ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کا نظام
ہر ڈکٹیٹر نے جسد ملت پر ایسے زخم لگائے ہیں جو ابھی تک رِس رہے ہیں
وفاقی دارالحکومت میں بڑی عدالتوں میں بڑے اہم مقدمات چل رہے ہیں۔ کئی سینئر وکلاء سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ''کچھ صاحبان بعداز ریٹائرمنٹ کے امکانات پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، اس لیے ایک سیاستدان کی حمایت کی جارہی ہے، لگتا ہے کہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ کسی حد تک بھی جانے کے لیے تیّار ہیں۔ ''۔ سینئر قانون دانوں کے بقول ''دوسری جانب کچھ صاحبان اپنے ذاتی عناد اور رنجش سے باہر نکلنے کے لیے تیّار نہیں۔
اس طرح ہمارا نظام انصاف عناد اور مفاد کے وائرس کا شکار ہورہا ہے۔ سینئر قانون دانوں کے بقول اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کسی ایک کے بارے میں بھی یہ تاثر نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔ دوسرے اداروں کی طرح نظام انصاف بھی عوام کے اعتماد سے محروم ہو رہا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک اور تشویش کا موجب ہوتا ہے۔ اگر کھوج لگایا جائے تو اس صورتحال کا تعلق اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تقرری کے نظام سے ہے۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ ہائیکورٹس میں ججوں کی تقرری کا موجودہ نظام اصلاحات کا متقاضی ہے۔
کسی زمانے میں اعلیٰ عدلیہ میں تقرری حکومت کی صوابدید ہوتی تھی۔ حکومت اپنے منظورِ نظر وکیلوں کو جج تعینات کر دیتی تھی ۔ 1993میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو بینظیر بھٹو صاحبہ نے بیس کے قریب پارٹی کے وکلا کو لاہور ہائیکورٹ کا جج بنوادیا جنھیں قانونی حلقوں میں ''جیالے جج'' کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ قدرت کا اپنا ہی طریقۂ کار ہوتا ہے۔ جسے انسانوں کے لیے سمجھنا ناممکن ہے، جسٹس سجاد علی شاہ پہلے تو جیالا ہی بنا رہا مگر ایک جج کی تقرری پر اس کا بینظیر بھٹو سے اختلاف ہوگیا۔ 1996میں سجاد علی شاہ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا، جس کے تحت اُس نے ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرّری کا اختیار حکومت سے چھین کر خود سنبھال لیا یعنی چیف جسٹس کو دے دیا۔
پہلے اگر پارٹی کے وفاداروں کو جج مقرر کیا جاتا تھا تو اس فیصلے کے بعد چیف جسٹس صاحبان اپنی مرضی کے جج بنوانے لگے۔ جس شخص نے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے کئی سال تک انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں، اس کا میرٹ صرف منظورِ نظر ہونا ہے۔ تقرّری کے ناقص طریقۂ کار کے ذریعے کی گئی تعیناتیوں کا خمیازہ قوم اس وقت بھگت رہی ہے۔
ہر ڈکٹیٹر نے جسد ملت پر ایسے زخم لگائے ہیں جو ابھی تک رِس رہے ہیں اور جن کی وجہ سے ہر قومی ادارہ بربادی کا شکار ہوا ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے دو وفادار ''چوہدریوں'' کے اکسانے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نکال دیا، جس پر وکلاء نے ملک بھر میں تحریک چلائی جس کے نتیجے میں(کچھ اور عوامل بھی شامل تھے) افتخار چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہوگئے۔ مگر اس کے بعد وکلاء کااسٹیٹس تبدیل ہوگیا۔ اب وہ عدالتوں میں پورے ادب اور احترام کے ساتھ پیش ہونے والے وکیل نہ رہے بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کو بحال کرانے والے ان کے ''محسن'' بن کر سامنے آئے۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی تذلیل کا ایسا شرمناک دور شروع ہوا جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ وکلاء نے کمرہ عدالت میں سول اورسیشن ججوں کو گالیاں دیں، اُن کو تھپڑ مارے، ان کے ہاتھوں سے فیصلے چھین کر پھاڑ دیے اور کمرۂ عدالت میں کھڑے کھڑے ''اوپر'' فون کرکے ''ناپسندیدہ'' سول اور سیشن جج کو اسی وقت ٹرانسفر کرادیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے پاس بہت موقع تھا کہ وہ موجودہ گلے سڑے عدالتی نظام سے قوم کو نجات دلادیتے مگر انھوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔یوں وکیلوں کے ہاتھوں نہ صرف سیشن جج بلکہ ہائیکورٹ کے جج بھی بے عزت ہوتے رہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتوں میں ایک نیا کلچر پروان چڑھا۔ بار ایسوسی ایشن کے صدر فیصلوں پر حاوی ہونے لگا۔ لاہور ہائیکورٹ کے میرے پرانے کلاس فیلو دوست اور دیگر وکلاء بتاتے ہیں کہ اب ہائی کورٹ بار کا صدارتی امیدوار الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے اور صدر بن کر اپنے اخراجات سے کئی گنا زیادہ کمالیتا ہے۔
