لاپتہ افراد ’’لاپتہ‘‘ سوال
مشرف کے دور میں قبر کی خاموشی میں لیٹی انسانی حقوق کی لاشیں اب انسانی حقوق کی متحرک انجمنیں بن چکی ہیں
لا پتہ افراد کا معاملہ ابھی تک سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، اقوام متحدہ کے وفد کو کس نے اور کس مقصد کیلیے بلایا؟
اس وفد کو بلا کر عدالتی کام میں مداخلت کی گئی، یہ سوالیہ ریمارکس سپریم کورٹ نے لا پتہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران دیے، عدالت عظمیٰ نے گذشتہ روز یہ سوال حکومت سے کیا۔
لیکن چاہیے تو یہ تھا کہ یہ سوال قوم خود اپنے آپ سے کرے، پاکستان میں حکومت ہے، انتظامیہ ہے، ادارے ہیں، جن میں عدلیہ سب سے نمایاں ہے، قانون نافذ کرنے والی فورسز بھی اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں، پارلیمنٹ ہے، سیاسی جماعتیں ہیں، آزاد میڈیا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ہیں، ایک آزاد ملک میں یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اقوام متحدہ نے تفتیش کرنے کیلیے وفد کیسے بھجوا دیا؟ کسی نے بلایا یا خود ہی اس نے وفد بھیج دیا؟
کیوں اور کس اختیار کے تحت؟ ایشو یہ ہے کہ جب یہ سارے ادارے موجود ہیں تو وفد کیا کرنے کیلیے آیا ہے؟ اقوام متحدہ کا وفد یا کمیشن وہاں جاتا ہے جہاں ریاست ٹوٹ رہی ہو، ملک خانہ جنگی کا شکار ہو، ادارے تباہ ہو چکے ہوں، جیسا کہ بو سنیا میں ہوا، عراق یا صومالیہ میں ہوا اور اب شام میں ہو رہا ہے ۔
کیا پاکستان میں خانہ جنگی ہے ؟ ادارے تباہ ہو چکے ہیںیا ملک کی یکجہتی ختم ہو چکی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کا ثبوت بھی پیش کرنا ضروری ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس سوال کا جواب چاہیے جو سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے، بہتر ہوتا کہ حکومت صورت حال واضح کردیتی اور عدالت کو سوال نہ اٹھانا پڑتا، ہم محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل پر اقوام متحدہ سے تفتیش کروا کے اپنی جگ ہنسائی کروا چکے ہیں۔
وہ بھی دو حصوں میں، پہلا حصہ یہ تھا کہ اٹھارہ کروڑ آبادی والا ایٹمی ملک اس قابل بھی نہیں رہا کہ دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی شخصیت کے قتل کی خود تفتیش کر سکے اور دوسرا حصہ یہ کہ اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم ہمارے کروڑوں روپے خرچ کروانے کے بعد چند سطری تحقیقاتی خلاصہ ہمارے ہاتھ میں دے کر چلی گئی جس کا لب لباب یہ تھا کہ پتہ نہیں چلا کہ یہ قتل کس نے کروایا ہے۔
لا پتہ افراد کا معاملہ ریاست کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے، آج سے نہیں برسوں سے، موجودہ حکومت سے پہلے پاکستانی شہریوں کو لا پتہ کرنے کا سلسلہ جنرل(ر) پرویز مشرف نے شروع کیا جو اپنی ذات میں حکومت بھی تھے اور ریاست بھی، لیکن اس زمانے میں یہ معاملہ اس لیے کوئی ایشو نہیں بنا کہ مشرف خود ہی پارلیمنٹ اور خود ہی قوم تھا، عدالت ''فرینڈلی'' تھی، اس لیے کسی سائل نے یہ کیس نہیں اٹھایا، لیکن اب ہر ادارے کا اپنا وجود ہے۔
حکومت اپنی جگہ ہے، پارلیمنٹ اپنی جگہ، فرینڈلی کی جگہ آزاد عدلیہ نے لے لی ہے اورآئین بھی بحال ہو چکا ہے، اس صورت حال میں آزاد عدلیہ کیلیے ممکن نہیں کہ وہ لا پتہ افراد کے معاملے پر خاموش رہے، میڈیا بھی چپ نہیں رہ سکتا، مشرف کے دور میں قبر کی خاموشی میں لیٹی انسانی حقوق کی لاشیں اب انسانی حقوق کی متحرک انجمنیں بن چکی ہیں اور لا پتہ افراد کی بلا حکومت کے گلے پڑ گئی ہے ۔
