نان فائلرز گاڑی اور مکان نہیں خرید سکیں گے مزید پابندیاں لگانے کی تیاری
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اراکین کی نان فائلرز پر مزید پابندیاں لگانے کی سفارش
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اراکین نے نان فائلرز پر گاڑی اور مکان کی خریداری پر پابندی تجویز دیدی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اراکین کو بتایا کہ زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس عائد کیا جائے گا نان فائلرز کی اختراع سمجھ نہیں آتی، ہم نے نان فائلرز کی ٹرم کو ختم کرنا ہے این ٹی این نمبر کے بغیر آپ لندن پیرس اور تھائی لینڈ نہیں جا سکیں گے جبکہ نان فائلرز کو صرف عمرہ اور حج کی اجازت ہوگی۔
کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کے 80 فیصد خریدار نان فائلرز ہیں برآمدی شعبے کو نارمل ٹیکس نظام میں لانے سے ان کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ وزیر اعظم نے پی ڈبلیو ڈی کو بند کرنے کا فیصلہ ادارے میں کرپشن کے باعث کیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس بیس کو بڑھانا ہے ساڑھے 9 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح پر ملک نہیں چل سکتا ملک میں ٹیکس کی اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلایزیشن کی جائے گی زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
سینٹر محسن عزیز نے کہا کہ نان فائلرز پر گاڑی اور مکان خریداری پر پابندی ہونا چاہیےم انڈسٹری کے 80 فیصد خریدار نان فائلرز ہیں برآمدی شعبے کو نارمل ٹیکس نظام میں لانے سے ان کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا ہے۔
سینٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ ہم آپ کو معیشت کی بحالی میں مکمل مدد فراہم کریں گے، آپ عمرہ اور حج کیلئے فائلر ہونے کی شرط عائد کریں، الیکٹرک کاروں پر ٹیکس استثنی برقرار رکھا جائے جبکہ سینٹر انوشہ رحمن نے کہا کہ موبائل فونز پر ٹیکس کم کیا جائے موبائل فون کے استعمال سے ٹیکس بنتا ہے اس پر ٹیکس عائد کرنے کرنے سے نہیں ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ننے اراکین کمیٹی کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بتایا کہ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، ملک کے 6 شہروں میں 31 ہزار ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، جولائی سے ریٹیلرز پر ٹیکس عائد ہو جائے گا ملک کی ٹیکس آمدن سے زیادہ قرض پر سود کی ادائیگیاں ہیں ملک میں اسمارٹ فونز بننا شروع ہو گئے ہیں ہم ملک کی سب سے بڑی خدمت یہ کر سکتے ہیں کہ ہر چیز میں سے حکومت کو نکل دیں جو سبجیکٹ صوبوں کو منتقل ہو چکے انکی وزارتوں کو وفاقی حکومت کے پاس رکھنا درست نہیں ہے۔
انہوں نے کاہ کہ غریبوں کیلئے 593 ارب روپے رکھا گیا ہے انکو تربیت اور تعلیم فراہم کریں گے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس 35 فیصد رکھا گیا ہے کاروباری آمدن والوں پر 45 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، ایف بی آر کی ٹیکس لیکیج 6 ہزار سے 7 ہزار ارب روپے سالانہ ہے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کا نئے طور پر مکمل اطلاق کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس کا پہلا اطلاق بڑی ناکامی تھی کوئی حکومتی کمپنی اسٹرٹیجک نہیں ہے، وزارتوں کو حکومتی کمپنیوں کے اسٹرٹیجک کمپنی ہونے کا ثبوت دینا ہو گا۔
اجلاس میں نمائندہ ایف پی سی سی آئی کریم عزیز نے کہا کہ اس بجٹ میں صنعت اور برآمدات کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا، انہوں نے کہا کہ چاول کی برآمد پر ایک فیصد انکم ٹیکس تھا اس کو 29 فیصد کر دیا گیا ہے، ایسا کرنے سے انڈر انوائسنگ بڑھ جائے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بجلی کے ٹیرف میں کمی کی جائے اس دفعہ ہر چیز پر سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے ہم بجٹ سے مطمئن نہیں ہیں انڈسٹری چلے گی تو روزگار اور ٹیکس ملے گا۔