دوسرے وکلاء بار کے صدر کو صرف دکھانے کے لیے کسی عدالت میں لے جاتے ہیں اور اس ''منہ دکھائی''کے نتیجے میں وہ اپنی مرضی کے فیصلے لے لیتے ہیں۔ افتخار چوہدری کے دَور سے ہی بڑی بار ایسوسی ایشنز کے صدر کو ہائی کورٹ کا جج بنانے میں ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ اب جس شخص نے ہزاروں وکیلوں سے ووٹ مانگے ہوں اور ان کے ووٹوں سے وہ جیتا ہو۔ جو وکلاء کے مختلف گروپوں اور چیمبروں کو اپنا محسن اور مربی سمجھتا ہو، کیا وہ جج بن کر ایک دم غیر جانبدار ہوجائے گا؟ کیا وہ اپنے وکیل ووٹروں اور سپورٹروں کو ناراض یا اگنور کرسکتا ہے؟ کیا ایسا شخص بلا رورعایت (without fear and favour) فیصلے کرسکتا ہے؟ عقل، تجربہ اور حالات وواقعات کا مشترکہ جواب ہے نہیں!!
میں خود قانون کا طالب علم اور پھر پیشۂ وکالت سے منسلک رہا ہوں، خواجہ شریف مرحوم (لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس) ثاقب نثار اور میں خواجہ سلطان صاحب کے چیمبر سے منسلک تھے۔ میں نے سی ایس ایس کا امتحان دے کر نوکری میں پناہ لے لی مگر کیریئر کا آغاز وکالت سے ہی ہوا تھا۔ بنیادی طور پر ایک وکیل ہونے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ کسی پریکٹسنیگ وکیل کو ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کرنا چاہیے۔ وہ outstanding جج جو ایوب اور ضیاء کی آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے، جنھوں نے آئین اور جمہوریت کا دفاع کیا اور بڑے لَینڈمارک فیصلے دیے ان میں جسٹس کارنیلیس صاحب، جسٹس کیانی صاحب، جسٹس صمدانی صاحب اور جسٹس شفیع الرحمان صاحب سرِ فہرست ہیں،
ان میں سے کوئی بھی وکیل نہیں تھا۔ یہ سب حضرات سروس سے آئے تھے۔ آج کل ویسے تو جوڈیشل کمیشن بھی ہے اور اس کے علاوہ ممبرانِ پارلیمنٹ پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بھی ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے لیے بھیجے گئے ناموں پر غور کرتی ہے۔ مگر یہ صرف کاغذی کارروائی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کا تجویز کردہ کوئی نام پارلیمانی کمیٹی کبھی مسترد کرنے کی ہمت نہیں کرسکی۔ ماضی میں صرف ایک بار ثاقب نثار صاحب کے تجویز کردہ ایک نام پر راجہ ظفر الحق صاحب نے اعتراض کیا تھا ۔ اس پرچند روزکے لیے وہ نام موخر ہوا مگر چیف جسٹس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اس کا نوٹیفیکیشن کروادیا۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے وقت جن اوصاف کو دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے ان میں سب سے اہم کریکٹر اور integrity ہے۔ اگر عدلیہ پر عوام کا اعتماد کمزور ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جج صاحبان قانون سے ناواقف ہیں یا قابل نہیں ہیں۔ وہ قانون بھی جانتے ہیں، قابلیت کا بھی فقدان نہیں ہے۔ اگر کمی ہے تو اس کمٹمنٹ کی جو انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے کی جرات پیدا کرتی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح کوئی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی لیڈر غیرجانبدار پولیس یا انتظامیہ نہیں چاہتا اسی طرح وہ اعلیٰ کردار کے حامل نہیں، بلکہ صرف وفادار عدلیہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس جوڈیشل سسٹم کو بدلنے میں نہ مخلص ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی متبادل حل ہے۔ اگر کوئی حل ہوتا تو وہ میڈیا کے ذریعے عوام کے ساتھ شیئر کرتے۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب اس تحریر کے ذریعے پھر تجویز کررہا ہوں کہ وکلاء میں سے امتحان کے ذریعے ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیے جائیں اور پندرہ سال کی سروس والے نیک نام اور باکردار سیشن ججوں میں سے ہائی کورٹس کے جج مقرر کیے جائیں۔ کسی وکیل کو (خاص طور پر وہ جو کسی بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار رہ چکے ہوں) ہائی کورٹ کا جج ہرگز نہ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے سابق ججوں پر ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی عہدہ لینے پر مکمل پابندی عائد کردی جائے تاکہ فیصلے کرتے وقت ان کی نظر ریٹائرمنٹ کے بعد مل سکنے والے عہدوں پر نہ ہو اور وہ کسی لالچ، مفاد اور عناد کے بغیر انصاف کے مطابق فیصلے کرسکیں۔
