پنجاب کا بجٹ 2024 اور عوامی توقعات
پنجاب حکومت نے آیندہ مالی سال کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا
پنجاب حکومت نے آیندہ مالی سال کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک جب کہ پنشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویزکی گئی ہے۔
بجٹ کا مجموعی حجم 5446 ارب روپے ہے، جس میں آمدن کا تخمینہ 4643 ارب چالیس کروڑ روپے مختص جب کہ این ایف سی سے 3683 ارب 10 کروڑ روپے صوبے کو ملیں گے۔ عوام کو بجلی بلوں میں ریلیف اور سولر کی مفت تنصیب کیلیے وزیر اعلیٰ روشن گھرانہ پروگرام کیلیے 9 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ہر غریب کو چھت فراہم کرنے کے لیے اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کیلیے 10 ارب روپے مختص، جب کہ پنجاب کسان کارڈ کے تحت 5 لاکھ کسانوں کو کل 75 ارب روپے مالیت کے قرض کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
بلاشبہ پنجاب حکومت نے کسانوں اور غریب طبقے کے لیے بجٹ میں اچھی تجاویز پیش کی ہیں، ٹیکس فری بجٹ پیش کر کے دوسرے صوبوں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کی گئی ہے، اب بجٹ میں کیے جانے والے اعلانات پر عمل درآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام تو مسائل کا حل چاہتے ہیں جس کے لیے کارکردگی میں نمایاں بہتری لانا ہو گی۔ صحت، تعلیم سمیت بنیادی ضروریات کے لیے بجٹ تو مختص ہوتا ہے مگر اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کا نظام بہتر کرنا ناگزیر ہے۔
مجوزہ بجٹ میں 296 ارب روپے کی لاگت سے 2380 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر و بحالی اور 135 ارب روپے کی لاگت سے 482 اسکیموں کے تحت خستہ حال اور پرانی سڑکوں کی مرمت و بحالی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ڈھائی ارب روپے کی لاگت سے انڈر گریجویٹ اسکالر شپ پروگرام اور دو ارب 97 کروڑ روپے کی لاگت سے چیف منسٹرز اسکلڈ پروگرام شروع کیا گیا ہے جب کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
بلاشبہ نئی سڑکوں کی تعمیر وبحالی پر رقم خرچ کرنے سے ذرایع آمدورفت میں بہتری آئے گی، پنجاب میں روزگار کے مواقعے محدود ہیں، ملکی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے، انھیں عہد جدید کے سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیروزگاری کے خاتمے میں مدد ملے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں سب سے کم بجٹ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے، ہمیں اپنی ترجیحات میں تعلیم کو مقدم رکھنا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے پہلے مرحلے میں 100 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کو مکمل سولر سسٹم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس بات کا اعلان کرتے وقت عوامی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا، بیوروکریسی نے اپنے اور سولر سسٹم فروخت کرنیوالوں کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔
پنجاب حکومت پہلے بینکس کے ذریعے یہ سولر سسٹم خریدے گی ، پھر انسٹال کروائے گی، حکومت اس پر سبسڈی دے گی، صارف پر بھی اضافی بوجھ پڑے گا، وہ سولرپینل سے متعلق دیگر آلات اپنی جیب سے خریدے گا، یوں یہ ایسا چکر ہے کہ کمیشن مافیا کے وارے نیارے ہوجائیں، جب کہ سیدھی سی بات ہے کہ جو بھی صارف ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرے اسے حکومت براہ راست سبسڈی دے ، جیسا کہ بھارت میں عام آدمی پارٹی نے دہلی اور بھارتی پنجاب میں تین سو یونٹ تک عام صارف کو سبسڈی دی ہے۔
کسانوں کو 30 ارب کی لاگت سے بغیر سود ٹریکٹرز فراہم کیے جائیں گے، سوا ایک ارب کی لاگت سے ماڈل ایگری کلچر مالز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جب کہ دو ارب کی لاگت سے لائیو اسٹاک کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کا کسان، ملک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے گندم سے لے کر دال تک، چاول سے لے کر چینی تک کسان کی محنت کا نتیجہ ہے۔
شومئی قسمت کہ گزشتہ کئی سال سے ملک میں کپاس اور گندم کی پیداواری لاگت میں اضافہ جب کہ پیداوار اور قیمت میں اتنی گراؤٹ آچکی ہے کہ کسان اگلی فصل کی کاشت کے تقاضے پورا کرنے کی سکت سے محروم ہیں۔ یہ معاشی المیہ ہماری زرعی پالیسیوں کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارا کسان جھلسانے والی گرمی، بارش، طوفان اور دیگر زمینی اور آسمانی آفات کی پروا کیے بغیر دن رات کی انتھک محنت سے ہمارے لیے خوراک پیدا کرنے کا واحد وسیلہ ہونے کے باوجود مفلوک الحال اور پسماندہ ہے۔
