ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز میں چھاپے
تھانے کی پہلی پکی آمدنی یہی ہے کہ تھانے کی حدود میں کتنے ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز ، سپا اور سلون ہیں۔
پولیس کا کام جرائم کی روک تھام کرنا اور مجرمان کی گرفتاری ہے۔ معاشرے کی اخلاقیات کو درست کرنا پولیس کا نہ تو کام ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ moral policingکوئی اچھی چیز نہیں۔ معاشرے کی اچھائی اور برائی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے اور بہت سے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ پولیس کو یہ کام نہیںکرنا چاہیے۔ پولیس جب یہ کام کرے گی تو معاشرے میں اسے نفرت کی نگاہ سے ہی دیکھا جائے گا۔ اس کے کوئی مثبت نتائج بھی سامنے نہیں آئیں گے۔
ڈی آئی جی لاہور عمران کشور نے سی آئی اے لاہور کے پانچ اہلکاروں کو اس بات پر معطل کیاہے کہ انھوں نے لاہور میں ایک ہوٹل میں ریڈ کیا۔ وہاں ٹھہرے ہوئے ایک شادی شدہ جوڑے کو گرفتار کیا ، انھیں غیر شادی شدہ قرار دے کر ایف آئی آر درج کر دی۔ جوڑے نے بعد میں عدالت میں نکاح نامہ پیش کیاکہ وہ تو بہت عرصہ سے شادی شدہ ہیں۔ میرے خیال میں ان کے پاس موقع پر نکاح نامہ موجود نہیں تھا، اس لیے پولیس نے ان کو شادی شدہ ماننے سے انکار کر دیا اور انھیںگرفتار کر لیا۔ شادی شدہ جوڑے نے پولیس کے خلاف بھی عدالت سے رجوع کیا۔
انکوائری کے مطابق شادی شدہ جوڑے کو نہ صرف موقع پر ہراس کیا گیا، ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی بلکہ ان کی تذلیل کر کے انھیں پولیس وین بٹھا کر تھانے بھی لیجایا گیا۔ یہ کیا ہے؟ یہ واقعہ کسی دور افتادہ گاؤں میں نہیں بلکہ لاہور میں ہوا ہے اور سی آئی اے پولیس نے کیا ہے۔ کسی ترقی یافتہ مہذب ملک میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن کسی ترقی پذیر ملک میں بھی ایسا واقعہ نہیں ہوسکتا جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیس اہلکار روزانہ ا یسے کام کرتے ہیں۔
یہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں ریڈ کہاں ہوتے ہیں؟ کس ملک میں کمرے کھلوا کر جوڑوں سے نکاح نامے چیک کیے جاتے ہیں؟کہاں جوڑوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا آپس میں رشتہ کیا ہے؟ کون ہر وقت نکاح نامہ اپنے پاس رکھتا ہے؟ لاہور پولیس کس دور میں رہتی ہے؟ اور یہ لوگوں کے نکاح نامہ چیک کرنا کب سے اس کا کا م ہو گیا ہے؟ کہاں لکھا ہے کہ اگرآپ کسی خاتون کے ساتھ جا رہے ہوںگے تو کسی بھی وقت اورکہیں بھی، آپ سے آپ کا نکاح نامہ چیک کیا جا سکتا ہے۔ نکاح نامہ نہ ہونے پر آپ کے خلاف حدود کا پرچہ کاٹ دیا جائے گا۔ آپ کی تذلیل کی جائے گی، ہراس کیا جائے گا۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ شادی شدہ جوڑا کس اذیت سے گزرا ہوگا؟ کیا وہ دونوں کو ایک دوسرے کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوںگے؟ کیا وہ دوبارہ کسی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے کا رسک لیں گے؟
