مظاہروں اور احتجاج کا زور ٹوٹ گیا

طاہر القادری کی وطن واپسی سے سیاسی درجۂ حرارت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور پنجاب کا اقتدار گرم ہواؤں کی لپیٹ میں ہے

نصر اللہ شجیع دور طالب علمی میں بہترین مقرر مانے جاتے تھے۔ انہوں نے طلبہ حقوق کی جدوجہد میں بھرپور حصّہ لیا۔ فوٹو : فائل

شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن پر وفاق کی حمایت کرتی اور اپنے تعاون کا یقین دلاتی سیاسی جماعتیں سانحۂ لاہور اور اس کے بعد عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی آمد پر حکومت کے بعض اقدامات پر مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت، صوبائی حکم رانوں اور متعلقہ حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں۔

طاہر القادری کی وطن واپسی سے سیاسی درجۂ حرارت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور پنجاب کا اقتدار گرم ہواؤں کی لپیٹ میں ہے، جب کہ صوبۂ سندھ کو فی الحال کسی سیاسی طوفان کا سامنا نہیں ہے۔ دوسری جانب فوجی آپریشن کے ساتھ ہی کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر حفاظتی انتظامات سخت تر کر دیے گئے ہیں۔ صوبائی حکام کی ہدایت پر کراچی میں پولیس، رینجرز اور دیگر سیکیورٹی ادارے ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور شہر میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کے لیے چھاپوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں سیکوریٹی اداروں کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔

گذشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ کی رکن قومی اسمبلی طاہرہ آصف قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد لاہور کے ایک اسپتال میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔ ہفتے کی شب عزیزآباد میں طاہرہ آصف کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقریب منعقد کی گئی، جس سے متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر نے خطاب کیا۔ ایم کیو ایم کے راہ نما کا کہنا تھا کہ ہم جبر اور ظلم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے، پاکستان کو دہشت گردوںکا ملک نہیں بننے دیں گے بلکہ اسے ہرحال میں جناح کا اعتدال پسند پاکستان بنائیں گے۔

انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم نے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب نامی آپریشن کی بھرپور حمایت کی اور الطاف حسین نے کہاکہ پاکستان کی بقا اور سلامتی اور دفاع کے لیے ہمارے کارکنان کی ضرورت ہے تو وہ حاضر ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بقا و سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ سانحۂ ماڈل ٹاؤن ہو یا طاہرہ آصف کا قتل، یہ وہ عناصر ہیں جو پاکستان کو قومیتوں، مسالک اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ آج جب ان دہشت گردوں سے حساب کرنے کا وقت آیا تو اس قسم کے سانحات رونما کیے جارہے ہیں۔ اس موقع پر سانحۂ ماڈل ٹاؤن اور طاہرہ آصف شہید کے لواحقین سے دلی تعزیت اور ہم دردی کا اظہارکرتے ہوئے ان واقعات میں ملوث عناصر کی گرفتاری کا مطالبہ کیاگیا اور شہید راہ نما کی یاد میں دیے جلائے گئے۔

اس تقریب سے حیدر عباس رضوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ طاہرہ آصف کی یاد میں یہاں جمع ہو کر عوام نے دہشت گردوں، طالبان کو پیغام دیا ہے کہ تم ایک دیا بجھاؤ گے تو ہم لاکھوں دیے روشن کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرب عضب سے دہشت گردوں کے مقدرکا فیصلہ ہوچکا ہے۔ تاہم اس سلسلے کی پہلی قربانی ہمارے حصے میں لکھی تھی، طاہرہ آصف نے پاکستان کی سربلندی کے لیے جام شہادت نوش کیا، ہم ان کا لہو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

اس تقریب میں شریک مختلف سماجی شخصیات اور تاجر برادری کے نمائندوں نے بھی عوام سے خطاب کیا۔ پچھلے دنوں متحدہ قومی موومنٹ کی وفاقی حکومت میں شمولیت کی گونج بھی سنائی دی، جسے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال کے مقابلے کی تیاری کہا جارہا ہے۔ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں گہرا اثر رکھنے والی ایم کیو ایم سے مضبوط سیاسی تعلق قائم رکھنا ضروری ہے۔ اس طرح ن لیگ کراچی سے شروع ہونے والی کسی بھی بڑی مخالف تحریک کا زور توڑنے میں کام یاب ہو سکتی ہے۔

گذشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی نے شہید بے نظیر بھٹو کی 62 ویں سال گرہ انتہائی سادگی سے منائی۔ شہر میں اس موقع کی مناسب سے کوئی بڑی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔ کراچی میں بلاول ہاؤس میں پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت کے مطابق فوجی آپریشن میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والے سپاہیوں کے لیے پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں اور کارکنوں نے خون کے عطیات دیے۔ اس مہم کا افتتاح سید اویس مظفر نے کیا۔ پیپلز پارٹی کے کراچی ڈویژن کے صدر قادر پٹیل، جمیل سومرو، جاوید ناگوری، نجمی عالم، وقار مہدی، راشد ربانی اور دیگر نے خون کا عطیہ دیا۔




گذشتہ دنوں بالاکوٹ سے ایک افسوس ناک خبر آئی، جس کے مطابق جماعتِ اسلامی (کراچی) کے نائب امیر نصر اللہ شجیع دریائے کنڑ میں ایک طالب علم سفیان عاصم کو بچاتے ہوئے خود بھی دریا میں بہہ گئے۔ نصراللہ خان شجیع 1972میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ حیدرآباد کالونی کے رہائشی تھے۔ زمانۂ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی اور 1996 سے 1998تک اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم رہے۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ نصر اللہ خان شجیع جماعت اسلامی، ضلع شرقی کے امیر رہے اور اب جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر کی حیثیت سے سیاسی میدان میں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔

2002 کے عام انتخابات میں انہوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا۔ وہ کراچی کے صوبائی حلقے 116 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور سندھ اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے عوام کی آواز بنے۔ نصر اللہ شجیع دور طالب علمی میں بہترین مقرر مانے جاتے تھے۔ انہوں نے طلبہ حقوق کی جدوجہد میں بھرپور حصّہ لیا اور جماعتِ اسلامی سے وابستگی کے بعد عوامی مسائل پر آواز اٹھاتے رہے۔ وہ شعبۂ تعلیم سے وابستہ تھے اور عثمان پبلک اسکول سسٹم کے کیمپس 13کے پرنسپل تھے۔ پچھلے ہفتے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جب کہ ادارۂ نورِ حق میں مختلف سیاسی، سماجی شخصیات پر مشتمل وفود نے جماعتِ اسلامی کی مقامی قیادت سے تعزیت کی اور نصر اللہ شجیع کی سیاسی اور عوامی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

امیر جماعت اسلامی (پاکستان) سراج الحق، سابق امیر سید منورحسن، نائب امراء پروفیسر خورشید احمد، حافظ محمد ادریس، اسد اللہ بھٹو، راشد نسیم، میاں محمد اسلم، سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ ساجد انور اور سیکریٹری اطلاعات امیر العظیم و دیگر ذمہ داران و کارکنان نے بھی اس حادثے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی کے راہ نماؤں نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ نصر اللہ شجیع نے اپنی زندگی دین اسلام کے غلبے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

وہ مشکل وقت میں دوسروں کا ساتھ دینے والے انسان تھے، جس کی ایک مثال یہ واقعہ بھی ہے۔ پچھلے دنوں جماعت اسلامی کے راہ نما سید منورحسن نے نصر اللہ خان شجیع اور طالب علم سفیان عاصم کی رہائش گاہ پر لواحقین سے تعزیت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، سیکریٹری عبد الوہاب، ڈپٹی سیکریٹری راشد قریشی، سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے۔

گذشتہ ہفتے پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن آفس کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر مظاہرین نے ہاتھوں میں عمران خان کی تصاویر اور دھاندلی کے خلاف درج عبارتوں پر مبنی کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے راہ نماؤں سیف الرحمن خان، سبحان علی ساحل، راجہ اظہر، شاہنواز جدون، دوا خان صابر، ارم بٹ اور دیگر نے کہاکہ انتخابات کے نتائج ایک سازش کے تحت تبدیل کیے گئے، دھاندلی اور ٹھپا مافیا نے اپنے حمایتی امیدواروں کو کام یاب کرایا اور الیکشن کمیشن کے شفاف الیکشن کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

ان راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکم رانوں کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ وہ چار حلقوں کے نتائج کی جانچ کروائیں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے، لیکن حکم راں جانتے ہیں کہ اس سے دھاندلی کے ثبوت منظر عام پر آجائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چیئرمین نادرا اپنے حقیقی ذمہ داری کو بھول کر مسلم لیگ (ن) کے کارکن بنے ہوئے ہیں اور حکومت کو سپورٹ کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے راہ نماؤں نے واضح کیا کہ 14 اگست کو کراچی میں ان کی پارٹی کا جلسہ حکم رانوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔
Load Next Story