کنکریٹ کا جنگل تباہی کی نشانی
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کنکریٹ کے جنگل سمندری حیاتیات کو تباہ کرتے ہیں اور فطرت کے نظام میں خلل ڈالتے ہیں
گلوبل وارمنگ آج انسانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، دوسری طرف کراچی کے ساحلی علاقے ہاکس بے کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کرنے کا منصوبہ منظور ہوگیا ہے۔
ہاکس بے کے ساحل کے ساتھ آباد سیکڑوں دیہاتوں کے ساتھ سمندری حیاتیات اورکراچی شہر کی ماحولیاتی تبدیلی (Climate Change) کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ بحیرہ عرب عمان اور بلوچستان سے ہوتا ہوا جب سندھ میں داخل ہوتا ہے تو کراچی کا جنوب مغربی ساحل شروع ہوتا ہے۔ ہاکس بے ساحل کے ساتھ کیماڑی کی بندرگاہ ہے، گزری اور پھر کورنگی ریڑھی گوٹھ سے گرتا ہوا ٹھٹھہ کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے، اس سے آگے رن آف کچھ کا علاقہ ہے۔
کراچی کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ایک انگریز Bladen Wilmer Hawke نے یہاں پہلا مکان تعمیرکیا تھا، یوں یہ علاقہ ہاکس بے کے نام سے معروف ہوا۔ اس علاقے میں مبارک ولیج سمیت سیکڑوں چھوٹے گوٹھ واقع ہیں جن میں لاکھوں افراد آباد ہیں۔ ہاکس بے ساحل کو قدرتی حیاتیات کے حوالے سے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ تمام اقسام کی مچھلیاں اور اعلیٰ نسل کے جھینگے ملتے ہیں۔ یہ ساحل پرکچھوے کی انتہائی نایاب اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس ساحل کے ساتھ مینگروزکے جنگل بھی پائے جاتے ہیں۔
مینگروز کے ان جنگلات میں سمندری حیاتیات مچھلیاں، جھینگے اور دیگر سمندری حیاتیات انڈے دیتی ہیں۔ یہ جنگل ان حیاتیات کی نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ سمندری مخلوق کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارہ Worldwide funds for nature (WWF) نے اس علاقے میں سمندری حیاتیات کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور اس موضوع پر اطلاعات کی فراہمی کے لیے انفارمیشن سینٹر قائم کیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی شعبہ میرین سائنس اور دنیا کی اہم یونیورسٹیوں کے اس موضوع پر تحقیق کرنے والے سائنس دان اس ساحل سے معلومات حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔
گرمیوں کے موسم میں اس علاقے میں دنیا کے نادر Green Sea Turtlesکی افزائشِ نسل ہوتی ہے۔ ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابقہ نگران حکومت اس علاقے میں 6ہزار ایکڑ زمین تعمیراتی کاموں کے لیے ایک فرم کو دینے پر آمادہ ہوئی تھی، اب اس فیصلے پر عملدرآمد کا وقت آگیا ہے۔ یہ صورتحال صدیوں سے اس علاقے میں آباد افراد کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی افراد کے پاس زیادہ تر فارم سکس کی زرعی اراضی کی دستاویزات موجود ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پولٹری فارم بھی اسی علاقے میں موجود ہیں، یوں کافی لوگوںکی زندگیوں کا دارومدار اس علاقے میں پکنک منانے والے افراد کو ضروری اشیاء کی فراہمی کے کاروبار سے منسلک ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ اس علاقے کے قدیم مبارک ولیج سے لے کرکیپ ماؤنز اور سنہرا بیچ تک 11 ہزار ایکڑ زمین کو بھی حکومت سندھ نے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ مبارک ولیج کی آبادی خاصی بڑھ گئی ہے۔ یہ ولیج 3سو سال سے آباد ہے، اب مبارک ولیج کے مکینوں کو مزید زمین کی ضرورت ہے۔ اس پورے علاقے میں بلوچوں کے مختلف قبائل کے افراد رہتے ہیں۔
مبارک ولیج، کیپ ماؤنز اور سنہرا ساحل کے علاقے میں ایک قدرتی جنگل ہے جہاں ہر قسم کے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں جن میں گیدڑ، لومڑی، خرگوش، جنگلی بلی، تیتر، تلور، بٹیر، باز، کوبرا سانپ وغیرہ شامل ہیں۔ عزیز سنگھور بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس پورے علاقے کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا وائلڈ لائف، قوانین کے تحت ایک پریزنٹیشن تیار کی ہے۔
اس علاقے کے رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل نے یہ پریزنٹیشن وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے سامنے پیش کی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے اصولی طور پر اس علاقے کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے کی منظوری دی تھی۔ اسی طرح قادر پٹیل اس علاقے کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دلوانے کے لیے مسلسل کوشش کررہے ہیں۔حکومت سندھ کے حالیہ فیصلے سے صورتحال خراب نظر آرہی ہے۔ اس علاقے کے لوگ صدیوں سے یہاں آباد ہیں، وہ کسی بھی قیمت پر اپنی زمین فروخت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ اس علاقے کے تحفظ کے لیے خصوصی پلان منظورکیا جائے اور جن افراد کے پاس اپنی جائیدادوں کے فارم سکس موجود ہیں انھیں فارم 7 میں تبدیل کر کے حقِ ملکیت کی راہ میں تمام رکاوٹیں دورکی جائیں، اگر اس علاقے کوکنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کیا گیا تو علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل ہوجائے گی، جس کا سارا نقصان پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ پیپلز پارٹی 1970ء سے اس علاقے کی نمایندہ جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی اس علاقے کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی رہی ہے، اگر آبادی کا تناسب تبدیل ہوا تو پیپلز پارٹی اپنی روایتی نشستیں چھوڑنے پر مجبور ہوگی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اراکین نے 2015 میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک خط لکھا تھا۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ کراچی کے سمندر میں ڈوبنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں اور گلوبل وارمنگ کا خطرہ بھی بڑھتا جارہا ہے، اگر حالات کی نزاکت کو محسوس نہ کیا گیا توکراچی، ٹھٹھہ اور بدین اور بلوچستان کے ساحلوں کی زمین کو 2060 تک سمندر نگل سکتا ہے۔ اب بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ٹھٹھہ اور بدین میں 2 ملین ایکڑ اراضی کو سمندر نگل چکا ہے جب کہ بلوچستان کے ساحلی شہرگڈانی کو سمندرکی لہروں سے شدید خطرہ لاحق ہے، یوں کراچی شہرکی تباہی کا بھی آغاز ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج اور چاند کی کشش سے بحیرہ عرب کی موجوں میں زبردست مد و جزر پیدا ہوتا ہے جس سے ساحل کا علاقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ چند سال قبل جب کراچی میں شدید بارشیں ہوئی تھیں تو سمندر کی سطح اتنی بلند ہوگئی تھی کہ سمندر نے بارش کے پانی کو قبول کرنے سے انکارکردیا تھا، اگر ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی اور بحیرہ عرب میں پیدا ہونے والی خطرناک لہریں پورے علاقے کو تباہ کردیں گی۔
پوری دنیا میں سمندری حیاتیات کے تحفظ کے لیے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کنکریٹ کے جنگل سمندری حیاتیات کو تباہ کرتے ہیں اور فطرت کے نظام میں خلل ڈالتے ہیں، جس کی بناء پر گلوبل وارمنگ کی تباہی بڑھ جاتی ہے۔ حکومت سندھ کراچی کو بچانے کے لیے ساحلی علاقوں میں کنکریٹ کا جنگل بسانے کا منصوبہ ختم کرنا چاہیے۔