بات کچھ اِدھر اُدھر کی بچوں کے جنسی مسائل سے آنکھیں نہ چُرائیں
بچوں کو شیشے کی گڑیا یا گڈا بنانے سے بہتر ہے کہ انہیں اپنا دفاع اور ہر طرح کے مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کی تربیت دیں۔
کھانے پینے سے تعلیم تک ہم اپنے بچوں کی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے سماج کی یہ کتنی خوف ناک حقیقت ہے کہ ہم اپنے بچوں اس بھیانک خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہیں سوچتے جو ہر وقت ان نازک پھولوں کے گرد منڈلا رہا ہے۔ یہ ہے جنسی زیادتی کا خطرہ، جس پر ہم بات کرنا بھی نہیں چاہتے۔
پاکستان کی تقریباً چالیس فی صد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ آبادی کا یہ حصہ ہمارا مستقبل اور ہماری چاہتوں کا مرکز ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اِن بچوں کو جہاں دیگر سیکڑوں مسائل اور خطرات کا سامنا ہے، وہیں ایک گمبھیر مسئلہ بچوں کا جنسی استحصال کا بھی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کرنے میں والدین، اساتذہ، حکومت سب کے سب مجرمانہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یوں اس مسئلے کے حل کا بھاری بوجھ اس کا شکار ہونے والے بچوں ہی پر ڈال دیا جاتا ہے، جو زندگی کے ابتدائی مرحلے میں سادہ تر مسائل حل کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔
یہ مسئلہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ شہری حقوق کے کارکنوں، ماہرین ِ نفسیات اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے مرتب کردہ جائزے کے مطابق پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہر چار میں سے ایک بچی جب کہ ہر چھ میں سے ایک بچہ اَٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اِس کا نشانہ بن رہا ہے۔ لیکن ماہرین نے ساتھ ساتھ متنبہ کیا ہے کہ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے صرف اندراج شدہ واقعات پر مبنی ہیں، جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے اس امر پر افسوس کیا ہے کہ جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی درست تعداد سرے سے دستیاب ہی نہیں، کیوں کہ سماجی شرم و حیا کی وجہ سے اکثر واقعات سامنے نہیں لائے جاتے۔چنانچہ اس جرم کے مرتکب درندے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی بچوں کے ذہنوں پر ایسے نفسیاتی زخم چھوڑتی ہے، جن سے اِن کی شخصیت نہ صرف جارحانہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوکر منشیات اور بعض اوقات خودکشی کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
تاہم لڑکیوں کے جنسی استحصال کا زیادہ خطرہ (72 فی صد واقعات) افرادِ خانہ رشتے دار اور قریبی جاننے والے، جیسے ہم سائے وغیرہ سے ہوتا ہے۔ جب کہ لڑکوں کے لیے زیادہ خطرناک (45 فی صد واقعات) ان کے اساتذہ اور اجنبی افراد ثابت ہوتے ہیں۔ معاشرے کے دیگر افراد جن سے بچوں کا تعلق رہتا ہے، جیسے دکان دار وغیرہ لڑکے لڑکیوں دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرے کا باعث ہیں۔
ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے موقعے پر جہاں کہیں بچوں نے مزاحمت کی یا شور مچایا تو مجرم وہاں سے کھسک لیے اور یوں معاملہ چھیڑ چھاڑ سے آگے نہیں بڑھا۔ گویا اگر بچے یہ جانتے ہوں کہ ایسے موقعے پر انہیں کیا کرنا ہے تو زیادتی کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بیان کیے گئے تمام تر تلخ اور بھیانک حقائق جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ اپنے بچے کو کیسے جنسی استحصال سے محفوظ رکھیں؟۔ لہذا اِس سلسلے میں والدین اور بچے کا باہمی رابطہ سب سے موثر اور اہم قدم ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے بچے سے جنسی زیادتی کے بارے میں گفتگو کریں، جیسے آپ اِسے آگ سے دور رہنے یا سڑک پار کرنے کی ہدایت دیتے رہتے ہیں۔
