بات کچھ اِدھر اُدھر کی تم نے مرنا ہی تھا

وہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے؟ ایک عورت ذات؟ کم عقل اور نا سمجھ۔ یہ اپنے فیصلے خود کیسے کر سکتی ہے؟


شاہد محمود June 24, 2014
وہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے؟ ایک عورت ذات؟ کم عقل اور نا سمجھ۔ یہ اپنے فیصلے خود کیسے کر سکتی ہے؟۔ فوٹو فائل

مجھے جینے کا حق چاہیے۔ میں اپنا فیصلہ خود کرنے کی مجاز ہوں۔ یہ تھے اس کے الفاظ جو گھر والوں کے کانوں پر بجلی بن کے گرے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے؟ ایک عورت ذات؟ کم عقل اور نا سمجھ۔ یہ اپنے فیصلے خود کیسے کر سکتی ہے؟ اور پھر اس کی ایسی جرات کہ یہ اس طرح گھر کے مردوں سے بات کرے؟ کیا ہوا کہ وہ چوبیس سال کی ہو گئی ہے، ہے تو ایک عورت- وہ کیسے اپنے سارے فیصلے کر سکتی ہے؟ ہاں سلیم ابھی پندرہ سال کا ہے اور ضد کر کے اس نے موٹر سائیکل لے لی ہے ۔ لیکن وہ تو لڑکا ہے ۔ لڑکے تو اپنی من مانی کرتے ہی رہتے ہیں۔

پر لڑکیوں کو چھوٹ نہیں دینی چاہیے ۔ کل کلاں کو اپنے سسرال جائے گی تو اسی طرح الٹی سیدھی ضد کر ے گی اور اپنا گھر بر باد کرے گی۔ لڑکیوں کو شروع سے ہی قابو میں رکھنا چاہیے- پھر یہاں تو بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی۔ یعنی کہ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔وہ لڑکا خود ڈھونڈ کے لا ئے گی- گھر والوں کو تو بس خالی خولی بتانا ہے ۔ ہاں سب کو پتا ہے اور وہ سب کے منہ پہ کہہ بھی چکی ہے کہ تین برس پہلے انور بھائی نے بھی تو اپنی پسند کی شادی کی تھی اور اب ہنسی خوشی اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ اب کوئی اس کو سمجھائے کہ تم کیوں نہیں سمجھتیں کہ وہ انور ہے اور تم سلمی۔ انور لڑکا ہے، اس کو سمجھ ہے، اس نے کچھ سوجھ سمجھ کر ہی لڑکی ڈھونڈی ہو گی۔

پھر تم نے کون سی دنیا دیکھی ہے؟ تم نے ہزار کیڑے نکالے ہیں اپنے ماموں زاد میں، تم اس سے اس لئے شادی نہیں کر نا چاہتیں کہ وہ صرف پانچ جماعت تک پڑھا ہے اور تمہاری تعلیم ایم اے ہے۔ یہ کیا وجہ ہوئی شادی سے انکار کی؟ اس کا اچھا خاصا اپنا بزنس ہے، دکانداری ہے، مہینے کے ہزاروں کماتا ہے اگر تم دادی جان کی بات دھیان سے سنتیں تو تمھیں پتا چلتا کہ دنیا کے سب مرد، چاہے پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان میں انیس بیس کا فرق بھی نہیں ہوتا۔ وہ سب عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ یہ سب دکھاوا ہے ۔ پڑھے لکھے مرد کہنے کو تو بڑے روشن خیال ہوتے ہیں مگر حقیقت میں وہ بھی باقی مردوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کے سب مرد صرف اسی بیوی کو پسند کرتے ہیں جس کی اپنی پسند مر چکی ہو اور شوہر کی پسند ہی اس کی پسند ہو۔

کیا کہا تم نے کہ خاندان میں لڑکی کی رضامندی نہیں پوچھی جاتی؟ اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ اسے کوئی اعتراض تو نہیں اس شادی پر، تم نے اپنی ہاجرہ آپا کی مثال د ی کہ ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ اپنے سے پندرہ برس بڑے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہیں کہ نہیں ؟ اگر تمھیں ٹھیک سے یاد ہو تو نکاح والے دن گھر کے مردوں نے مولوی صاحب کی موجودگی میں ہاجرہ آپا سے ان کی رضامندی پوچھی تھی ۔مولوی صاحب نے کتنی شفقت سے پوچھا تھا کہ اسے یعنی ہاجرہ کو علیم خان ولد نعیم خان سے نکاح قبول ہے؟ ہاجرہ کی آنکھوں سے آنسو کی جھڑی لگ گئی تھی ، سب نے اس کے آنسوؤں کو اس کی طرف سے اقرار ہی سمجھا۔ تم چاہے کچھ بھی کہتی رہو مگر گھر والوں کو یقین ہے کہ وہ ہاجرہ کے خوشی کے آنسو تھے۔

پھر تم نے حد کر دی۔ ٹھیک نکاح والے دن گھر سے غائب ہو گئیں۔تمہارے ماموں زاد نے اور اس کے گھر والوں نے کتنی بے عزتی کی تمھارے والدین کی، خاندان والوں نے کیسے کیسے طعنے دئیے، تمہارے گھر والے مارے شرم کے زمین میں گڑے جا رہے تھے، تم نے ان کے سر ہمیشہ کیلئے جھکا دیے تھے۔

گھر والوں نے کتنی مشکل سے ڈھونڈا تمھیں، تم نے شادی سے بچنے کیلئے ایک سہیلی کے گھر پناہ لے لی تھی۔ مگر جب لڑکی گھر سے ایک دفہ بھاگ جائے تو پھر اس کو کوئی قبول نہیں کرتا۔ نہ گھر والے، نہ خاندان کے دوسرے لوگ اور نہ معاشرہ۔ اس لئے تو سارے خاندان والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب تمھیں جینے کا کوئی حق نہیں۔ خاندان کی عزت بچانے کیلیے ضروری ہو گیا تھا کہ تم سے جینے کا حق چھین لیا جائے۔ پھر وہی ہوا، تمھیں خاندان کی عزت کے بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ تمھیں ایک شام قتل کرکے کے چپکے سے دفنا دیا گیا۔ نہ کوئی رویا اور نہ کسی نے آنسوں بہائے۔ نہ تعزیت اور نہ افسوس، بس خاندان کے ایک بزرگ نے اتنا کہا کہ جو کچھ اس لڑکی نے کیا اس کے بعد تو اس کو مر نا ہی تھا۔

شاید یہ سب کچھ ہونے کے بعد تمھیں مرنا ہی تھا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں