بزم کتاب
ایوب خان کی فراست اوسط درجے کی تھی، وہ دولت کے حریص تھے لیکن بددیانت نہیں تھے۔
رفیع الزماں زبیری ایک ادیب اورکالم نویس ہیں، ان کے کالموں کے سات مجموعے شایع ہوچکے ہیں، کتابوں کی باتیں، کتاب اور صاحب کتاب، آپ بیتی جگ بیتی، نقش کتاب، حرف کتاب، کتابوں کی محفل اور زیر نظر مجموعہ بزم کتاب۔ اس مجموعے میں بڑے معلوماتی اور دلچسپ کالم ہیں۔ چلیے، قارئین کو چند بہترین کالموں سے روشناس کراتے ہیں۔
سب سے پہلے روئیداد خان کی کتاب '' پاکستان انقلاب کے دہانے پر'' سے اقتباس ملاحظہ ہو۔ یہ دراصل ان چھ افراد کی کہانی ہے جو ملک کے صدرکی حیثیت سے برسر اقتدار رہے، یعنی ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیا الحق، غلام اسحاق اور سردار فاروق لغاری۔ ان سب کے ساتھ روئیداد خان کو بحیثیت سرکاری افسر کام کرنے کا موقع ملا۔
'' ایوب خان کی فراست اوسط درجے کی تھی، وہ دولت کے حریص تھے لیکن بددیانت نہیں تھے۔ وہ بنیادی طور پر خوش خلق، رحم دل اور شریف النفس تھے۔''
''یحییٰ خان اچھے انسان ضرور تھے، لیکن اچھے صدر شاید ہی ہوں۔ وہ نقاب پوش نہیں تھے، وہ جو نظر آتے تھے وہی تھے، وہ مکر و ریا سے پاک تھے۔ مالی معاملات میں یحییٰ خان نہایت محتاط اور دیانت دار تھے۔ اسی لیے اپنی وفات کے وقت تقریباً قلاش تھے۔ فرانس کے صدر لوئی شازدہم کی طرح شاید مزے لوٹنے کے لیے صدر بنے تھے، انسان نہایت عمدہ صدر شاید بدترین۔''
روئیداد خان '' پاکستان میں اقتدارکا سرچشمہ کون ہے'' کے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں '' کسی ریاست میں حقیقی اقتدار اعلیٰ اس ادارے کے پاس ہے جو ریاست کے شہریوں سے آخرکار اپنا حکم منوانے کی قوت رکھتا ہو۔ انتخاب کنندگان کے پاس اقتدار اعلیٰ ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں انتخاب کنندگان نہ اپنا حق جتا سکتے ہیں نہ اپنی مرضی منوا سکتے ہیں۔'' ''پاکستان میں آج تک کسی عدالت نے کسی عوام کے اعتماد کے امین کو نقص عہد کے جرم میں سزا نہیں دی، لہٰذا یہ سمجھنا کہ پاکستان میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہے محض خام خیالی ہے۔''
قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کے بارے میں یہ رائے دیکھیے۔
'' قاضی صاحب ایک شگفتہ طبع، بذلہ سنج اور خوش مزاج انسان تھے، دل کھول کر ہنستے تھے اور بہترین حس مزاح کا مظاہرہ کرتے تھے، بے جا ڈانٹ ڈپٹ کے وہ قائل نہ تھے، اپنی بات دوسروں پہ مسلط کرنے کے بجائے ان کا موقف پوری توجہ سے سنتے تھے۔''
'' یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو میں لکھا جانے والا پہلا سانیٹ قاضی صاحب نے لکھا تھا، قاضی صاحب ایک درد مند، رحم دل، مخلص انسان، شفیق باپ، بہترین شوہر اور ایک ہمدرد دوست تھے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی علم ایسا ہو جس پر ان کی نظر نہ ہو۔ طب میں وہ باقاعدہ طبیہ کالج دہلی کے سند یافتہ تھے، موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرچکے تھے، تحقیق کے مرد میداں تھے لیکن زاہد خشک نہ تھے۔'' یہ اقتباسات تھے '' قاضی احمد میاں جونا گڑھی، احوال و آثار'' سے۔
اور اب ذکر ہو جائے ''بزم شاہد'' کا جو شاہد احمد دہلوی کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے اسلم فرخی نے مرتب کیا ہے۔