اس طرح ہمارا نظام انصاف عناد اور مفاد کے وائرس کا شکار ہورہا ہے۔ سینئر قانون دانوں کے بقول اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کسی ایک کے بارے میں بھی یہ تاثر نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔ دوسرے اداروں کی طرح نظام انصاف بھی عوام کے اعتماد سے محروم ہو رہا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک اور تشویش کا موجب ہوتا ہے۔ اگر کھوج لگایا جائے تو اس صورتحال کا تعلق اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تقرری کے نظام سے ہے۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ ہائیکورٹس میں ججوں کی تقرری کا موجودہ نظام اصلاحات کا متقاضی ہے۔
کسی زمانے میں اعلیٰ عدلیہ میں تقرری حکومت کی صوابدید ہوتی تھی۔ حکومت اپنے منظورِ نظر وکیلوں کو جج تعینات کر دیتی تھی ۔ 1993میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو بینظیر بھٹو صاحبہ نے بیس کے قریب پارٹی کے وکلا کو لاہور ہائیکورٹ کا جج بنوادیا جنھیں قانونی حلقوں میں ''جیالے جج'' کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ قدرت کا اپنا ہی طریقۂ کار ہوتا ہے۔ جسے انسانوں کے لیے سمجھنا ناممکن ہے، جسٹس سجاد علی شاہ پہلے تو جیالا ہی بنا رہا مگر ایک جج کی تقرری پر اس کا بینظیر بھٹو سے اختلاف ہوگیا۔ 1996میں سجاد علی شاہ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا، جس کے تحت اُس نے ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرّری کا اختیار حکومت سے چھین کر خود سنبھال لیا یعنی چیف جسٹس کو دے دیا۔
پہلے اگر پارٹی کے وفاداروں کو جج مقرر کیا جاتا تھا تو اس فیصلے کے بعد چیف جسٹس صاحبان اپنی مرضی کے جج بنوانے لگے۔ جس شخص نے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے کئی سال تک انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں، اس کا میرٹ صرف منظورِ نظر ہونا ہے۔ تقرّری کے ناقص طریقۂ کار کے ذریعے کی گئی تعیناتیوں کا خمیازہ قوم اس وقت بھگت رہی ہے۔
ہر ڈکٹیٹر نے جسد ملت پر ایسے زخم لگائے ہیں جو ابھی تک رِس رہے ہیں اور جن کی وجہ سے ہر قومی ادارہ بربادی کا شکار ہوا ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے دو وفادار ''چوہدریوں'' کے اکسانے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نکال دیا، جس پر وکلاء نے ملک بھر میں تحریک چلائی جس کے نتیجے میں(کچھ اور عوامل بھی شامل تھے) افتخار چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہوگئے۔ مگر اس کے بعد وکلاء کااسٹیٹس تبدیل ہوگیا۔ اب وہ عدالتوں میں پورے ادب اور احترام کے ساتھ پیش ہونے والے وکیل نہ رہے بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کو بحال کرانے والے ان کے ''محسن'' بن کر سامنے آئے۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی تذلیل کا ایسا شرمناک دور شروع ہوا جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ وکلاء نے کمرہ عدالت میں سول اورسیشن ججوں کو گالیاں دیں، اُن کو تھپڑ مارے، ان کے ہاتھوں سے فیصلے چھین کر پھاڑ دیے اور کمرۂ عدالت میں کھڑے کھڑے ''اوپر'' فون کرکے ''ناپسندیدہ'' سول اور سیشن جج کو اسی وقت ٹرانسفر کرادیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے پاس بہت موقع تھا کہ وہ موجودہ گلے سڑے عدالتی نظام سے قوم کو نجات دلادیتے مگر انھوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔یوں وکیلوں کے ہاتھوں نہ صرف سیشن جج بلکہ ہائیکورٹ کے جج بھی بے عزت ہوتے رہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتوں میں ایک نیا کلچر پروان چڑھا۔ بار ایسوسی ایشن کے صدر فیصلوں پر حاوی ہونے لگا۔ لاہور ہائیکورٹ کے میرے پرانے کلاس فیلو دوست اور دیگر وکلاء بتاتے ہیں کہ اب ہائی کورٹ بار کا صدارتی امیدوار الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے اور صدر بن کر اپنے اخراجات سے کئی گنا زیادہ کمالیتا ہے۔
دوسرے وکلاء بار کے صدر کو صرف دکھانے کے لیے کسی عدالت میں لے جاتے ہیں اور اس ''منہ دکھائی''کے نتیجے میں وہ اپنی مرضی کے فیصلے لے لیتے ہیں۔ افتخار چوہدری کے دَور سے ہی بڑی بار ایسوسی ایشنز کے صدر کو ہائی کورٹ کا جج بنانے میں ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ اب جس شخص نے ہزاروں وکیلوں سے ووٹ مانگے ہوں اور ان کے ووٹوں سے وہ جیتا ہو۔ جو وکلاء کے مختلف گروپوں اور چیمبروں کو اپنا محسن اور مربی سمجھتا ہو، کیا وہ جج بن کر ایک دم غیر جانبدار ہوجائے گا؟ کیا وہ اپنے وکیل ووٹروں اور سپورٹروں کو ناراض یا اگنور کرسکتا ہے؟ کیا ایسا شخص بلا رورعایت (without fear and favour) فیصلے کرسکتا ہے؟ عقل، تجربہ اور حالات وواقعات کا مشترکہ جواب ہے نہیں!!
