خواب اور سراب
اگر بی جے پی کے اتحادیوں (این ڈی اے) کی حاصل کردہ نشستیں ملائیں تو یہ کل 292 بنتی ہیں۔
بظاہر خواب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انسان نیندکی آغوش میں دیکھتا ہے جس کی تعبیر کا اسے خود پتا نہیں ہوتا۔ ایک خواب وہ ہوتا ہے جو انسان جاگتی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی تعبیر پانے کے لیے محنت، لگن، حوصلے اور اخلاص نیت کے ساتھ سخت جدوجہد، بھاگ دوڑ اور مشقت کرتا ہے، تکلیفیں اٹھاتا ہے، کٹھن راستوں کا سفر طے کرتا ہے اور چیلنجزکا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے تب کہیں جا کر وہ اپنے خواب کی تعبیر حاصل کر پاتا ہے، اگر نیت میں فتور، دل میں کھوٹ اور جذبہ صادق نہ ہو، دیکھتی آنکھوں کے خواب کی تعبیر الٹ ہو جاتی ہے اور منزل کوسوں دور۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی حالیہ انتخابات میں ایسا ہی کچھ ہوا۔
نریندر مودی کا خواب تھا کہ وہ اس مرتبہ لوک سبھا کی چار سو سے زائد نشستیں جیت کر بھارت کی تاریخ کے طاقتور ترین حکمران بنیں گے اور اپنے مسلم دشمن ہندو توا ایجنڈے اور پاکستان مخالف پالیسی کو پوری شد و مد کے ساتھ پورے بھارت میں نافذ کریں گے۔ انھوں نے اپنے اس نفرت انگیز خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے پورے بھارتی میڈیا، اہم اداروں اور بڑے گروپوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر۔ایس۔ایس) کے لاکھوں سیوکوں کا جتھہ ان کی پشت پر تھا۔ مودی نے انتہا پسند ہندو اکثریتی صوبے ایودھیا، جہاں تاریخی بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر کی بنیاد رکھی تھی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔
وہاں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رہنماؤں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اتر پردیش میں بھی مودی کو بڑا جھٹکا لگا جہاں انڈیا اتحاد کانگریس کی ہمنوا جماعت سماج وادی پارٹی نے 80 میں سے 40 کے قریب نشستیں جیت کر مودی کو دھول چٹا دی۔ تمام تر ریاستی طاقت اور سرکاری مشینری کو استعمال کرنے کے باوجود نریندر مودی کا چار سو نشستیں جیتنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا کی 543 نشستوں میں بی جے پی کو صرف 240 نشستیں ملی ہیں، جب کہ تنہا حکومت بنانے کے لیے مودی کو 272 نشستوں کی ضرورت ہے۔
اگر بی جے پی کے اتحادیوں (این ڈی اے) کی حاصل کردہ نشستیں ملائیں تو یہ کل 292 بنتی ہیں۔ گویا نریندر مودی کا تنہا طاقت ور حکمران بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کی بے ساکھیوں کی مدد سے بھارت کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ایک کمزور وزیر اعظم ہیں جنھیں ہمہ وقت اپنی اتحادی جماعتوں کے دباؤ اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ انتخابات میں کمزور پوزیشن اور 272 نشستوں کی سادہ اکثریت سے محرومی کی وجہ ان کا انتہا پسندانہ رویہ، مسلم دشمنی، پاکستان کی مخالفت اور بھارت میں بسنے والی اقلیتوں سے ناروا سلوک ہے۔ مودی ہندوتوا کو بھارت میں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اس مرتبہ انھیں اپنے ان ناپاک عزائم میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور بھارتی ووٹرز نے اپنے شعورکا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں، اقلیتوں اور پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی جماعت کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو ووٹ دیے، نتیجتاً پچھلے دو انتخابات 2014 اور 2019 کے مقابلے میں 2024 میں کانگریس اتحاد نے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ کانگریس کی اپنی نشستیں 199 ہیں جب کہ کانگریس اتحاد کی کل نشستیں 235۔ راہول گاندھی کی سربراہی میں انڈیا اتحاد بھارتی لوک سبھا میں مودی سرکار کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارتی الیکشن میں کہیں سے '' دھاندلی'' کا آوازہ بلند نہیں ہوا۔ مداخلت کاری شور و غل بھی سنائی نہیں دیا اور نہ ہی اپوزیشن نے فارم 45 کی جگہ فارم 47 والی حکومت کے الزامات عائد کیے۔ بعینہ الیکشن کمیشن متنازع بنا اور عدلیہ پر جانبداری کا کوئی الزام لگا۔ سب نے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ ادھر پاکستان میں 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں صورتحال مختلف رہی۔ حسب عادت ہارنے والوں نے الزامات لگانا شروع کر دیے، اپوزیشن کی جانب سے الزامات کی ایک فہرست سامنے آئی ہے ، جیتنے والوں نے بھی ہارنے والوں کی عادت سمجھ کر شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور شکوؤں کا جواب شکوہ سے ازالہ کرنے کی مشق کی جا رہی ہے ۔
موجودہ حکومت کو بھی مودی کی طرح مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔ تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی ہو رہی ہیں۔ خان صاحب '' طاقتوروں'' کے علاوہ کسی سے بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے۔ حکومت چین سے معاہدے کرے یا سعودی عرب و امارات سے سرمایہ لائے، سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف واضح طور پر حکومت کو بتا چکا ہے ۔
