قربانی سرکاری کمائی کا ذریعہ کیوں
جانوروں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے سے اجتماعی قربانی بھی مہنگی ہوگئی ہے۔
بھارت کی خاتون وزیر حج نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے ملک کے مسلمانوں کے لیے فریضہ حج کی ادائیگی میں اخراجات مزید کم کرنے اور سہولیات کی فراہمی مزید بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور مکہ و مدینہ میں بھارتی مسلمانوں کو مزید سہولیات دینے کی کوشش کر رہی ہے جس سے بھارتی مسلمانوں کے مالی اخراجات میں مزید کمی واقع ہوگی۔
پی ڈی ایم حکومت میں جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے درویش منش وزیر حج نے بھی حج سستا کرانے اور سہولیات کی فراہمی میں اضافے کی کوشش کی تھی اور زائرین کو واپسی پر اخراجات کی مد میں فی حاجی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے واپس بھی دلوائے تھے۔
2018 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں ملتان کے ایک عالم دین کو وزیر حج بنایا گیا تھا جن کے دور میں حج میں بھی کرپشن کے الزامات لگے تھے جس پر انھیں برطرف کرکے گرفتار بھی کیا گیا تھا جب کہ پی ٹی آئی دور کے وزیر حج بھی ایک عالم تھے جب کہ پی ڈی ایم حکومت کے وزیر حج بھی عالم دین تھے مگر ان تینوں علمائے دین میں جو وزیر حج رہے صرف پی ڈی ایم کے وزیر حج کی کارکردگی سب سے بہتر تھی جنھیں حجاج کرام اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں جو اپنی وزارتی ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔
پاکستان میں تمام وزرائے حج مسلمان تھے اور بھارت میں ہندو خاتون وزیرحج نے جو کارکردگی دکھائی وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ ان جیسی کارکردگی کی پاکستان کے وزیر حج کو تقلید کرنی چاہیے۔
نگراں وزیر حج نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی تھی جو عالم دین نہیں تھے۔ ذوالحج کا مہینہ مسلمانوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ جس میں صاحب استطاعت لوگ حج کرتے ہیں اور جو حج نہیں کر سکتے وہ اپنے علاقوں میں قربانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں جو اب اس ماہ میں حج کے بعد سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں مگر گزشتہ سالوں سے پاکستان میں حکومت اور اس کے بعض اداروں نے مشکل اور ناممکن بنا دی ہے جب کہ غریبوں کے لیے تو اب قربانی ناممکن ہو چکی ہے اور جو لوگ تنہا جانور خرید کر قربانی کیا کرتے تھے وہ اب اس مالی پوزیشن میں نہیں رہے کہ مہنگے جانور خرید کر قربانی کر سکیں اس لیے وہ بھی حصے لے کر اجتماعی قربانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق جانوروں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے سے اجتماعی قربانی بھی مہنگی ہوگئی ہے۔ عیدالاضحی پر بڑے جانوروں کی افزائش اور فروخت کے مراحل تک اخراجات اور سرکاری ٹیکسوں کی بنا پر قیمتوں میں تیس سے 50 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں میں انفرادی قربانی کی بجائے اجتماعی قربانی بڑھنے کی وجہ مہنگائی، جانوروں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہے جس کی وجہ جانور فروخت کرنے والوں کے مطابق جانوروں کی مہنگی خوراک، ٹرانسپورٹریشن اور سرکاری اداروں کے ٹیکس ہیں جس کی وجہ سے جانوروں کی قیمتیں بڑھی ہیں۔
اندرون ملک سے ملک کی سب سے بڑی کراچی کی مویشی منڈی تک کے سفر میں جانور لانے والوں کو پولیس کو بھی جگہ جگہ رشوت دینی پڑتی ہے۔ کراچی میں سرکاری طور پر پہلے سپر ہائی وے پر اور اب ناردرن بائی پاس پر ایشیا کی سب سے بڑی منڈی لگائی جاتی ہے جو ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہونے کے ناتے سب سے مہنگی منڈی سرکاری اداروں اور منافع خوروں نے خود بنا دی ہے۔
کراچی کی یہ منڈی شہر سے بہت دور ہے جب کہ سرکاری طور پر شہر میں مزید منڈیاں بھی لگائی گئی ہیں جو بڑی منڈی کی طرح سب سے مہنگی نہیں ہیں اور وہاں بڑی منڈی کے برعکس کم نرخوں پر جانور خریدے جاسکتے ہیں۔سب سے بڑی منڈی اس بار بھی سرکاری کمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
سپرہائی وے کے ذریعے کراچی منڈی لانے والوں کو پہلے نوری آباد میں فی جانور تین سو روپے ٹیکس دے کر اور بعد میں منڈی کی داخلہ فیس 4200 روپے یعنی ساڑھے چار ہزار روپے فی جانور ادا کرکے منڈی میں انٹری لینا پڑتی ہے جہاں انھیں ایک لاکھ روپے ادا کرکے 30x30 کی جگہ لینا پڑتی ہے اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے 15x30 کا ٹینٹ چودہ ہزار روپے کرائے پر ملتا ہے۔ بھالو مٹی بیس ہزار میں ملتی ہے۔
پانی کا ڈرم تین ہزار کا لینا پڑتا ہے اور انھیں باہر سے منڈی میں کوئی چیز لانے کی اجازت نہیں۔ چارپائیاں اپنی خود لاتے ہیں اور منڈی میں دوسرے خریداروں کی طرح کھانا بھی مہنگا خریدنا پڑتا ہے۔ گھاس، بھوسہ اور دیگر اشیا کئی گنا مہنگی خریدنی پڑتی ہیں اس طرح بڑے جانور پر 20 ہزار روپے کے اخراجات آ جاتے ہیں۔
منڈی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ لوگوں کو شہر میں کم نرخ پر جانور ملیں اس لیے وہ مقامی انتظامیہ کے ذریعے سختی کراتی ہے اور اسی وجہ سے کراچی شہر کی 33 غیر قانونی منڈیاں ختم اور تین افراد گرفتار کرائے گئے ہیں۔ شہر میں کم نرخوں پر جو جانور ٹیکس کے بغیر مل جاتے ہیں ان کی فروخت روکنے کے لیے کراچی کے پوش علاقے میں ایک ایسی منڈی بھی ختم کرا دی گئی ہے جو 47 لاکھ روپے کے عوض دی گئی تھی۔
مسلمان ملک پاکستان بھر میں مویشی منڈیوں کو سرکاری اداروں سمیت دیگر متعلقہ افراد نے اپنی اندھی کمائی کا ذریعہ بنا کر قربانی کرنے والوں کے لیے سنت ابراہیمی کی ادائیگی انتہائی مشکل بنا دی ہے جب کہ حج کی ادائیگی پہلے ہی بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ قربانی اور حج مذہبی فریضے ہیں انھیں بھی نہیں بخشا گیا اور سب متعلقہ اداروں اور افراد نے کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے جن کی اگر لوٹ کھسوٹ نہ ہو تو مسلمان کم رقم میں یہ مذہبی فرض ادا کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم سے بھارت ہی بہتر ہے۔