ایک مخصوص طبقے نے اسے شعوری طور پر پابہ زنجیر کر رکھا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کے طور طریقے بھی بدلے ہیں مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے کسان آج بھی قدیم طرزکی زراعت پر انحصار کر رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر کسانوں کے پاس زراعت کے لیے ضروری جدید آلات کا فقدان ہے۔ کسانوں کی اکثریت ابھی تک جدید زرعی تکنیکوں سے نا واقف ہے۔
اس کے علاوہ زرعی ادویات کا غیر معیاری استعمال بھی فصلوں کی پیداوار میں کمی کا سبب ہے۔ شاید تاریخ کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ کسان کی بے مثال محنت کا صلہ اکثر و بیشتر بے رحم منافقت سے ادا کیا جاتا ہے۔ ہر گزرتا دن ہمارے محنتی اور جفاکش کسانوں کے لیے پریشانیوں کے نئے در وا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں زیرِ کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔
یہاں ایسے کسانوں کی اکثریت ہے جن کے پاس چند کنال سے لے کر دس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔ یہ چھوٹے کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، مگر بدقسمتی سے یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان اور بدحال ہیں، ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نا کافی ہے۔
یہاں آئے روز قرضوں کی نت نئی اسکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں جن کے جال میں پھنس کر پہلے سے ہی بدحالی کا شکار کسان اپنی زندگی کو مزید مشکلات اور اذیتوںکی نذر کر دیتا ہے۔ کروڑوں کی سبسڈیاں نجانے کہاں چلی جاتی ہیں کہ کسان کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ یہاں کھاد اور کیڑے مار ادویات کے روز بروز بڑھتے ریٹ ہمارے چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں، ڈیزل کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز ہونے والے اضافے انھیں نذرِ آتش ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔
کسان تو آئے دن اپنے اخراجات اور قرضوں کو دیکھ کر مرتا ہی ہے مگر مڈل مین نے تو کسان کو جیسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے یہ وہ متحرک گروہ ہے جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹ کو کنٹرول کرتا ہے، ذخیرہ اندوزی اس گروہ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ آخر کب یہ محکمہ بھی غفلت کی میٹھی نیند سے بیدار ہو گا؟
گو جدید زراعت کے فروغ کے ضمن میں پنجاب میں جدید کاشت کاری کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ مختلف زرعی منصوبوں کے لیے سعودی عرب 500 ملین ڈالرز فنڈ کے ساتھ اور چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین بھی تعاون کر رہے ہیں جس سے یقیناً ہماری برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ فن لینڈ بیچ، جنگلات اور حیاتیاتی نوعیت کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔
آج دنیا بھر میں 80فی صد ہائبرڈ بیج استعمال کیے جاتے ہیں جن سے پیداوار میں30سے50فی صد تک اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں آٹھ فی صد ہائبرڈ بیج استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بیجوں کی ضرورت 1.7 ملین ٹن ہے،لیکن اس کی موجود مقدار صرف 0.77 ملین ٹن ہے۔
پاکستان میں ہر سال سیلاب سے فصلیں تباہ اور پانی ضایع ہوتا ہے اس لیے اس منصوبے کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئی نہریں بنائی جائیں گی۔ اس کے علاوہ آب پاشی کے جدید طریقوں جیسے کہ ماڈیولر ڈرپ آب پاشی،اسپرنکلر آب پاشی اور محور آب پاشی کا استعمال کیا جائے گا۔مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے شعبوں میں زراعت، پھل، پولٹری، سولر سسٹم اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے شعبے شامل ہیں۔
زراعت کے شعبے میں سرکاری سطح پراور نجی بینکس کی جانب سے فراہم کیے گئے قرض اپنی جگہ، مگر اس سے حالات میں بہتری کے امکانات کم ہیں، کیوں کہ بینک صنعتی شعبے کے مقابلے میں زیادہ شرحِ سود پر قرضے فراہم کرتے ہیں، کسان اس شرحِ سود پر قرض نہیں لے سکتا۔ بینکس کو چاہیے کہ وہ عام کسانوں کے لیے آسان شرائط پر قرض فراہم کریں۔ زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔
پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی۔ الیکٹرک ٹیوب ویل ناکارہ ہوگئے ہیں، عمدہ بیج میسر نہیں، بروقت پانی نہ ملنے سے تیار فصل تباہ ہوجاتی ہے، یوں کسان کی محنت، پَیسہ، کھاد، سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نہروں، کھالوں کو پختہ کر کے اور ان کی مرمت کرکے اس قابل بنایا جائے کہ پانی ضایع ہوئے بغیر مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔ سبز انقلاب لائے بغیر ہم ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ میں کیے گئے اعلانات سے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔
