شہباز شریف کی چین سے واپسی
چینی صدر کا یہ پیغام ان طاقتوں کے لیے ہے جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں
وزیر اعظم شہباز شریف چین کا ''کامیاب'' دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے بیرون ملک دورے عموماً کامیاب ہی تصور کیے جاتے ہیںاور یہ بھی ایک ایسا ہی دورہ تھا۔میاں شہباز شریف انقلابی خیالات رکھتے ہیں، عوام کی خدمت کا بھوت ان کے سر پر ہمیشہ سوار رہتا ہے، اس لیے انھیں پہلے پنجاب اوراب پاکستان اسپیڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
چین جیسے انقلابی ملک میں جا کر ایک انقلابی لیڈر کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔ جی ہاں! یہ وہی چین ہے جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا لیکن ترقی میں ہم سے کہیں آگے ہے ۔ چینی مصنوعات نے دنیا میں انقلاب برپا کر رکھا ہے ، دنیا کی ترقی یافتہ معیشتیں چین سے خوفزدہ ہیں اور وہ چینی مصنوعات کی فروخت کو روکنے کے لیے ہر ممکن حربے استعمال کررہی ہیں لیکن چین نے کسی بھی سپر پاور کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خود کو ایک معاشی سپر پاور ثابت کر دیا ہے ۔
چین اور پاکستان کی دوستی میں ابھی تک دشمنوں کی کوششوں کے باوجود رخنہ نہیں ڈالا جا سکا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ ہمیں آج تک کوئی ایسا حکمران نہیں مل سکا جو ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہو جو بھی آیا اس نے ڈنگ ٹپاؤ والا راستہ اختیار کیا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں ۔ چند ارب ڈالر کے لیے در در کشکول اٹھائے پھرتے ہیں لیکن ہمارا کشکول بھرنے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا کیونکہ ہمارے کشکول میں اتنے زیادہ چھید ہیں کہ اس میں جوکچھ بھی ڈالا جاتا ہے وہ ان چھیدوں میں سے نکل کر کشکول کے نیچے پھیلے کھلے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے اور یہ کھلے ہاتھ وہی ہیں جو اپنی جیب بھرتے ہیں اور اب تو دنیا کو بھی اس کا علم ہو گیا ہے کہ پاکستانی کشکول میں کچھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ اس کے بدلے کچھ خرید کر لیا جائے ۔
پاکستان کا کشکول آئی ایم ایف بھرتا ہے جس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے ادارے بیچ دیے جائیں اور اب حکومت ایسا ہی کرنے جارہی ہے لیکن ہمارے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کے بڑے سرمایہ ہم سے کنی کترا رہے ہیں۔ خداجانے یہ سرکاری اداروں کی فروخت کا مشن کس حد تک کامیاب ہو گا ۔بات شروع کی تھی وزیر اعظم کے چین کے دورے سے کامیاب واپسی کی جس کے دوران کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں ۔ سی پیک کی بحالی پر اتفاق کیا گیا ہے۔ چینی صدر نے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔
چینی صدر کا یہ پیغام ان طاقتوں کے لیے ہے جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں جن میں ہندوستان اولین ہے ۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ زرعی ملک پاکستان کے ایک ہزار طلباء کو سرکاری خرچ پر زراعت کی تربیت کے لیے چین بھیجا جائے گا، وہ واپس آکر زراعت کے جدید طریقہ کار کو رائج کریں گے۔ یعنی ایک زرعی ملک کی دعویٰ داری کرنے والے زراعت سے اس حد تک نابلد ہو چکے ہیں کہ اب اپنے نوجوانوں کو چین بھیج کر ان کی تعلیم وتربیت پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بہر حال رونے دھونے کا کیا فائدہ ہمیں نئی منصوبہ بندی کر کے آگے کی طرف دیکھنا ہوگا ۔
اگر ہم نے چین سے کچھ سیکھنا ہے تو عدل و انصاف اور معاشیات کا مساویانہ نظام رائج کر کے ملک کے نوے فیصد غریب عوام کو ان کے حقوق دینا سیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر معاشرے میں ناانصافی اور غریب عوام سے زیادتیوں کا سلسلہ ختم نہ کیا گیا تو خونی انقلاب کو روکا نہیں جا سکے گا۔اس خونی انقلاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم معاشرے سے مشاورت کے ذریعے ان محرومیوں کو ختم کریں ۔
