب سے اونچی ذات کا برہمن سب سے نیچ ذات کے شودر سے اگر چھو بھی جائے تو اس کا دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے، جو جس ذات میں پیدا ہوتا ہے وہ بدذات مرنے تک اسی ذات میں رہتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے سیکولرزم کی چھتری تلے مل جل کر رہنا سیکھ لیا ہے۔ اس طرح بھارتی معاشرہ مادر پدر آزاد معاشرہ ہے۔ جس کا جو جی چاہے کہے یا کرے لیکن دوسرے کے انسانی حقوق کا خیال رکھے۔ ایوب خان کے زمانے میں ایک لطیفہ بڑا مشہور ہوا تھا۔
''واہگہ بارڈر پر ایک موٹے تازے پاکستانی کتے کی (جو بھارت جا رہا تھا) ایک دبلے پتلے بھارتی کتے سے مڈبھیڑ ہوگئی (جو پاکستان آرہا تھا) بھارتی کتے نے پاکستانی کتے سے پوچھا ''کیا خودکشی کا ارادہ ہے؟ بھارت کیوں جا رہے ہو؟'' پاکستانی کتے نے بڑے دکھ کے ساتھ بھارتی کتے کو دیکھا اور کہا ''تم ہی میرا درد بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہو، کیونکہ تم خود بھی کتے کی اولاد ہو۔ بے شک پاکستان میں کھانے کی کمی نہیں ہے لیکن بھونکنے پر پابندی ہے۔ بھلا ایک کتا بھونکے بنا کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟''
دنیا نے پہلے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا۔ پھر سیاست کو کاروبار سے جدا کرچکی ہے، بھارت چین دشمنی اپنی جگہ لیکن چین کے کارخانے بھارت میں چل رہے ہیں۔ امریکا، چین دشمنی برحق لیکن تقریباً ساری امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں کاروبار کر رہی ہیں، انھوں نے اپنے پروڈکشن یونٹس چین منتقل کردیے ہیں، امریکا کے ہر گھر میں مصنوعات کی بھرمار ہے وغیرہ۔
آخری سوال یہ ہے کہ دنیا کے مذکورہ سیناریو میں پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں سر اٹھا کر چلنے کے لیے اقوام عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کے لیے کون سا ''موٹو'' اختیار کرنا چاہیے، جواب حاضر ہے۔
''دوستی سب سے، دشمنی کسی سے نہیں۔ جنگ سے نفرت لیکن اپنے دفاع سے غفلت نہیں''۔