مجھے یاد ہے، ایک دفعہ مرحوم منو بھائی نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ لاہور پولیس میں ایک ایس پی صرف لوگوں کا منہ سونگھنے کے لیے بھی رکھ لیا جائے۔مرحوم منو بھائی نے برسوں پہلے یہ کہا تھا لیکن آج بھی یہ پولیس کا محبوب مشغلہ ہے۔ پتہ نہیں یہ کام بھی پولیس نے اپنے ذمے کیوں لیا ہوا ہے؟ ناکوں پر لڑکے لڑکیوں روک کر ان کے بے عزتی کرنا۔ گاڑیوں کی ڈگیاں چیک کرنا۔ مصروف ترین شاہراہوں پر سڑک کے عین درمیان میں بیریئر لگا کر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنا، یہ سب پولیس کے محبوب کام ہیں۔جب پولیس فائیوا سٹار اور فور اسٹار ہوٹل کے تو اندر نہیں گھس سکتی تو یہ چھوٹے اوردرمیانے درجے کے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں کیوں گھستی ہے؟ کیا اس پر مکمل پابندی نہیں ہونی چاہیے؟کوئی شادی شدہ ہے یا غیرشادی شدہ ، جب تک پولیس کے پاس شکایت نہیں آتی، یہ انھیں کیسے گرفتار کر سکتے ہیں۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگر کوئی مذہبی افسر آجائے تو وہ اس اخلاقی معاملات پر کریک ڈاؤن شروع کرادیتا ہے۔ اس کی رائے میں معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بے حیائی ہے اور اس نبٹنا پولیس کا اولین کام ہے۔ یوں منتھلیوں کے ریٹ بھی کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ چھوٹے افسر اور اہلکارکہتے ہیں اوپر سختی ہوگئی ہے۔ صرف ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں ہی ایسا نہیں ہے بلکہ سپا اور سلون کے بزنس میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کبھی پولیس خود ہی یہ طے کر لیتی ہے کہ شہر میں سپا اور سیلون کا بزنس بے حیائی پھیلا رہا ہے، اس لیے ان کو بند کرانے کے لیے کریک ڈاؤن شروع کیے جائیں ۔ کبھی کہتے ہیں، نہیں یہ تو پورے ملک میں ہیں ،ہم کیسے بند کر سکتے ہیں۔لوگوں کی رائے ہے کہ یہ سب ریٹس بڑھانے کا کھیل ہوتا ہے۔
تھانے کی پہلی پکی آمدنی یہی ہے کہ تھانے کی حدود میں کتنے ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز ، سپا اور سلون ہیں۔ وہاں سے پکی منتھلی آتی ہے اور اس کام کے لیے ایک مخصوص اہلکار بھی رکھا جاتا ہے۔ آپ فائیو اسٹار ہو ٹل سے نکلیں، دو پولیس اہلکار پیچھے لگ جائیں گے اور آپ کی گاڑی کی ڈگی چیک کریں گے۔پتہ نہیں لاہور پولیس نے اہلکاروں کو اس کام پر کیوں لگایا ہوا ہے اور اس سے پولیس کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ پانچ اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔ کیا یہ سزا کافی ہے۔نہیں یہ کافی نہیں۔ اس سلسلہ کو روکنا ہوگا۔ پولیس کو اپنے ا ندر یہ واضع پیغام دینا ہوگا کہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤز میں ریڈ غیر قانونی ہیں۔
لوگوں کے نکاح نامہ چیک کرنا غیر قانونی ہیں۔ راتوں کو کمرے کھلوا کر جوڑوں کو چیک کرنا غیر قانونی ہے۔ جو بھی یہ جرائم کرے، اسے نہ صرف نوکری سے نکالا جائے بلکہ اس پر مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار بھی کیا جائے ۔ جو معطل ہوئے ہیں، وہ کل بحال ہو جائیں گے اور پھر یہی کام کریں گے۔ بلکہ اس جوڑے کو اب کہا جائے گا کہ اپنی شکایت واپس لیں، ان پر شکایت واپس لینے کا دباؤ بڑھایا جائے گا۔ پولیس کا ایک دفاع ہے کہ ان جرائم کو ملک کے قانون میں جرم لکھا گیا ہے۔ اس لیے ہم پکڑتے ہیں۔ یہ جرائم تب ہیں جب آپ کے پاس شکایت آئے۔ آپ نے خود کمرے نہیں چیک کرنے۔ اگر کوئی لڑکی شکایت لائے تو کاروائی کریں۔ لیکن خود نہ پہنچ جائیں۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ساری سختی غریب اور متوسط طبقے کے لیے ہے۔ امیر علاقوں اور بڑے ہوٹلوں میں تو کوئی گھس نہیں سکتا۔ وہاں آپ محفو ظ ہیں۔ لیکن چھوٹے ہوٹل اور متوسط طبقہ کے علاقوں میں پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ امیر اور غٖریب کا فرق بھی سمجھیں۔ اس ملک میں امیر کو آزادی ہے،غریب پر سختی ہے۔ ایک شہر دو قانون چل رہے ہیں۔ ایسا صرف لاہور میں نہیں ہے، سارے پاکستان کی یہی صورتحال ہے۔
