تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے وزیر خزانہ
نان فائلرز کیلے ٹیکس کی شرح بڑھا کر 45 فیصد اسلیے کی تاکہ وہ سوچے فائلرز کی اصطلاح بھی موجود ہے، پریس کانفرنس
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تنخواہ دار طبقے پر احتجاج مسترد کردیا اور کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے، نان فائلرز کیلے ٹیکس کی شرح 45 فیصد اس لیے کی تاکہ وہ سوچے فائلرز کی اصطلاح بھی پاکستان میں ہی ہے۔
یہ بات انہوں ںے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ ان کے ساتھ وزیر مملکت برائے خزانہ و توانائی علی پرویز ملک، چیئرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ، سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس کے آغاز سے قبل کانفرنس کے تمام شرکاء نے تنخواہ دار طبقے پر اربوں روپے ٹیکس لگانے پر وزیر خزانہ سے احتجاج کیا اور وزیر خزانہ کو تنخوادار طبقے پر ٹیکسوں کو غیر منصفانہ بوجھ کم کرنے کا مطالبہ کیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ دس فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح نا قابل قبول ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو اگلے دو تین سال تک بڑھا کر تیرہ فیصد تک لے کر جانی ہے، بجٹ کا دوسرا اصول معیشت کو دستاویزی بنانا ہے، ایف بی آر کی کارکردگی کی بات ہورہی ہے یہ درست ہے کہ اس طرح کمپلائنس نہیں ہوسکا، ہیومن مداخلت کو کم سے کم کرکے ڈیجیٹائزیشن کی طرف جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروگریسو ٹیکسیشن کی طرف جارہے ہیں جس کی آمدنی زیادہ ہے اس پر زیادہ ٹیکس کا اصول اپنایا گیا ہے، نان فائلرز کیلے ٹیکس کی شرح بڑھا کر 45 فیصد تک کی گئی ہے، اس اقدام کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ تین چار بار سوچے ضرور کہ فائلرز کی اصطلاح بھی پاکستان میں ہی ہے، ہم ملک سے نان فائلرز کو ختم کرنے جارہے ہیں
انہوں ںے کہا کہ پانچ بنیادی اصولوں پر بجٹ پیش کیاگیا ہے، پٹرولیم لیوی اسی روپے کی گئی ہے یہ ایک ساتھ نہیں بڑھانے جارہے اگر پی ڈی ایل بڑھانا بھی پڑی تو بتدریج بڑھائیں گے اور اسے عالمی قیمتوں سے منسلک کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے میں چھ لاکھ آمدنی کو چھوٹ برقرار رکھی ہے اور تنخواہ دار طبقے کیلئے زیادہ سے زیادہ 35فیصد ٹیکس کی شرح رکھی گئی ہے البتہ ٹیکس سلیبز میں ٹیکس کی شرح میں رد و بدل ضرور کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دس فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح نا قابل قبول ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو اگلے دو تین سال تک بڑھا کر تیرہ فیصد تک لے کر جانا ہے، پروگریسو ٹیکسیشن کی طرف جارہے ہیں جس کی آمدنی زیادہ ہے اس پر زیادہ ٹیکس کا اصول اپنایا گیا ہے۔
انہوں ںے بتایا کہ جولائی سے ریٹیلرز پر ٹیکس لاگو ہوگا اس اسکیم پر کام جاری ہے۔
یہ بات انہوں ںے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ ان کے ساتھ وزیر مملکت برائے خزانہ و توانائی علی پرویز ملک، چیئرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ، سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس کے آغاز سے قبل کانفرنس کے تمام شرکاء نے تنخواہ دار طبقے پر اربوں روپے ٹیکس لگانے پر وزیر خزانہ سے احتجاج کیا اور وزیر خزانہ کو تنخوادار طبقے پر ٹیکسوں کو غیر منصفانہ بوجھ کم کرنے کا مطالبہ کیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ دس فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح نا قابل قبول ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو اگلے دو تین سال تک بڑھا کر تیرہ فیصد تک لے کر جانی ہے، بجٹ کا دوسرا اصول معیشت کو دستاویزی بنانا ہے، ایف بی آر کی کارکردگی کی بات ہورہی ہے یہ درست ہے کہ اس طرح کمپلائنس نہیں ہوسکا، ہیومن مداخلت کو کم سے کم کرکے ڈیجیٹائزیشن کی طرف جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروگریسو ٹیکسیشن کی طرف جارہے ہیں جس کی آمدنی زیادہ ہے اس پر زیادہ ٹیکس کا اصول اپنایا گیا ہے، نان فائلرز کیلے ٹیکس کی شرح بڑھا کر 45 فیصد تک کی گئی ہے، اس اقدام کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ تین چار بار سوچے ضرور کہ فائلرز کی اصطلاح بھی پاکستان میں ہی ہے، ہم ملک سے نان فائلرز کو ختم کرنے جارہے ہیں
انہوں ںے کہا کہ پانچ بنیادی اصولوں پر بجٹ پیش کیاگیا ہے، پٹرولیم لیوی اسی روپے کی گئی ہے یہ ایک ساتھ نہیں بڑھانے جارہے اگر پی ڈی ایل بڑھانا بھی پڑی تو بتدریج بڑھائیں گے اور اسے عالمی قیمتوں سے منسلک کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے میں چھ لاکھ آمدنی کو چھوٹ برقرار رکھی ہے اور تنخواہ دار طبقے کیلئے زیادہ سے زیادہ 35فیصد ٹیکس کی شرح رکھی گئی ہے البتہ ٹیکس سلیبز میں ٹیکس کی شرح میں رد و بدل ضرور کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دس فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح نا قابل قبول ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو اگلے دو تین سال تک بڑھا کر تیرہ فیصد تک لے کر جانا ہے، پروگریسو ٹیکسیشن کی طرف جارہے ہیں جس کی آمدنی زیادہ ہے اس پر زیادہ ٹیکس کا اصول اپنایا گیا ہے۔
انہوں ںے بتایا کہ جولائی سے ریٹیلرز پر ٹیکس لاگو ہوگا اس اسکیم پر کام جاری ہے۔