بجٹ کا مجموعی حجم 5446 ارب روپے ہے، جس میں آمدن کا تخمینہ 4643 ارب چالیس کروڑ روپے مختص جب کہ این ایف سی سے 3683 ارب 10 کروڑ روپے صوبے کو ملیں گے۔ عوام کو بجلی بلوں میں ریلیف اور سولر کی مفت تنصیب کیلیے وزیر اعلیٰ روشن گھرانہ پروگرام کیلیے 9 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ہر غریب کو چھت فراہم کرنے کے لیے اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کیلیے 10 ارب روپے مختص، جب کہ پنجاب کسان کارڈ کے تحت 5 لاکھ کسانوں کو کل 75 ارب روپے مالیت کے قرض کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
بلاشبہ پنجاب حکومت نے کسانوں اور غریب طبقے کے لیے بجٹ میں اچھی تجاویز پیش کی ہیں، ٹیکس فری بجٹ پیش کر کے دوسرے صوبوں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کی گئی ہے، اب بجٹ میں کیے جانے والے اعلانات پر عمل درآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام تو مسائل کا حل چاہتے ہیں جس کے لیے کارکردگی میں نمایاں بہتری لانا ہو گی۔ صحت، تعلیم سمیت بنیادی ضروریات کے لیے بجٹ تو مختص ہوتا ہے مگر اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کا نظام بہتر کرنا ناگزیر ہے۔
مجوزہ بجٹ میں 296 ارب روپے کی لاگت سے 2380 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر و بحالی اور 135 ارب روپے کی لاگت سے 482 اسکیموں کے تحت خستہ حال اور پرانی سڑکوں کی مرمت و بحالی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ڈھائی ارب روپے کی لاگت سے انڈر گریجویٹ اسکالر شپ پروگرام اور دو ارب 97 کروڑ روپے کی لاگت سے چیف منسٹرز اسکلڈ پروگرام شروع کیا گیا ہے جب کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
بلاشبہ نئی سڑکوں کی تعمیر وبحالی پر رقم خرچ کرنے سے ذرایع آمدورفت میں بہتری آئے گی، پنجاب میں روزگار کے مواقعے محدود ہیں، ملکی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے، انھیں عہد جدید کے سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیروزگاری کے خاتمے میں مدد ملے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں سب سے کم بجٹ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے، ہمیں اپنی ترجیحات میں تعلیم کو مقدم رکھنا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے پہلے مرحلے میں 100 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کو مکمل سولر سسٹم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس بات کا اعلان کرتے وقت عوامی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا، بیوروکریسی نے اپنے اور سولر سسٹم فروخت کرنیوالوں کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔
پنجاب حکومت پہلے بینکس کے ذریعے یہ سولر سسٹم خریدے گی ، پھر انسٹال کروائے گی، حکومت اس پر سبسڈی دے گی، صارف پر بھی اضافی بوجھ پڑے گا، وہ سولرپینل سے متعلق دیگر آلات اپنی جیب سے خریدے گا، یوں یہ ایسا چکر ہے کہ کمیشن مافیا کے وارے نیارے ہوجائیں، جب کہ سیدھی سی بات ہے کہ جو بھی صارف ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرے اسے حکومت براہ راست سبسڈی دے ، جیسا کہ بھارت میں عام آدمی پارٹی نے دہلی اور بھارتی پنجاب میں تین سو یونٹ تک عام صارف کو سبسڈی دی ہے۔
کسانوں کو 30 ارب کی لاگت سے بغیر سود ٹریکٹرز فراہم کیے جائیں گے، سوا ایک ارب کی لاگت سے ماڈل ایگری کلچر مالز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جب کہ دو ارب کی لاگت سے لائیو اسٹاک کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کا کسان، ملک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے گندم سے لے کر دال تک، چاول سے لے کر چینی تک کسان کی محنت کا نتیجہ ہے۔
شومئی قسمت کہ گزشتہ کئی سال سے ملک میں کپاس اور گندم کی پیداواری لاگت میں اضافہ جب کہ پیداوار اور قیمت میں اتنی گراؤٹ آچکی ہے کہ کسان اگلی فصل کی کاشت کے تقاضے پورا کرنے کی سکت سے محروم ہیں۔ یہ معاشی المیہ ہماری زرعی پالیسیوں کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارا کسان جھلسانے والی گرمی، بارش، طوفان اور دیگر زمینی اور آسمانی آفات کی پروا کیے بغیر دن رات کی انتھک محنت سے ہمارے لیے خوراک پیدا کرنے کا واحد وسیلہ ہونے کے باوجود مفلوک الحال اور پسماندہ ہے۔