شاہد احمد دہلوی نے مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں ''مولانا اپنی وضع قطع سے ریٹائرڈ پہلوان معلوم ہوتے تھے، مولانا کا رنگ میدہ شہابی تھا سر گھٹا ہوا اس پر چنی ہوئی روپلی، گول چہرہ کشادہ پیشانی جگر جگر کرتی آنکھیں، کتارا سی ناک، موزوں دہن پتلے ہونٹ ڈاڑھی مونچھ صاف گلے میں باریک ململ کا کرتا، آڑا پاجامہ، نیم ساق تک چوڑیاں پڑی ہوئی، پاؤں میں سلیم شاہی جوتا کندھے پہ رومال قلندرانہ وضع شاہانہ مزاج'' شاہد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے مولانا کے علم و فضل کی تعریفیں غائبانہ بہت سن رکھی تھیں تو دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ خواجہ حسن نظامی کے پکھوے سے لگے دیکھا، مختصر گفتگو سننے کا بھی مجھے اتفاق ہوا، مگر مجھے ان سے ڈر لگتا تھا، اس لیے میں نے ان سے قریب ہونے کی کوشش نہیں کی۔''
بیگم اختر ریاض الدین کے سفر نامے ''سات سمندر پار'' کے لیے زبیری صاحب رقم طراز ہیں۔ '' وہ لکھتی ہیں جاپان خاص الخاص مردوں کا ملک ہے۔ زندگی کے سارے عیش مرد ذات کے لیے ہیں۔ ہم نے مرد ذات کو خدائے مجازی کہہ کر چھوڑ دیا ہے۔ جاپان میں تو خدائے مجازی کی پرستش ہوتی ہے۔''
'' ٹوکیو کا مشہور بازار '' گنزا '' کہلاتا ہے۔ بے حد کشادہ سڑکیں، دو طرفہ فلک بوس عمارتیں اور دکانیں۔ اشیا کی تعداد بہت زیادہ ہے، دکانیں حسین بیچنے والیاں خندہ لب اور خوب رو۔ اس پہ طرہ یہ ہے کہ دو پیسے کی چیز کو بھی نہایت دلکش کاغذ میں ربن سے لپیٹ کر دیں گی۔ اکثر وہ کاغذ اس قدر حسین رنگ اور نمونے کا ہوتا ہے کہ جی چاہتا ہے کاغذ رکھ لے اور چیز پھینک دے۔''
'' یہاں تفریح باوا کے مول ہے، اس کے باوجود دنیا کے مرد مان عیش کوش رات دن لہو و لعب میں کھوئے رہتے ہیں، ٹوکیو میں ہزارہا ہوٹل ہیں اور ان سے زیادہ گیشا خانے اور سرائے۔ دو تین بڑے ہوٹلوں کے سوا سب اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے کاروبار کا صرف کھانے پلانے پر انحصار کریں تو ہمارا دیوالیہ نکل جائے۔ ہم تو اپنے کمروں سے دن کو بھی اور رات کو بھی فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ کمرے گھنٹوں کے حساب سے کرائے پر دیے جاتے ہیں، جن میں طوائفیں مہیا کی جاتی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹوکیو میں عیاشی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے۔''
محمد حمزہ فاروقی کی '' یادوں کے دیے'' سے اقتباس ملاحظہ ہو۔
'' مولانا غلام رسول مہر نے بتایا کہ ایک بار جب صدر ایوب برسر اقتدار تھے تو قدرت اللہ شہاب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ کے لیے تمغہ حسن کارکردگی اور دس ہزار روپے انعام کا اہتمام کیا جائے۔ میں نے جواب دیا کہ '' میں فقیر آدمی ہوں، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، میں ان باتوں سے بے نیاز ہوں۔''
پس ثابت ہوا کہ ادبی انعام ہو یا کوئی حکومتی انعام، اس کے ملنے کے لیے کسی نہ کسی '' جیک'' کا لگنا ضروری ہے۔ ایک بار احمد ندیم قاسمی اس بورڈ میں شریک تھے جو انعامات کا تعین کرتا تھا، باقی لوگوں نے احمد ندیم قاسمی کو چند منٹ کے لیے کمرے سے باہر بھیجا اور ان کے پیچھے طے کیا کہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ احمد ندیم قاسمی کو دے دیا جائے اور نہ صرف انھیں دے دیا گیا بلکہ انھوں نے وصول بھی کر لیا۔
حکومتی ایوارڈز کی کہانیاں سب کو پتا ہیں، 2024 میں مارچ میں جن اداکاراؤں کو تمغہ حسن کارکردگی ملا، ان کی '' کارکردگی'' یوٹیوب پہ سب نے دیکھی۔ 2019 میں ایک اداکارہ کو بھی کسی '' بڑے'' نے انعام دلوایا تھا، میں سو فیصد یقین سے کہتی ہوں کہ جن لوگوں کے بارے میں لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ '' انھیں ان کی قابلیت'' پر انعام ملا ہے، سب جھوٹ ہوتا ہے۔ بے شک وہ بہت قابل ہوتے ہیں لیکن ان جیسے قابل تو اور بھی بہت سے ہوتے ہیں۔ پھر انھیں انعام کیوں نہ ملا؟ اس لیے کہ ان صاحب نے انعام حاصل کرنے کے لیے ہر طرف ہاتھ پاؤں مارے اور مختلف حلقوں سے زور لگوایا تب انعام ملا۔