ہم اکثر چین کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن چین میں اگرماؤزے تنگ نے سادہ زندگی بسر کی تو باقی حکمرانوں نے بھی سادہ زندگی کو شعار بنایا ۔ وہاں حکمران محلات میں نہیں رہتے بلکہ ان کا معیار زندگی عام آدمی کے برابر ہے۔ میاں شہباز شریف جو کئی دفعہ چین جا چکے ہیں چینیوں کی ترقی کا راز اور اسباب کو وہ بخوبی جانتے ہیں ۔اب اس ماڈل پر عمل درآمد اور عملی پالیسیوں پر کام کرنا ان کی ذمے داری ہے۔ خدا نے ان کو کئی دفعہ اقتدار سے نوازاہے، وہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پر براجمان ہیں ۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ان کی بھتیجی کی حکومت ہے۔ اس اقتدار اور اختیار کے ساتھ ان کے اندر بلا کی قوت عمل بھی ہے جس کا وہ کئی دفعہ اظہار بھی کر چکے ہیں اور ایک زمانہ ان کی اس صلاحیت کا معترف ہے وہ دن رات کام کرتے ہیں نہ خود کوتاہی کرتے ہیں اور نہ کسی کو کوتاہی کرنے دیتے ہیں، ان کی کارکردگی کے قصے بڑے دلچسپ اور حیرت افزاء ہیں۔ کئی برس کے اقتدار سے انھوں بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔
زمانہ بڑا استاد ہے اور اقتدار اس سے بھی بڑا جو انسان کو عمل کی وسیع دنیا سے متعارف کرادیتاہے ۔ میاں شہبازشریف کو زمانے نے بہت کچھ سکھایا ہے اور اب قوم ان سے عملی قدم کی آس لگائے بیٹھی ہے ۔ پاکستان کا اصل اور بنیادی مسئلہ ایک اچھی حکومت کا ہے، زمینی وسائل سے مالا مال اس ملک کی غربت اور افلاس کا بنیادی سبب غیر ذمے دارانہ اور عوام کے مفاد سے بیگانہ حکومتیں ہیں اور ایسے بے رحم حکمران جنھوں نے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بے تکلفی سے قربان کر دیا ۔ میاں شہباز شریف کو اب عملی مثال قائم کرنا ہو گی اور پاکستان کے عوام کو بتانا ہوگا کہ وہ ایک نیا شہباز شریف ہے جو چین سے دوستی کے علاوہ بھی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ چین کی ترقی کا راز ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، بس عمل کی ضرورت ہے اور شہباز شریف یہ کام کر سکتا ہے۔
چین جیسے انقلابی ملک میں جا کر ایک انقلابی لیڈر کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔ جی ہاں! یہ وہی چین ہے جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا لیکن ترقی میں ہم سے کہیں آگے ہے ۔ چینی مصنوعات نے دنیا میں انقلاب برپا کر رکھا ہے ، دنیا کی ترقی یافتہ معیشتیں چین سے خوفزدہ ہیں اور وہ چینی مصنوعات کی فروخت کو روکنے کے لیے ہر ممکن حربے استعمال کررہی ہیں لیکن چین نے کسی بھی سپر پاور کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خود کو ایک معاشی سپر پاور ثابت کر دیا ہے ۔
چین اور پاکستان کی دوستی میں ابھی تک دشمنوں کی کوششوں کے باوجود رخنہ نہیں ڈالا جا سکا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ ہمیں آج تک کوئی ایسا حکمران نہیں مل سکا جو ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہو جو بھی آیا اس نے ڈنگ ٹپاؤ والا راستہ اختیار کیا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں ۔ چند ارب ڈالر کے لیے در در کشکول اٹھائے پھرتے ہیں لیکن ہمارا کشکول بھرنے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا کیونکہ ہمارے کشکول میں اتنے زیادہ چھید ہیں کہ اس میں جوکچھ بھی ڈالا جاتا ہے وہ ان چھیدوں میں سے نکل کر کشکول کے نیچے پھیلے کھلے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے اور یہ کھلے ہاتھ وہی ہیں جو اپنی جیب بھرتے ہیں اور اب تو دنیا کو بھی اس کا علم ہو گیا ہے کہ پاکستانی کشکول میں کچھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ اس کے بدلے کچھ خرید کر لیا جائے ۔
