رباب کی موت
ادھر موسیٰ خان کی موت پر خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں احتجاج بھی ہوا۔
رباب موسیقی کا آلہ ہے، رباب کی طویل تاریخ ہے، قدیم ایران میں لوگ رباب بجاتے تھے۔ فارسی کی قدیم کتابوں میں رباب کا ذکر ملتا ہے۔ پشتو، دری اور فارسی میں رباب پر لوک گیت گائے جاتے تھے۔ کئی معروف صوفیائے کرام کا کلام رباب کی موسیقی کے ساتھ سنایا جاتا ہے۔ روایتی طور پر کوہستان کے علاقے میں رباب کے آغازکا پتہ چلتا ہے۔ اطراف کے ممالک افغانستان، پاکستان، ازبکستان، ایران، ترکی، عراق اور تاجکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرحد سے متصل چین کے مسلمان آبادی والے صوبہ سنکیانگ،کشمیر اور پنجاب کے علاقوں میں آج نوجوانوں کا مقبول موسیقی کا آلہ رباب ہے۔ عموماً نوجوان لڑکے لڑکیاں رباب پر عشقیہ گانے گاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔ رباب پر صوفیانہ کلام اور قدیم نغموں کو بھی خوبصورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں انقلابی نوجوان رباب پر انقلابی نغمے گاتے ہیں۔
موسیٰ خان کو بچپن سے رباب بجانے کا شوق تھا۔ اس کا کالج میں ترقی پسند گروپوں سے رابطہ ہوا، وہ پختون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں کام کرنے لگا مگر رباب بجانا اور گانا گانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اسے مالاکنڈ یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ مل گیا، موسیقی ابلاغ عامہ کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، موسیٰ خان عوام سے رابطے کے لیے موسیقی کی مدد لیتا تھا۔ موسیٰ خان چھٹے سمسٹر میں تھا، یونیورسٹی کے باہر نوجوانوں نے میوزک پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔ موسیٰ خان اپنے دوستوں کے ہمراہ ہوسٹل سے جا رہا تھا ، اس دوران یونیورسٹی اور ہوسٹل انتظامیہ کے اہلکار نے موسیٰ اور ان کے دوستوں کو برا بھلا کہا اور رباب چھین لیا۔
یہ نوجوان خاموشی سے چلے گئے۔ ایچ آر سی پی خیبر پختون خوا کے وائس چیئرپرسن اکبر خان کی تحقیق کے مطابق دوسرے دن موسیٰ خان کو ہوسٹل سے نکال دیا گیا، انھیں اور ان کے ساتھیوں کو اظہارِ وجوہ کے نوٹس دیے گئے کہ ان طلبہ نے یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس نوٹس کے وصول ہونے کے تین دن کے دوران جواب داخل کیا جائے اور اگر جواب تسلی بخش نہ ہوا تو تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ موسیٰ خان اور ان کے ساتھیوں کے لیے یہ نوٹس سخت پریشانی کا باعث ہے مگر یہ طالب علم مضبوط اعصاب کے مالک تھے، یوں انھوں نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا، مگر دوسرے دن جب موسیٰ خان اپنے دوستوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر یونیورسٹی جارہے تھے تو ایک تیز رفتار کار نے موسیٰ خان کو کچل دیا، یوں خیبر پختون خوا کی یونیورسٹی میں ایک اور مشال خان کی یاد تازہ ہوگئی۔
موسیٰ خان اور ان کے ساتھیوں کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس دینے اور موسیٰ خان کی المناک موت کی ہر طرف مذمت ہونے لگی۔ لیکن خیبر پختون خوا کی حکومت اس پر خاموش رہی ۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور شاید پی ٹی آئی اور طالبان حامیوں کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، ممکن ہے، اس مصروفیت کے باعث انھوں نے موسیٰ خان کی المناک موت کی خبر پر توجہ نہ دی ہو، مگر صوبے کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے انتظامیہ سے اس واقعے کی رپورٹ طلب کر لی۔
ادھر موسیٰ خان کی موت پر خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں احتجاج بھی ہوا۔ ایک ویب سائٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا کے نوجوانوں نے موسیٰ خان کے ساتھ یکجہتی کے لیے انوکھا میوزیکل احتجاج کیا۔ سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ موسیٰ خان کو رباب بجانے پر رات کو ہوسٹل سے نکال دیا گیا تھا، جس کی بناء پر وہ سخت ذہنی دباؤ میں تھے کہ اچانک ایک تیز رفتار کار نے موسیٰ خان کو کچل دیا۔ اصولی طور پر تو یونیورسٹی کے ان لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے، جنھوں نے موسی خان کے ساتھ غلط سلوک کیا ، سول سوسائٹی کے دانشوروں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت یونیورسٹیز میں ایسے وائس چانسلرز کا تقرر کرے جو علمی آزاد ی، ادب اور فن کی اہمیت کا احساس ہو اور وہ ایسی سائنسی سوچ کے حامل ہوں کہ اساتذہ اور طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں پر قدغن لگانے کے بجائے ان کی علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
اکبر خان نے جمع کردہ حقائق کے مطابق لکھا ہے کہ موسیٰ خان سے کوئی غیر قانونی حرکت سر زد نہیں ہوئی تھی۔ مالاکنڈ یونیورسٹی کا ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے، جس میں اساتذہ اور طلبہ پر سوچنے اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار مشکل ہو گیا ہے۔ طلبہ آئے دن انتظامیہ کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ انتظامیہ کبھی ان کے مطالبات کو مان لیتی ہے مگر پھر اس پر عملدرآمد نہیں کرتی۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے چیئر پرسن اسد اقبال بٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ موسیٰ خان کو اظہار وجوع کا نوٹس دینے اور تادیبی کارروائی کرنے والوں اور اس کی موت پر غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ طلبہ و طالبات کی ثقافتی سرگرمیوں پر پابندیوں کے بارے میں بھی تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ریاست کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ یونیورسٹی میں دانشورانہ تحقیقی صلاحیتوں کے اظہار پرکوئی پابندی عائد نہ ہو۔ خیبرپختون خوا کی یونیورسٹیوں میں ایک فنکار طالب علم کے خلاف تادیبی کارروائی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ صحافت میں ایک ذہین طالب علم مشال خان نے داخلہ لیا تھا۔ مشال خان فلسفہ، تاریخ، شاعری اور حالاتِ حاضرہ کا ماہر سمجھا جاتا تھا، مشال خان ایک تخلیقی شخصیت کا مالک تھا۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں اس کی زندگی کے خاتمے کا سبب بن گئیں۔ 13اپریل 2017ء کو ولی خان یونیورسٹی مردان میں شعبہ صحافت کے ایک ذہین طالب علم مشال خان کا بہیمانہ قتل آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
رجعت پسند طلبہ کے ایک ہجوم جس میں یونیورسٹی کے بعض طلبہ اور غیر تدریسی عملہ کے بعض ارکان شامل تھے، اس ہجوم نے مشال خان کو بیہمانہ تشدد کر کے قتل کردیا تھا۔ اس واقعے کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی۔ اس وقت بھی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ ایسے واقعات دیگر صوبوں میں بھی رونما ہورہے ہیں۔ ملتان کے ایک پروفیسر برسوں سے جیل میں ہیں ۔ ان کے وکیل راشد رحمن کو بھی قتل کردیا گیا۔ موسیٰ خان کے ساتھ جو ہوا وہ قابلِ مذمت اقدام ہے۔ اسلام آباد کی وفاقی حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر یونیورسٹیاں بھی رجعت پسندوں کا گڑھ بن گئیں اور تخلیقی صلاحیتوں پر پابندیاں لگی رہیں تو پھر یونیورسٹیوں کے قیام کا مقصد ختم ہوجائے گا۔ رباب تخلیقی صلاحیت کا استعارہ ہے۔ رباب پر پابندی تخلیق کی موت ہے۔