پاکستان میں جب تک کوئی کسی کا منظور نظر نہ ہو یا کسی کی تگڑی سفارش نہ ہو اسے انعام نہیں مل سکتا۔
سب سے پہلے روئیداد خان کی کتاب '' پاکستان انقلاب کے دہانے پر'' سے اقتباس ملاحظہ ہو۔ یہ دراصل ان چھ افراد کی کہانی ہے جو ملک کے صدرکی حیثیت سے برسر اقتدار رہے، یعنی ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیا الحق، غلام اسحاق اور سردار فاروق لغاری۔ ان سب کے ساتھ روئیداد خان کو بحیثیت سرکاری افسر کام کرنے کا موقع ملا۔
'' ایوب خان کی فراست اوسط درجے کی تھی، وہ دولت کے حریص تھے لیکن بددیانت نہیں تھے۔ وہ بنیادی طور پر خوش خلق، رحم دل اور شریف النفس تھے۔''
''یحییٰ خان اچھے انسان ضرور تھے، لیکن اچھے صدر شاید ہی ہوں۔ وہ نقاب پوش نہیں تھے، وہ جو نظر آتے تھے وہی تھے، وہ مکر و ریا سے پاک تھے۔ مالی معاملات میں یحییٰ خان نہایت محتاط اور دیانت دار تھے۔ اسی لیے اپنی وفات کے وقت تقریباً قلاش تھے۔ فرانس کے صدر لوئی شازدہم کی طرح شاید مزے لوٹنے کے لیے صدر بنے تھے، انسان نہایت عمدہ صدر شاید بدترین۔''
روئیداد خان '' پاکستان میں اقتدارکا سرچشمہ کون ہے'' کے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں '' کسی ریاست میں حقیقی اقتدار اعلیٰ اس ادارے کے پاس ہے جو ریاست کے شہریوں سے آخرکار اپنا حکم منوانے کی قوت رکھتا ہو۔ انتخاب کنندگان کے پاس اقتدار اعلیٰ ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں انتخاب کنندگان نہ اپنا حق جتا سکتے ہیں نہ اپنی مرضی منوا سکتے ہیں۔'' ''پاکستان میں آج تک کسی عدالت نے کسی عوام کے اعتماد کے امین کو نقص عہد کے جرم میں سزا نہیں دی، لہٰذا یہ سمجھنا کہ پاکستان میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہے محض خام خیالی ہے۔''
قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کے بارے میں یہ رائے دیکھیے۔
'' قاضی صاحب ایک شگفتہ طبع، بذلہ سنج اور خوش مزاج انسان تھے، دل کھول کر ہنستے تھے اور بہترین حس مزاح کا مظاہرہ کرتے تھے، بے جا ڈانٹ ڈپٹ کے وہ قائل نہ تھے، اپنی بات دوسروں پہ مسلط کرنے کے بجائے ان کا موقف پوری توجہ سے سنتے تھے۔''
'' یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو میں لکھا جانے والا پہلا سانیٹ قاضی صاحب نے لکھا تھا، قاضی صاحب ایک درد مند، رحم دل، مخلص انسان، شفیق باپ، بہترین شوہر اور ایک ہمدرد دوست تھے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی علم ایسا ہو جس پر ان کی نظر نہ ہو۔ طب میں وہ باقاعدہ طبیہ کالج دہلی کے سند یافتہ تھے، موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرچکے تھے، تحقیق کے مرد میداں تھے لیکن زاہد خشک نہ تھے۔'' یہ اقتباسات تھے '' قاضی احمد میاں جونا گڑھی، احوال و آثار'' سے۔
اور اب ذکر ہو جائے ''بزم شاہد'' کا جو شاہد احمد دہلوی کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے اسلم فرخی نے مرتب کیا ہے۔
شاہد احمد دہلوی نے مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں ''مولانا اپنی وضع قطع سے ریٹائرڈ پہلوان معلوم ہوتے تھے، مولانا کا رنگ میدہ شہابی تھا سر گھٹا ہوا اس پر چنی ہوئی روپلی، گول چہرہ کشادہ پیشانی جگر جگر کرتی آنکھیں، کتارا سی ناک، موزوں دہن پتلے ہونٹ ڈاڑھی مونچھ صاف گلے میں باریک ململ کا کرتا، آڑا پاجامہ، نیم ساق تک چوڑیاں پڑی ہوئی، پاؤں میں سلیم شاہی جوتا کندھے پہ رومال قلندرانہ وضع شاہانہ مزاج'' شاہد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے مولانا کے علم و فضل کی تعریفیں غائبانہ بہت سن رکھی تھیں تو دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ خواجہ حسن نظامی کے پکھوے سے لگے دیکھا، مختصر گفتگو سننے کا بھی مجھے اتفاق ہوا، مگر مجھے ان سے ڈر لگتا تھا، اس لیے میں نے ان سے قریب ہونے کی کوشش نہیں کی۔''
