سنّت ِ ابراہیمی اور فریضۂ قربانی
سیّدنا ابراہیمؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ پوری طرح شرک و کفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔
کسی دین کو الہامی دین کے طور پر مان لینے کے دو ہی دلائل تسلیم کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اسے حسی اور عقلی پیمانے پر پرکھا جائے اور دوسرے روایات اپنے تاریخی تسلسل کے ساتھ اس کا ٹھوس ثبوت فراہم کر تی ہوں کہ یہ مذکورہ دین اﷲ تعالیٰ ہی کے احکام و فرامین اور حق و صداقت پر مبنی ہے۔ اگر یہ دونوں اہم امور انسان کی فکر و عمل سے خارج ہیں تو وہ کوئی اور مذہب تو ہو سکتا ہے، دین الٰہی نہیں کہلا سکتا۔
سیدنا ابراہیمؑ کو اﷲ عز و جل نے قلبِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ سے نوازا تھا۔ اگرچہ آپؑ کی پوری زندگی ابتلا و آزمائش سے عبارت ہے۔ آپؑ کی حیاتِ طیبہ میں آزمائشوں اور امتحانات کا سورج نصف النہار پر رہا۔ قرآن حکیم میں اﷲ نے اپنے بندے پر ڈالی ہوئی آزمائشوں کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے، مفہوم: ''اور جب ابراہیم کو اُن کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو وہ اُن پر پورے اترے۔'' (البقرہ) از روئے قرآن حکیم اس حیاتِ دنیوی کی غرض و غایت ہی امتحان ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: (اﷲ) ''وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔'' (الملک) اس امر کی اہمیت کے پیش نظر ایک اور مقام پر یوں ارشاد ہوا، مفہوم: ''ہم نے انسان کو (مرد اور عورت) کے ملے جلے نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں، پھر اُس کو سننے والا اور دیکھنے والا بنا دیا۔'' (الدھر)
اس کائنات میں تمام بنی نوعِ آدم کی فوز و فلاح اور نجاتِ اخروی رب ذوالجلال کی حقیقی معرفت اور اس کی رضا و خوش نُودی میں مضمر ہے۔ چناں چہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو سماعت و بصارت ، عقل و فہم اور فراست و دانش مندی کی استعداد اور صلاحیتوں سے بہرہ ور فرما کر ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں جھونک دیا ہے، تاکہ کھرا اور کھوٹا سامنے آجائے۔ ایک طرف معبودِ حقیقی اور انسان کے پالن ہار کی محبت و پرستش، اطاعت و فرماں برداری کے پُرزور تقاضے ہیں تو دوسری جانب اس دنیا کی زیب و زینت، مرغوباتِ نفس، عیش و عشرت کے دلآویز لمحات اور طاؤس و رباب کی سحر انگیزیاں ہیں، اب اس رسہ کشی کا زور کس طرف زیادہ ہوتا ہے، بس یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔
انسان کی تخلیقی کیفیت کے بارے میں تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم:
''ہر بچہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے والدین اُس کو یہودی، مجوسی اور نصرانی بنا دیتے ہیں۔'' (بخاری، ابوداؤد)
سیّدنا ابراہیمؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ پوری طرح شرک و کفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ بت پرستی، ستارہ اور مظاہر پرستی کا ایک ایسا فسوں طاری تھا کہ جس کے زیر اثر ان کی قوم حق و باطل کی تمیز ہی کھو بیٹھی تھی۔ ملک میں مطلق العنان اور مشرک بادشاہ کا تسلط تھا جو خدائی دعوے دار تھا۔ گویا عقائد کا شرک اور اس کا عملی ظہور دونوں عروج پر تھے۔ فسق و فجور کی ا س گھٹا ٹوپ تاریکی میں نورِِ توحید کا کوئی ٹمٹماتا ہُوا دیا بھی تا حد نگاہ نظر نہ آتا تھا۔ کفر و الحاد اور تقلید آبا و اجداد کے اس ماحول میں سیّدنا ابراہیمؑ نے اﷲ کی طرف سے ودیعت کی ہوئی حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ایک نعرۂ حق بلند کیا، مفہوم : ''بلا شبہ! میں نے اپنا چہرہ اسی کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں نہیں ہوں۔'' (الانعام)
اس نعرے کی گونج اس معبود باطل کے ایوانوں سے ٹکرائی تو ایک ہلچل مچ گئی، کفر و الحاد کے اس بحرِ مردار میں جوار بھاٹا آگیا۔ جب کہ دوسری طرف اﷲ نے اس جرأت اظہار پر اپنے بندے کی یوں پذیرائی فرمائی، مفہوم: ''جب آئے وہ (ابراہیمؑ) اپنے رب کے پاس ایک قلبِ سلیم کے ساتھ۔'' ( الصافات)
گویا فراست و دانش مندی کے اس امتحان میں سرخ روئی حاصل ہوگئی۔ لیکن ابھی صبر کے امتحان اور بھی ہیں کہ سیّدنا ابراہیمؑ کے لیے صبر و ثبات، استقامت و عزیمت، صعوبتیں، کٹھنائیاں اور غیر متزلزل ایمان و یقین کا کڑا امتحان سامنے تھا۔ معاشرے کی مجلسِ شوریٰ نے ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' کے مصداق اﷲ کے خلیل ابراہیمؑ کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں پھینک کر اور انہیں جلا کر بھسم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ زندگی سے محروم کر دینے والی اس لرزہ خیز خبر سے بھی اس بطلِ جلیل کے پائے استقامت میں کوئی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔ محبتِ الٰہی کی اس بلند پروازی اور جذب کی اس کیفیت پر عقل حیران و ششدر رہ گئی۔
بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
آگ کے اس دہکتے ہوئے الاؤ میں ابراہیمؑ محبت اور عرفانِ الہٰی کی انوار و برکات کی بارش نے آگ کے دہکتے الاؤ کو ٹھنڈک اور سلامتی والا سبزہ زار بنا دیا۔ بدن کو راحت و انبساط کی نرمی نے حیاتِ نو عطا کی تو ابراہیمؑ نے اپنے منعمِ حقیقی سے اپنے اگلی منزل کی طرف بڑھنے کا اظہار کیا، مفہوم: ''میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں، یقیناً وہ میری راہ نمائی کرے گا۔'' (الصافات)
اور اس طرح سیدنا ابراہیمؑ نے گھر، خاندان، دوست اور اپنے آبا و اجداد کی سرزمین کو خیرباد کہا اور مادرِ وطن کو اشک بار آنکھوں سے دیکھتے اور شیشہ دل کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے ایک ان دیکھی منزل اور انجانی راہوں پر چل پڑے۔ اس راہِ بے نشاں میں اگر کوئی سہارا تھا تو وہ اسی منعم حقیقی، معبود بر حق اور خالق ارض و سماء کا تھا جس کے لیے ساری دنیا سے منہ موڑ لیا تھا:
''حکم راں ہے ایک وہی، باقی بتانِ آزری''
اس راہ میں صحرا بہ صحرا خاک چھانتے چھانتے یہ بھی احساس نہ ہُوا کہ پیرانہ سالی آکاس بیل کی طرح اُن کے وجود پر ظاہر ہونے لگی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ہُوا تو صرف ایک ہی فکر نے ذہن میں انگڑائی لی کہ میری زندگی کا سورج غروب ہونے کے بعد اس مشن توحید عملی اور فکری کو کون آگے بڑھائے گا۔ کیوں کہ نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے۔ چناں چہ اپنی زندگی کی محدودیت اور اپنے مشن کی وسعت کا شعوری احساس ذہن کے افق پر مزید گہرا ہُوا تو بے اختیار یہ دعا نوکِ زباں پر آگئی، مفہوم: ''اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔'' (الصافات)
شاید وہ ساعت شرفِ قبولیت کی تھی، ستاسی برس کی عمر میں اﷲ نے ایک نیک اور صالح بیٹا عطا کیا۔ لیکن جن کے رتبے ہوں بلند اُن پر آمائشیں بھی بہت بھاری ڈالی جاتی ہیں۔ بیٹا بچپن گزار کر نوجوانی کی حد میں داخل ہُوا اور اس قابل ہوا کہ باپ کے مشن میں اُن کا دست و بازو بن سکے کہ ایک اور قولِ ثقیل نازل ہُوا کہ اپنے لختِ جگر کو اﷲ کی راہ میں قربان کردو۔ سعادت مند اور اطاعت شعار بیٹے نے حکِم الہٰی سن کر باپ سے کہا: ''ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے وہ کر گزریے، ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ اور پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ بوڑھے باپ نے اپنے جواں سال چہیتے بیٹے کو زمین پر لٹایا اور گلے پر چھری پھیرنے کا ارادہ کیا کہ اﷲ کی رحمت جوش میں آئی اور رحمتِ خداوندی سے بیٹے کی جگہ مینڈھا ذبح ہوگیا۔
اﷲ کی منشاء بیٹے کی جان لینا نہیں بل کہ بوڑھے باپ کا امتحان لینا مقصود تھا، اور یہ کیسا انوکھا امتحان تھا۔ جس میں بیٹے کی جگہ مینڈھے کی قربانی بہ طورِ فدیہ قبول ہوئی اور اس کی یادگار کے طور پر وقوع قیامت تک جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ دراز کر دیا گیا۔ یہ ہے حبّ الہٰی اور اطاعت و فرماں برداری کی ایک چشم کشا تصویر اور ایمان و یقین کی گہرائی کے ساتھ تصدیق بالقلب کی صحیح تعبیر۔
سورہ الحج میں دو بنیادی ارکان کا ذکر ہے۔ ایک اﷲ کے نام پر جانوروں کی قربانی کرنا اور دوسرے بیت اﷲ کا طواف جب کہ ان دو ارکان میں بھی زیادہ زور قربانی پر ہے۔
رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا گیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ گویا جانوروں کی یہ قربانیاں اصلاً علامت ہیں امت مسلمہ کی اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں اس کی اصل غایت یہ بیان کی گئی ہے، مفہوم: ''اﷲ کو تمہاری قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بل کہ اُسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔'' (الحج)
سنت ابراہیمی کی پیروی میں حصول تقویٰ کے لیے قربانی جیسا اہم فریضہ بھی شامل ہے، جسے لاکھوں مسلمان ہر سال ماہِ ذوالحجہ میں مناتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں مَرد و خواتین حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور کروڑوں جانور سنت ابرہیمی کو زندہ کرنے کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں۔ جس سے ابراہیمؑ کے سعادت مند اور مطیع و فرماں بردار بیٹے اسمٰعیلؑ کی قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ شعارِ اسلام پر عمل کروانے سے مقصود امت کے فکر و عمل میں وہ جذبہ بیدار کرنا ہوتا ہے جس سے ان کے اندر اﷲ کی بے ریا اطاعت، پُرخلوص عبادت اور اﷲ کے احکام و فرامین کے بے چوں چرا بجا لانے کی تحریک پیدا ہو۔