حکومت کے لیے خفت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف افراد کو لا پتہ کرنے میں اس کا کوئی دخل نہیں دوسری طرف افراد کو لاپتہ ہونے سے روکنے کے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتی، اس کی حالت تو اتنی درد ناک ہے کہ لاپتہ کرنے والے عناصر کو جانتی ہے مگر ایک لفظ بولنے کی ہمت نہیں رکھتی، کیونکہ اقتدار کے معاہدہ عمرانی میں لاپتہ افراد اور اس قسم کے دوسرے معاملے جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہے ۔
اس کی قلمرو سے باہر ہیں، وہ دخل اندازی کی حماقت کرے گی تو خود بھی لاپتہ ہو جائے گی، لاپتہ کرنے والوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی پریس کانفرنس یا پریس ریلیز کے ذریعے قوم کو وہ راز بھی نہیں بتا سکتے کہ آخر لوگوں کو کیوں لاپتہ کیا گیا ہے، وہ دائیں بائیں موجود ذرائع سے یہ اطلاعات ضرور چھوڑتے رہتے ہیں کہ لاپتہ ہونے والے افراد سے ملکی سلامتی کو خطرہ تھا ۔
ناکافی شواہد کی وجہ سے عدالتیں ایسے لوگوں کو آزاد کر دیتی ہیں، اس لیے انھیں لاپتہ کرنا ضروری ہے، عوام یہ منطق نہیں مانتے اور اس رائے کو زیادہ وزن دیتے ہیں کہ جو کوئی امریکا کی مخالفت کرتا ہے یا کسی اور وجہ سے لاپتہ کرنے والوں کی نظر میں معتوب ٹھہرتا ہے، اسے اٹھا لیا جاتا ہے، پھر یا تو اسے فوراً ہی مار دیا جاتا ہے یا کئی برس کیلیے عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ہماری ایٹمی ریاست کا المیہ بھی ملاحظہ ہو کہ پندرہ سولہ سال کی عمر کے لڑکوں سے بھی اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور ریاست کے پاس انھیں لاپتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ کیسی جمہوری ریاست ہے کہ یہاں ریاست کوئی اور ہے اور حکومت کا محدود ٹھیکہ کسی اور کے پاس ہے۔
آئین اور قانون کی یہ کیسی حاکمیت ہے کہ عدلیہ کئی برسوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے چیخ رہی ہے لیکن کوئی ادارہ اسے خاطر میں نہیں لاتا، اتنے لاپتہ بازیاب نہیں ہوتے جتنے مزید غائب ہو جاتے ہیں، کئی برسوں سے پارلیمنٹ کے باہر لاپتہ افراد کے بد قسمت لواحقین کیمپ لگائے ہوئے ہیں اور پارلیمنٹ پتھر بنی انھیں دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی، لاپتہ کرنے والے یہ منظر دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں ۔
پارلیمنٹ اور کیمپ دونوں کی حالت پر ہنستے ہیں، اقوام متحدہ کا وفد اگر خود آیا ہے تو یہ ہماری عالمی رسوائی ہے اور اگر کسی نے بلایا ہے تو حماقت کی ہے، وفد اقوام متحدہ کا ہو یا اسلامی کانفرنس کا، پاکستان میں کسی اندھی واردات کی تفتیش ممکن نہیں، یہاں چار سربراہان مملکت و حکومت قتل ہو گئے، بہت سے سیاست دان مار دیے گئے۔
آج تک کسی ماجرے کی گتھی نہیں سلجھ سکی، دنیا ہماری کسی اور صلاحیت کو مانے یانہ مانے لیکن اتنا تو ماننا ہی پڑے گا کہ ہم وہ کاری گر مجرم ہیں جنہوں نے یہ عالمی اصول غلط ثابت کر دکھایا ہے کہ ہر مجرم کوئی نشانی چھوڑ جاتا ہے، ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم کسی واردات کا سراغ نہیں چھوڑتے۔