بیگم اختر ریاض الدین کے سفر نامے ''سات سمندر پار'' کے لیے زبیری صاحب رقم طراز ہیں۔ '' وہ لکھتی ہیں جاپان خاص الخاص مردوں کا ملک ہے۔ زندگی کے سارے عیش مرد ذات کے لیے ہیں۔ ہم نے مرد ذات کو خدائے مجازی کہہ کر چھوڑ دیا ہے۔ جاپان میں تو خدائے مجازی کی پرستش ہوتی ہے۔''
'' ٹوکیو کا مشہور بازار '' گنزا '' کہلاتا ہے۔ بے حد کشادہ سڑکیں، دو طرفہ فلک بوس عمارتیں اور دکانیں۔ اشیا کی تعداد بہت زیادہ ہے، دکانیں حسین بیچنے والیاں خندہ لب اور خوب رو۔ اس پہ طرہ یہ ہے کہ دو پیسے کی چیز کو بھی نہایت دلکش کاغذ میں ربن سے لپیٹ کر دیں گی۔ اکثر وہ کاغذ اس قدر حسین رنگ اور نمونے کا ہوتا ہے کہ جی چاہتا ہے کاغذ رکھ لے اور چیز پھینک دے۔''
'' یہاں تفریح باوا کے مول ہے، اس کے باوجود دنیا کے مرد مان عیش کوش رات دن لہو و لعب میں کھوئے رہتے ہیں، ٹوکیو میں ہزارہا ہوٹل ہیں اور ان سے زیادہ گیشا خانے اور سرائے۔ دو تین بڑے ہوٹلوں کے سوا سب اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے کاروبار کا صرف کھانے پلانے پر انحصار کریں تو ہمارا دیوالیہ نکل جائے۔ ہم تو اپنے کمروں سے دن کو بھی اور رات کو بھی فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ کمرے گھنٹوں کے حساب سے کرائے پر دیے جاتے ہیں، جن میں طوائفیں مہیا کی جاتی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹوکیو میں عیاشی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے۔''
محمد حمزہ فاروقی کی '' یادوں کے دیے'' سے اقتباس ملاحظہ ہو۔
'' مولانا غلام رسول مہر نے بتایا کہ ایک بار جب صدر ایوب برسر اقتدار تھے تو قدرت اللہ شہاب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ کے لیے تمغہ حسن کارکردگی اور دس ہزار روپے انعام کا اہتمام کیا جائے۔ میں نے جواب دیا کہ '' میں فقیر آدمی ہوں، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، میں ان باتوں سے بے نیاز ہوں۔''
پس ثابت ہوا کہ ادبی انعام ہو یا کوئی حکومتی انعام، اس کے ملنے کے لیے کسی نہ کسی '' جیک'' کا لگنا ضروری ہے۔ ایک بار احمد ندیم قاسمی اس بورڈ میں شریک تھے جو انعامات کا تعین کرتا تھا، باقی لوگوں نے احمد ندیم قاسمی کو چند منٹ کے لیے کمرے سے باہر بھیجا اور ان کے پیچھے طے کیا کہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ احمد ندیم قاسمی کو دے دیا جائے اور نہ صرف انھیں دے دیا گیا بلکہ انھوں نے وصول بھی کر لیا۔
حکومتی ایوارڈز کی کہانیاں سب کو پتا ہیں، 2024 میں مارچ میں جن اداکاراؤں کو تمغہ حسن کارکردگی ملا، ان کی '' کارکردگی'' یوٹیوب پہ سب نے دیکھی۔ 2019 میں ایک اداکارہ کو بھی کسی '' بڑے'' نے انعام دلوایا تھا، میں سو فیصد یقین سے کہتی ہوں کہ جن لوگوں کے بارے میں لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ '' انھیں ان کی قابلیت'' پر انعام ملا ہے، سب جھوٹ ہوتا ہے۔ بے شک وہ بہت قابل ہوتے ہیں لیکن ان جیسے قابل تو اور بھی بہت سے ہوتے ہیں۔ پھر انھیں انعام کیوں نہ ملا؟ اس لیے کہ ان صاحب نے انعام حاصل کرنے کے لیے ہر طرف ہاتھ پاؤں مارے اور مختلف حلقوں سے زور لگوایا تب انعام ملا۔
پاکستان میں جب تک کوئی کسی کا منظور نظر نہ ہو یا کسی کی تگڑی سفارش نہ ہو اسے انعام نہیں مل سکتا۔