ایک مخصوص طبقے نے اسے شعوری طور پر پابہ زنجیر کر رکھا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کے طور طریقے بھی بدلے ہیں مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے کسان آج بھی قدیم طرزکی زراعت پر انحصار کر رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر کسانوں کے پاس زراعت کے لیے ضروری جدید آلات کا فقدان ہے۔ کسانوں کی اکثریت ابھی تک جدید زرعی تکنیکوں سے نا واقف ہے۔
اس کے علاوہ زرعی ادویات کا غیر معیاری استعمال بھی فصلوں کی پیداوار میں کمی کا سبب ہے۔ شاید تاریخ کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ کسان کی بے مثال محنت کا صلہ اکثر و بیشتر بے رحم منافقت سے ادا کیا جاتا ہے۔ ہر گزرتا دن ہمارے محنتی اور جفاکش کسانوں کے لیے پریشانیوں کے نئے در وا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں زیرِ کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔
یہاں ایسے کسانوں کی اکثریت ہے جن کے پاس چند کنال سے لے کر دس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔ یہ چھوٹے کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، مگر بدقسمتی سے یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان اور بدحال ہیں، ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نا کافی ہے۔
یہاں آئے روز قرضوں کی نت نئی اسکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں جن کے جال میں پھنس کر پہلے سے ہی بدحالی کا شکار کسان اپنی زندگی کو مزید مشکلات اور اذیتوںکی نذر کر دیتا ہے۔ کروڑوں کی سبسڈیاں نجانے کہاں چلی جاتی ہیں کہ کسان کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ یہاں کھاد اور کیڑے مار ادویات کے روز بروز بڑھتے ریٹ ہمارے چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں، ڈیزل کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز ہونے والے اضافے انھیں نذرِ آتش ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔
کسان تو آئے دن اپنے اخراجات اور قرضوں کو دیکھ کر مرتا ہی ہے مگر مڈل مین نے تو کسان کو جیسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے یہ وہ متحرک گروہ ہے جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹ کو کنٹرول کرتا ہے، ذخیرہ اندوزی اس گروہ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ آخر کب یہ محکمہ بھی غفلت کی میٹھی نیند سے بیدار ہو گا؟
گو جدید زراعت کے فروغ کے ضمن میں پنجاب میں جدید کاشت کاری کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ مختلف زرعی منصوبوں کے لیے سعودی عرب 500 ملین ڈالرز فنڈ کے ساتھ اور چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین بھی تعاون کر رہے ہیں جس سے یقیناً ہماری برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ فن لینڈ بیچ، جنگلات اور حیاتیاتی نوعیت کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔
آج دنیا بھر میں 80فی صد ہائبرڈ بیج استعمال کیے جاتے ہیں جن سے پیداوار میں30سے50فی صد تک اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں آٹھ فی صد ہائبرڈ بیج استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بیجوں کی ضرورت 1.7 ملین ٹن ہے،لیکن اس کی موجود مقدار صرف 0.77 ملین ٹن ہے۔
پاکستان میں ہر سال سیلاب سے فصلیں تباہ اور پانی ضایع ہوتا ہے اس لیے اس منصوبے کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئی نہریں بنائی جائیں گی۔ اس کے علاوہ آب پاشی کے جدید طریقوں جیسے کہ ماڈیولر ڈرپ آب پاشی،اسپرنکلر آب پاشی اور محور آب پاشی کا استعمال کیا جائے گا۔مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے شعبوں میں زراعت، پھل، پولٹری، سولر سسٹم اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے شعبے شامل ہیں۔
زراعت کے شعبے میں سرکاری سطح پراور نجی بینکس کی جانب سے فراہم کیے گئے قرض اپنی جگہ، مگر اس سے حالات میں بہتری کے امکانات کم ہیں، کیوں کہ بینک صنعتی شعبے کے مقابلے میں زیادہ شرحِ سود پر قرضے فراہم کرتے ہیں، کسان اس شرحِ سود پر قرض نہیں لے سکتا۔ بینکس کو چاہیے کہ وہ عام کسانوں کے لیے آسان شرائط پر قرض فراہم کریں۔ زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔
پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی۔ الیکٹرک ٹیوب ویل ناکارہ ہوگئے ہیں، عمدہ بیج میسر نہیں، بروقت پانی نہ ملنے سے تیار فصل تباہ ہوجاتی ہے، یوں کسان کی محنت، پَیسہ، کھاد، سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نہروں، کھالوں کو پختہ کر کے اور ان کی مرمت کرکے اس قابل بنایا جائے کہ پانی ضایع ہوئے بغیر مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔ سبز انقلاب لائے بغیر ہم ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ میں کیے گئے اعلانات سے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