پاکستان کا کشکول آئی ایم ایف بھرتا ہے جس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے ادارے بیچ دیے جائیں اور اب حکومت ایسا ہی کرنے جارہی ہے لیکن ہمارے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کے بڑے سرمایہ ہم سے کنی کترا رہے ہیں۔ خداجانے یہ سرکاری اداروں کی فروخت کا مشن کس حد تک کامیاب ہو گا ۔بات شروع کی تھی وزیر اعظم کے چین کے دورے سے کامیاب واپسی کی جس کے دوران کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں ۔ سی پیک کی بحالی پر اتفاق کیا گیا ہے۔ چینی صدر نے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔
چینی صدر کا یہ پیغام ان طاقتوں کے لیے ہے جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں جن میں ہندوستان اولین ہے ۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ زرعی ملک پاکستان کے ایک ہزار طلباء کو سرکاری خرچ پر زراعت کی تربیت کے لیے چین بھیجا جائے گا، وہ واپس آکر زراعت کے جدید طریقہ کار کو رائج کریں گے۔ یعنی ایک زرعی ملک کی دعویٰ داری کرنے والے زراعت سے اس حد تک نابلد ہو چکے ہیں کہ اب اپنے نوجوانوں کو چین بھیج کر ان کی تعلیم وتربیت پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بہر حال رونے دھونے کا کیا فائدہ ہمیں نئی منصوبہ بندی کر کے آگے کی طرف دیکھنا ہوگا ۔
اگر ہم نے چین سے کچھ سیکھنا ہے تو عدل و انصاف اور معاشیات کا مساویانہ نظام رائج کر کے ملک کے نوے فیصد غریب عوام کو ان کے حقوق دینا سیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر معاشرے میں ناانصافی اور غریب عوام سے زیادتیوں کا سلسلہ ختم نہ کیا گیا تو خونی انقلاب کو روکا نہیں جا سکے گا۔اس خونی انقلاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم معاشرے سے مشاورت کے ذریعے ان محرومیوں کو ختم کریں ۔
ہم اکثر چین کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن چین میں اگرماؤزے تنگ نے سادہ زندگی بسر کی تو باقی حکمرانوں نے بھی سادہ زندگی کو شعار بنایا ۔ وہاں حکمران محلات میں نہیں رہتے بلکہ ان کا معیار زندگی عام آدمی کے برابر ہے۔ میاں شہباز شریف جو کئی دفعہ چین جا چکے ہیں چینیوں کی ترقی کا راز اور اسباب کو وہ بخوبی جانتے ہیں ۔اب اس ماڈل پر عمل درآمد اور عملی پالیسیوں پر کام کرنا ان کی ذمے داری ہے۔ خدا نے ان کو کئی دفعہ اقتدار سے نوازاہے، وہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پر براجمان ہیں ۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ان کی بھتیجی کی حکومت ہے۔ اس اقتدار اور اختیار کے ساتھ ان کے اندر بلا کی قوت عمل بھی ہے جس کا وہ کئی دفعہ اظہار بھی کر چکے ہیں اور ایک زمانہ ان کی اس صلاحیت کا معترف ہے وہ دن رات کام کرتے ہیں نہ خود کوتاہی کرتے ہیں اور نہ کسی کو کوتاہی کرنے دیتے ہیں، ان کی کارکردگی کے قصے بڑے دلچسپ اور حیرت افزاء ہیں۔ کئی برس کے اقتدار سے انھوں بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔
زمانہ بڑا استاد ہے اور اقتدار اس سے بھی بڑا جو انسان کو عمل کی وسیع دنیا سے متعارف کرادیتاہے ۔ میاں شہبازشریف کو زمانے نے بہت کچھ سکھایا ہے اور اب قوم ان سے عملی قدم کی آس لگائے بیٹھی ہے ۔ پاکستان کا اصل اور بنیادی مسئلہ ایک اچھی حکومت کا ہے، زمینی وسائل سے مالا مال اس ملک کی غربت اور افلاس کا بنیادی سبب غیر ذمے دارانہ اور عوام کے مفاد سے بیگانہ حکومتیں ہیں اور ایسے بے رحم حکمران جنھوں نے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بے تکلفی سے قربان کر دیا ۔ میاں شہباز شریف کو اب عملی مثال قائم کرنا ہو گی اور پاکستان کے عوام کو بتانا ہوگا کہ وہ ایک نیا شہباز شریف ہے جو چین سے دوستی کے علاوہ بھی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ چین کی ترقی کا راز ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، بس عمل کی ضرورت ہے اور شہباز شریف یہ کام کر سکتا ہے۔