میں خود قانون کا طالب علم اور پھر پیشۂ وکالت سے منسلک رہا ہوں، خواجہ شریف مرحوم (لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس) ثاقب نثار اور میں خواجہ سلطان صاحب کے چیمبر سے منسلک تھے۔ میں نے سی ایس ایس کا امتحان دے کر نوکری میں پناہ لے لی مگر کیریئر کا آغاز وکالت سے ہی ہوا تھا۔ بنیادی طور پر ایک وکیل ہونے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ کسی پریکٹسنیگ وکیل کو ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کرنا چاہیے۔ وہ outstanding جج جو ایوب اور ضیاء کی آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے، جنھوں نے آئین اور جمہوریت کا دفاع کیا اور بڑے لَینڈمارک فیصلے دیے ان میں جسٹس کارنیلیس صاحب، جسٹس کیانی صاحب، جسٹس صمدانی صاحب اور جسٹس شفیع الرحمان صاحب سرِ فہرست ہیں،
ان میں سے کوئی بھی وکیل نہیں تھا۔ یہ سب حضرات سروس سے آئے تھے۔ آج کل ویسے تو جوڈیشل کمیشن بھی ہے اور اس کے علاوہ ممبرانِ پارلیمنٹ پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بھی ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے لیے بھیجے گئے ناموں پر غور کرتی ہے۔ مگر یہ صرف کاغذی کارروائی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کا تجویز کردہ کوئی نام پارلیمانی کمیٹی کبھی مسترد کرنے کی ہمت نہیں کرسکی۔ ماضی میں صرف ایک بار ثاقب نثار صاحب کے تجویز کردہ ایک نام پر راجہ ظفر الحق صاحب نے اعتراض کیا تھا ۔ اس پرچند روزکے لیے وہ نام موخر ہوا مگر چیف جسٹس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اس کا نوٹیفیکیشن کروادیا۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے وقت جن اوصاف کو دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے ان میں سب سے اہم کریکٹر اور integrity ہے۔ اگر عدلیہ پر عوام کا اعتماد کمزور ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جج صاحبان قانون سے ناواقف ہیں یا قابل نہیں ہیں۔ وہ قانون بھی جانتے ہیں، قابلیت کا بھی فقدان نہیں ہے۔ اگر کمی ہے تو اس کمٹمنٹ کی جو انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے کی جرات پیدا کرتی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح کوئی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی لیڈر غیرجانبدار پولیس یا انتظامیہ نہیں چاہتا اسی طرح وہ اعلیٰ کردار کے حامل نہیں، بلکہ صرف وفادار عدلیہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس جوڈیشل سسٹم کو بدلنے میں نہ مخلص ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی متبادل حل ہے۔ اگر کوئی حل ہوتا تو وہ میڈیا کے ذریعے عوام کے ساتھ شیئر کرتے۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب اس تحریر کے ذریعے پھر تجویز کررہا ہوں کہ وکلاء میں سے امتحان کے ذریعے ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیے جائیں اور پندرہ سال کی سروس والے نیک نام اور باکردار سیشن ججوں میں سے ہائی کورٹس کے جج مقرر کیے جائیں۔ کسی وکیل کو (خاص طور پر وہ جو کسی بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار رہ چکے ہوں) ہائی کورٹ کا جج ہرگز نہ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے سابق ججوں پر ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی عہدہ لینے پر مکمل پابندی عائد کردی جائے تاکہ فیصلے کرتے وقت ان کی نظر ریٹائرمنٹ کے بعد مل سکنے والے عہدوں پر نہ ہو اور وہ کسی لالچ، مفاد اور عناد کے بغیر انصاف کے مطابق فیصلے کرسکیں۔