ملک کی ترقی کا خواب پورا کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ نریندر مودی نے بھی 400 نشستیں جیتنے کا خواب دیکھا تھا جو ان کی ناقص کارکردگی کے باعث سراب ثابت ہوا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی دو تہائی اکثریت سے جیت کر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھا تھا۔ مگر حالات نے ساتھ نہیں دیا۔سیاست میں بہت سے خواب سراب بن جاتے ہیں، جیسے مودی کا چار سو سے زیادہ نشستیں جیت کر طاقتور وزیر اعظم بننے کا خواب سراب بن گیا۔
نریندر مودی کا خواب تھا کہ وہ اس مرتبہ لوک سبھا کی چار سو سے زائد نشستیں جیت کر بھارت کی تاریخ کے طاقتور ترین حکمران بنیں گے اور اپنے مسلم دشمن ہندو توا ایجنڈے اور پاکستان مخالف پالیسی کو پوری شد و مد کے ساتھ پورے بھارت میں نافذ کریں گے۔ انھوں نے اپنے اس نفرت انگیز خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے پورے بھارتی میڈیا، اہم اداروں اور بڑے گروپوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر۔ایس۔ایس) کے لاکھوں سیوکوں کا جتھہ ان کی پشت پر تھا۔ مودی نے انتہا پسند ہندو اکثریتی صوبے ایودھیا، جہاں تاریخی بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر کی بنیاد رکھی تھی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔
وہاں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رہنماؤں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اتر پردیش میں بھی مودی کو بڑا جھٹکا لگا جہاں انڈیا اتحاد کانگریس کی ہمنوا جماعت سماج وادی پارٹی نے 80 میں سے 40 کے قریب نشستیں جیت کر مودی کو دھول چٹا دی۔ تمام تر ریاستی طاقت اور سرکاری مشینری کو استعمال کرنے کے باوجود نریندر مودی کا چار سو نشستیں جیتنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا کی 543 نشستوں میں بی جے پی کو صرف 240 نشستیں ملی ہیں، جب کہ تنہا حکومت بنانے کے لیے مودی کو 272 نشستوں کی ضرورت ہے۔
اگر بی جے پی کے اتحادیوں (این ڈی اے) کی حاصل کردہ نشستیں ملائیں تو یہ کل 292 بنتی ہیں۔ گویا نریندر مودی کا تنہا طاقت ور حکمران بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کی بے ساکھیوں کی مدد سے بھارت کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ایک کمزور وزیر اعظم ہیں جنھیں ہمہ وقت اپنی اتحادی جماعتوں کے دباؤ اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ انتخابات میں کمزور پوزیشن اور 272 نشستوں کی سادہ اکثریت سے محرومی کی وجہ ان کا انتہا پسندانہ رویہ، مسلم دشمنی، پاکستان کی مخالفت اور بھارت میں بسنے والی اقلیتوں سے ناروا سلوک ہے۔ مودی ہندوتوا کو بھارت میں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اس مرتبہ انھیں اپنے ان ناپاک عزائم میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور بھارتی ووٹرز نے اپنے شعورکا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں، اقلیتوں اور پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی جماعت کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو ووٹ دیے، نتیجتاً پچھلے دو انتخابات 2014 اور 2019 کے مقابلے میں 2024 میں کانگریس اتحاد نے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ کانگریس کی اپنی نشستیں 199 ہیں جب کہ کانگریس اتحاد کی کل نشستیں 235۔ راہول گاندھی کی سربراہی میں انڈیا اتحاد بھارتی لوک سبھا میں مودی سرکار کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارتی الیکشن میں کہیں سے '' دھاندلی'' کا آوازہ بلند نہیں ہوا۔ مداخلت کاری شور و غل بھی سنائی نہیں دیا اور نہ ہی اپوزیشن نے فارم 45 کی جگہ فارم 47 والی حکومت کے الزامات عائد کیے۔ بعینہ الیکشن کمیشن متنازع بنا اور عدلیہ پر جانبداری کا کوئی الزام لگا۔ سب نے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ ادھر پاکستان میں 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں صورتحال مختلف رہی۔ حسب عادت ہارنے والوں نے الزامات لگانا شروع کر دیے، اپوزیشن کی جانب سے الزامات کی ایک فہرست سامنے آئی ہے ، جیتنے والوں نے بھی ہارنے والوں کی عادت سمجھ کر شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور شکوؤں کا جواب شکوہ سے ازالہ کرنے کی مشق کی جا رہی ہے ۔
موجودہ حکومت کو بھی مودی کی طرح مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔ تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی ہو رہی ہیں۔ خان صاحب '' طاقتوروں'' کے علاوہ کسی سے بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے۔ حکومت چین سے معاہدے کرے یا سعودی عرب و امارات سے سرمایہ لائے، سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف واضح طور پر حکومت کو بتا چکا ہے ۔
ملک کی ترقی کا خواب پورا کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ نریندر مودی نے بھی 400 نشستیں جیتنے کا خواب دیکھا تھا جو ان کی ناقص کارکردگی کے باعث سراب ثابت ہوا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی دو تہائی اکثریت سے جیت کر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھا تھا۔ مگر حالات نے ساتھ نہیں دیا۔سیاست میں بہت سے خواب سراب بن جاتے ہیں، جیسے مودی کا چار سو سے زیادہ نشستیں جیت کر طاقتور وزیر اعظم بننے کا خواب سراب بن گیا۔