تمام موضوعات ایک ہی نشست میں نمٹانے کی کوشش نہ کیجیے، بچے سے جنسی زیادتی اور ذاتی حفاظت کے موضوع پر ہونے والی گفتگو ایک مستقل جاری و ساری سلسلہ ہونا چاہیے۔ اِس گفتگو کو خواہ مخواہ اہمیت دینے کی کوشش نہ کیجیے۔ سرسری اور بے تکلفانہ انداز میں کسی ایسے وقت بات کیجیے جب بچہ خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کر رہا ہو۔ بچے سے گفتگو کسی بھی وقت کی جائے مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گفتگو میں کیا کہا جائے۔ وہ خیالات جو بچے تک پہنچانا ضروری ہیں ، وہ یہ ہیں:
٭ تم نہایت خاص اور اہم ہو۔
٭ تمہارا بدن تمھاری ملکیت ہے۔ بدن کے بعض حصے تمھارے ذاتی ہیں۔ اگر کوئی انھیں چھونے کی کوشش کرے تو تمھیں 'انکار' کا پورا حق ہے۔ خواہ تمھیں چھونے والا کوئی بھی آدمی ہو، خواہ تم اُسے جانتے ہو۔
٭ اگر کوئی تمھیں پریشان کرے تو مجھے ضرور بتائو۔ میں وعدہ کرتا /کرتی ہوں کہ میں تمھاری بات پر اعتبار کروں گی/کروں گا۔ میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں گا/گی۔
اس مشکل کام کو انجام دینے سے آپ کا بچہ زیادہ محفوظ اور زیادہ بہتر شخصیت کا مالک ہو گا۔ اپنے بچے سے اس طرح کا تعلق رکھیں کہ وہ اپنی بات، اپنے روزانہ کے معاملات اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آپ سے گفتگو کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہ کرے۔ وہ اس اعتماد کے ساتھ آپ سے بات کرے کہ آپ اس کی بات سنیں گے۔
اپنے بچے کو چوبیس گھنٹے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے کا خیال دل میں نہ لائیں۔ بچے کو بے انتہا احتیاط سے رکھنے اور اسے معاشرے سے کاٹ کر رکھ دینے سے یہ تو ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو درندگی کا شکار ہونے سے بچالیں (اگرچہ اعداد و شمار کے مطابق گھر اس حوالے سے انتہائی غیر محفوظ جگہ ہے) لیکن یہی بچہ بڑا ہو کر تمام زندگی معاشرے سے اپنا تعلق قائم کرنے میں مشکلات کا شکار رہے گا۔ جس کا مطلب ہے زندگی کے ہر موڑ پر ناکامی! لہذا بچوں کو شیشے کی گڑیا یا گڈا بنانے سے بہتر ہے کہ انہیں اپنا دفاع اور ہر طرح کے مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کی تربیت دیں۔
یوں وہ نہ صرف ایسے حادثات سے بڑی حد تک محفوظ رہے گا۔ بلکہ ایسے کسی حادثے کی صورت میں اس کی شخصیت کو کم سے کم نقصان پہنچے گا۔ اور اس فطری طریقہ تربیت سے بچہ بڑے ہو کر بھی ہر مشکل کے وقت اپنے مددگاروں کو ڈھونڈنے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہو گا۔ یعنی ایک پر اعتماد شخصیت اور کامیاب انسان بنے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان کی تقریباً چالیس فی صد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ آبادی کا یہ حصہ ہمارا مستقبل اور ہماری چاہتوں کا مرکز ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اِن بچوں کو جہاں دیگر سیکڑوں مسائل اور خطرات کا سامنا ہے، وہیں ایک گمبھیر مسئلہ بچوں کا جنسی استحصال کا بھی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کرنے میں والدین، اساتذہ، حکومت سب کے سب مجرمانہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یوں اس مسئلے کے حل کا بھاری بوجھ اس کا شکار ہونے والے بچوں ہی پر ڈال دیا جاتا ہے، جو زندگی کے ابتدائی مرحلے میں سادہ تر مسائل حل کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔
یہ مسئلہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ شہری حقوق کے کارکنوں، ماہرین ِ نفسیات اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے مرتب کردہ جائزے کے مطابق پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہر چار میں سے ایک بچی جب کہ ہر چھ میں سے ایک بچہ اَٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اِس کا نشانہ بن رہا ہے۔ لیکن ماہرین نے ساتھ ساتھ متنبہ کیا ہے کہ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے صرف اندراج شدہ واقعات پر مبنی ہیں، جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے اس امر پر افسوس کیا ہے کہ جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی درست تعداد سرے سے دستیاب ہی نہیں، کیوں کہ سماجی شرم و حیا کی وجہ سے اکثر واقعات سامنے نہیں لائے جاتے۔چنانچہ اس جرم کے مرتکب درندے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی بچوں کے ذہنوں پر ایسے نفسیاتی زخم چھوڑتی ہے، جن سے اِن کی شخصیت نہ صرف جارحانہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوکر منشیات اور بعض اوقات خودکشی کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