ڈی آئی جی لاہور عمران کشور نے سی آئی اے لاہور کے پانچ اہلکاروں کو اس بات پر معطل کیاہے کہ انھوں نے لاہور میں ایک ہوٹل میں ریڈ کیا۔ وہاں ٹھہرے ہوئے ایک شادی شدہ جوڑے کو گرفتار کیا ، انھیں غیر شادی شدہ قرار دے کر ایف آئی آر درج کر دی۔ جوڑے نے بعد میں عدالت میں نکاح نامہ پیش کیاکہ وہ تو بہت عرصہ سے شادی شدہ ہیں۔ میرے خیال میں ان کے پاس موقع پر نکاح نامہ موجود نہیں تھا، اس لیے پولیس نے ان کو شادی شدہ ماننے سے انکار کر دیا اور انھیںگرفتار کر لیا۔ شادی شدہ جوڑے نے پولیس کے خلاف بھی عدالت سے رجوع کیا۔
انکوائری کے مطابق شادی شدہ جوڑے کو نہ صرف موقع پر ہراس کیا گیا، ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی بلکہ ان کی تذلیل کر کے انھیں پولیس وین بٹھا کر تھانے بھی لیجایا گیا۔ یہ کیا ہے؟ یہ واقعہ کسی دور افتادہ گاؤں میں نہیں بلکہ لاہور میں ہوا ہے اور سی آئی اے پولیس نے کیا ہے۔ کسی ترقی یافتہ مہذب ملک میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن کسی ترقی پذیر ملک میں بھی ایسا واقعہ نہیں ہوسکتا جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیس اہلکار روزانہ ا یسے کام کرتے ہیں۔
یہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں ریڈ کہاں ہوتے ہیں؟ کس ملک میں کمرے کھلوا کر جوڑوں سے نکاح نامے چیک کیے جاتے ہیں؟کہاں جوڑوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا آپس میں رشتہ کیا ہے؟ کون ہر وقت نکاح نامہ اپنے پاس رکھتا ہے؟ لاہور پولیس کس دور میں رہتی ہے؟ اور یہ لوگوں کے نکاح نامہ چیک کرنا کب سے اس کا کا م ہو گیا ہے؟ کہاں لکھا ہے کہ اگرآپ کسی خاتون کے ساتھ جا رہے ہوںگے تو کسی بھی وقت اورکہیں بھی، آپ سے آپ کا نکاح نامہ چیک کیا جا سکتا ہے۔ نکاح نامہ نہ ہونے پر آپ کے خلاف حدود کا پرچہ کاٹ دیا جائے گا۔ آپ کی تذلیل کی جائے گی، ہراس کیا جائے گا۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ شادی شدہ جوڑا کس اذیت سے گزرا ہوگا؟ کیا وہ دونوں کو ایک دوسرے کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوںگے؟ کیا وہ دوبارہ کسی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے کا رسک لیں گے؟
مجھے یاد ہے، ایک دفعہ مرحوم منو بھائی نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ لاہور پولیس میں ایک ایس پی صرف لوگوں کا منہ سونگھنے کے لیے بھی رکھ لیا جائے۔مرحوم منو بھائی نے برسوں پہلے یہ کہا تھا لیکن آج بھی یہ پولیس کا محبوب مشغلہ ہے۔ پتہ نہیں یہ کام بھی پولیس نے اپنے ذمے کیوں لیا ہوا ہے؟ ناکوں پر لڑکے لڑکیوں روک کر ان کے بے عزتی کرنا۔ گاڑیوں کی ڈگیاں چیک کرنا۔ مصروف ترین شاہراہوں پر سڑک کے عین درمیان میں بیریئر لگا کر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنا، یہ سب پولیس کے محبوب کام ہیں۔جب پولیس فائیوا سٹار اور فور اسٹار ہوٹل کے تو اندر نہیں گھس سکتی تو یہ چھوٹے اوردرمیانے درجے کے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں کیوں گھستی ہے؟ کیا اس پر مکمل پابندی نہیں ہونی چاہیے؟کوئی شادی شدہ ہے یا غیرشادی شدہ ، جب تک پولیس کے پاس شکایت نہیں آتی، یہ انھیں کیسے گرفتار کر سکتے ہیں۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگر کوئی مذہبی افسر آجائے تو وہ اس اخلاقی معاملات پر کریک ڈاؤن شروع کرادیتا ہے۔ اس کی رائے میں معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بے حیائی ہے اور اس نبٹنا پولیس کا اولین کام ہے۔ یوں منتھلیوں کے ریٹ بھی کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ چھوٹے افسر اور اہلکارکہتے ہیں اوپر سختی ہوگئی ہے۔ صرف ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں ہی ایسا نہیں ہے بلکہ سپا اور سلون کے بزنس میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کبھی پولیس خود ہی یہ طے کر لیتی ہے کہ شہر میں سپا اور سیلون کا بزنس بے حیائی پھیلا رہا ہے، اس لیے ان کو بند کرانے کے لیے کریک ڈاؤن شروع کیے جائیں ۔ کبھی کہتے ہیں، نہیں یہ تو پورے ملک میں ہیں ،ہم کیسے بند کر سکتے ہیں۔لوگوں کی رائے ہے کہ یہ سب ریٹس بڑھانے کا کھیل ہوتا ہے۔
تھانے کی پہلی پکی آمدنی یہی ہے کہ تھانے کی حدود میں کتنے ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز ، سپا اور سلون ہیں۔ وہاں سے پکی منتھلی آتی ہے اور اس کام کے لیے ایک مخصوص اہلکار بھی رکھا جاتا ہے۔ آپ فائیو اسٹار ہو ٹل سے نکلیں، دو پولیس اہلکار پیچھے لگ جائیں گے اور آپ کی گاڑی کی ڈگی چیک کریں گے۔پتہ نہیں لاہور پولیس نے اہلکاروں کو اس کام پر کیوں لگایا ہوا ہے اور اس سے پولیس کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ پانچ اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔ کیا یہ سزا کافی ہے۔نہیں یہ کافی نہیں۔ اس سلسلہ کو روکنا ہوگا۔ پولیس کو اپنے ا ندر یہ واضع پیغام دینا ہوگا کہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤز میں ریڈ غیر قانونی ہیں۔
لوگوں کے نکاح نامہ چیک کرنا غیر قانونی ہیں۔ راتوں کو کمرے کھلوا کر جوڑوں کو چیک کرنا غیر قانونی ہے۔ جو بھی یہ جرائم کرے، اسے نہ صرف نوکری سے نکالا جائے بلکہ اس پر مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار بھی کیا جائے ۔ جو معطل ہوئے ہیں، وہ کل بحال ہو جائیں گے اور پھر یہی کام کریں گے۔ بلکہ اس جوڑے کو اب کہا جائے گا کہ اپنی شکایت واپس لیں، ان پر شکایت واپس لینے کا دباؤ بڑھایا جائے گا۔ پولیس کا ایک دفاع ہے کہ ان جرائم کو ملک کے قانون میں جرم لکھا گیا ہے۔ اس لیے ہم پکڑتے ہیں۔ یہ جرائم تب ہیں جب آپ کے پاس شکایت آئے۔ آپ نے خود کمرے نہیں چیک کرنے۔ اگر کوئی لڑکی شکایت لائے تو کاروائی کریں۔ لیکن خود نہ پہنچ جائیں۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ساری سختی غریب اور متوسط طبقے کے لیے ہے۔ امیر علاقوں اور بڑے ہوٹلوں میں تو کوئی گھس نہیں سکتا۔ وہاں آپ محفو ظ ہیں۔ لیکن چھوٹے ہوٹل اور متوسط طبقہ کے علاقوں میں پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ امیر اور غٖریب کا فرق بھی سمجھیں۔ اس ملک میں امیر کو آزادی ہے،غریب پر سختی ہے۔ ایک شہر دو قانون چل رہے ہیں۔ ایسا صرف لاہور میں نہیں ہے، سارے پاکستان کی یہی صورتحال ہے۔