تاہم لڑکیوں کے جنسی استحصال کا زیادہ خطرہ (72 فی صد واقعات) افرادِ خانہ رشتے دار اور قریبی جاننے والے، جیسے ہم سائے وغیرہ سے ہوتا ہے۔ جب کہ لڑکوں کے لیے زیادہ خطرناک (45 فی صد واقعات) ان کے اساتذہ اور اجنبی افراد ثابت ہوتے ہیں۔ معاشرے کے دیگر افراد جن سے بچوں کا تعلق رہتا ہے، جیسے دکان دار وغیرہ لڑکے لڑکیوں دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرے کا باعث ہیں۔
ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے موقعے پر جہاں کہیں بچوں نے مزاحمت کی یا شور مچایا تو مجرم وہاں سے کھسک لیے اور یوں معاملہ چھیڑ چھاڑ سے آگے نہیں بڑھا۔ گویا اگر بچے یہ جانتے ہوں کہ ایسے موقعے پر انہیں کیا کرنا ہے تو زیادتی کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بیان کیے گئے تمام تر تلخ اور بھیانک حقائق جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ اپنے بچے کو کیسے جنسی استحصال سے محفوظ رکھیں؟۔ لہذا اِس سلسلے میں والدین اور بچے کا باہمی رابطہ سب سے موثر اور اہم قدم ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے بچے سے جنسی زیادتی کے بارے میں گفتگو کریں، جیسے آپ اِسے آگ سے دور رہنے یا سڑک پار کرنے کی ہدایت دیتے رہتے ہیں۔
تمام موضوعات ایک ہی نشست میں نمٹانے کی کوشش نہ کیجیے، بچے سے جنسی زیادتی اور ذاتی حفاظت کے موضوع پر ہونے والی گفتگو ایک مستقل جاری و ساری سلسلہ ہونا چاہیے۔ اِس گفتگو کو خواہ مخواہ اہمیت دینے کی کوشش نہ کیجیے۔ سرسری اور بے تکلفانہ انداز میں کسی ایسے وقت بات کیجیے جب بچہ خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کر رہا ہو۔ بچے سے گفتگو کسی بھی وقت کی جائے مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گفتگو میں کیا کہا جائے۔ وہ خیالات جو بچے تک پہنچانا ضروری ہیں ، وہ یہ ہیں:
٭ تم نہایت خاص اور اہم ہو۔
٭ تمہارا بدن تمھاری ملکیت ہے۔ بدن کے بعض حصے تمھارے ذاتی ہیں۔ اگر کوئی انھیں چھونے کی کوشش کرے تو تمھیں 'انکار' کا پورا حق ہے۔ خواہ تمھیں چھونے والا کوئی بھی آدمی ہو، خواہ تم اُسے جانتے ہو۔
٭ اگر کوئی تمھیں پریشان کرے تو مجھے ضرور بتائو۔ میں وعدہ کرتا /کرتی ہوں کہ میں تمھاری بات پر اعتبار کروں گی/کروں گا۔ میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں گا/گی۔
اس مشکل کام کو انجام دینے سے آپ کا بچہ زیادہ محفوظ اور زیادہ بہتر شخصیت کا مالک ہو گا۔ اپنے بچے سے اس طرح کا تعلق رکھیں کہ وہ اپنی بات، اپنے روزانہ کے معاملات اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آپ سے گفتگو کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہ کرے۔ وہ اس اعتماد کے ساتھ آپ سے بات کرے کہ آپ اس کی بات سنیں گے۔
اپنے بچے کو چوبیس گھنٹے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے کا خیال دل میں نہ لائیں۔ بچے کو بے انتہا احتیاط سے رکھنے اور اسے معاشرے سے کاٹ کر رکھ دینے سے یہ تو ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو درندگی کا شکار ہونے سے بچالیں (اگرچہ اعداد و شمار کے مطابق گھر اس حوالے سے انتہائی غیر محفوظ جگہ ہے) لیکن یہی بچہ بڑا ہو کر تمام زندگی معاشرے سے اپنا تعلق قائم کرنے میں مشکلات کا شکار رہے گا۔ جس کا مطلب ہے زندگی کے ہر موڑ پر ناکامی! لہذا بچوں کو شیشے کی گڑیا یا گڈا بنانے سے بہتر ہے کہ انہیں اپنا دفاع اور ہر طرح کے مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کی تربیت دیں۔
یوں وہ نہ صرف ایسے حادثات سے بڑی حد تک محفوظ رہے گا۔ بلکہ ایسے کسی حادثے کی صورت میں اس کی شخصیت کو کم سے کم نقصان پہنچے گا۔ اور اس فطری طریقہ تربیت سے بچہ بڑے ہو کر بھی ہر مشکل کے وقت اپنے مددگاروں کو ڈھونڈنے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہو گا۔ یعنی ایک پر اعتماد شخصیت اور کامیاب انسان بنے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