تبدیلی سے خوفزدہ اکثر انسان
تبدیلی بیشتر موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سزا نہیں جزا کی حیثیت رکھتی ہے
ہم تمام انسانوں کو پروردگارِ عالم کی جانب سے زندگی نام کا جو قیمتی تحفہ عطا کیا گیا ہے، اْس کی سب سے اچھی اور سب سے بڑی بات ایک ہی ہے کہ یہ کبھی رکتی نہیں بس چلتی رہتی ہے۔ زندگی کا بنیادی جْز '' تبدیلی'' ہے، آپ کی زندگی موسمِ بہارکی منظرکشی کر رہی ہو یا اْس میں خزاں کی رْت کا ڈیرا ہو، دونوں نے ہی بیت جانا ہے۔
تبدیلی دراصل ایک نعمت ہے، جس کا اگر وجود نہ ہوتا تو انسان ایک طرح کے حالات اور معاملات سے بالکل ویسے ہی اْکتا جاتا جیسے قومِ بنی اسرائیل من و سلویٰ سے۔ اللہ رب العزت نے پوری کائنات کو اس طرز پر تشکیل دیا ہے کہ یہاں کی ہر شے چاہے وہ ظاہر ہو یا پوشیدہ جامد نہیں ہے بلکہ تبدیلی کا عنصر تمام چیزوں میں موجود ہے۔
اس جہانِ فانی میں تشریف فرما ہونے اور ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی انسان کی اپنی زندگی کے حوالے سے منصوبہ بندی کا آغاز ہوجاتا ہے، عمر اور سوچ کے مناسبت سے اْس میں رد و بدل چلتی رہتی ہے۔ ہر انسان خود کی زندگی کے متعلق کئی خواب سجاتا ہے، کہاں،کیسے،کب اور کیا کرنا ہے، اْس کی تدبیر ترتیب دیتا ہے۔ اپنے ارادوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے محنت کرتا ہے بعض اوقات وہ محنت جسمانی نوعیت کی ہوتی ہے اور کبھی کبھار دماغ کا اس میں دخل ہوتا ہے، چونکہ انسان کو زندگی صرف ایک بار ملتی ہے لہٰذا اْس کا اپنی زیست کے ہر لمحہ کو بھرپور انداز میں گزارنے کی خواہش رکھنا فطری عمل ہے اور معاملاتِ زندگی میں بِن بْلائے تبدیلی کے وارِد ہونے پر حواس باختہ ہونا بھی جائز بات۔اکثر لوگ تبدیلی سے گھبراتے اور خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔
اب چاہے وہ تبدیلی مثبت ہو یا منفی اثرات کی اْس میں آمیزش واقع ہو، ہر کسی کے لیے اْسے ہضم کرنا سہل نہیں ہوتا ہے۔ کئی افراد تو آگے بڑھنے سے اس قدر ہچکچاتے ہیں کہ اپنے ماضی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں بھلے وہ ماضی کتنا ہی گھٹن زدہ اور مستقبل کی جانب قدم اْٹھانا تازہ ہوا کے جھونکے کی نوید ہی کیوں نہ سنا رہا ہو۔ زندگی کا ہر دن انسان سے اْس کا نیا روپ مانگتا ہے لہٰذا کنویں کا مینڈک بنے رہنا اْس کی ذات کے لیے ہی نقصان دہ ہے۔ دنیا میں اپنی بقا کے لیے بہادری کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ انسان کے پاس کوئی دوسرا طریقہ اور راستہ موجود نہیں ہے، اْسے ہر آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور خود کو خسارے کے سودے سے بچانا ہے۔
تبدیلی بیشتر موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سزا نہیں جزا کی حیثیت رکھتی ہے جب کہ بعض اوقات ہماری ناقدری اور کفرانِ نعمت کے باعث ہم سے جان سے عزیز شے چھین لی جاتی ہے یا کسی کبیرہ گناہ کی سزا کے طور پر بار بار مانگنے کے باوجود بھی عطا نہیں کی جاتی ہے۔ اپنے رب سے اکثر ہم ستاروں کی التجا کر رہے ہوتے ہیں مگر اْس ذاتِ کریم نے ہمارے نصیب میں پہلے ہی سے چاند اور سورج لکھ دیے ہوتے ہیں بس ہماری پرواز غلط سمت کی جانب ہوتی ہے۔ خالقِ دوجہاں نے یہ کائنات بہت پیار سے بنائی ہے اور اْس سے کہیں زیادہ دْلار اور محبت سے انسان کو پیدا کیا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی محبوب مخلوق کو ادنٰی شے مہیا کردے جب وہ اعلیٰ شے عنایت کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔
کچھ تبدیلیاں ربِ ذوالجلال کی طرف سے ہماری ذات پر احسان ہوتی ہیں جو ہمارے اندر سنجیدگی، پختگی اور بالیدگی پیدا کرنے کے لیے لائی جاتی ہیں، اگر وہ نہ آئیں تو ہم میں سے کافی افراد اپنی زندگی کو ہنسی کھیل میں برباد کردیں۔ اس کے علاوہ بہت سی تبدیلیاں آزمائش کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ وہ عظیم ہستی اپنے بندوں کو دے کر بھی آزماتی ہے اور لے کر بھی، جس میں سْرخرو صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو صبرکرتے ہیں۔ ایسے ہی صابر ایمان والوں کے بارے میں اللہ کریم سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۵۵ میں ارشاد فرماتے ہیں، '' اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب! ) آپ ( ان ) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔''
خالق کا اپنی خلق کو اْس کے ہر نیک عمل پر انعام کا وعدہ ہے اور اْس بڑی ذات کا ہر وعدہ سچا ہے، لہٰذا جس نے تبدیلی پر صبر کیا، ساتھ اْس رحیم وکریم کی رضا میں راضی رہا، اْن کو مخاطب کرتے ہوئے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۴۳ میں خدا تعالٰی فرماتے ہیں، '' اور جو کچھ ان کے دلوں میں ( کینہ ) تھا ہم اس کو دورکردیں گے، ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا ( لاکھ لاکھ ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے۔
اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے۔''تبدیلی کے بغیر ساکن زندگی بے مزا ہے کیونکہ کہیں جانے کے لیے کہیں سے نکلنا بے حد ضروری ہے۔ انسان اگر ایک جگہ سے صرف اس ڈر سے آگے کی طرف اپنا قدم نہیں اْٹھائے گا کہ زندگی میں آنے والی تبدیلی اْسے راس آئے گی یا نہیں تو پھر وہ کبھی بہادر نہیں بن سکتا ہے۔ انسان میں اعتماد و بہادری مشکل حالات کا مقابلہ کرنے سے آتی ہے جب کہ آسانیاں محض کاہلی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ تبدیلی سے خوفزدہ انسان کا اللہ کی ذات پرکامل یقین ہو تو کوئی بھی تبدیلی ناگوار نہیں گزرتی ہے، مولا کریم ہماری ہر بے چینی سے باخبر ہے، اْس کو باخوبی معلوم ہے ہمیں اور ہماری زندگی کو کب کس تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی سوچ کا رْخ بدل کر تبدیلی کو آفت کے بجائے رحمت سمجھ کر دیکھیں آپ کو زندگی آسان لگنے لگے گی اور تبدیلی کی وقتی اذیت راحت کا روپ اختیار کرجائے گی۔
تبدیلی دراصل ایک نعمت ہے، جس کا اگر وجود نہ ہوتا تو انسان ایک طرح کے حالات اور معاملات سے بالکل ویسے ہی اْکتا جاتا جیسے قومِ بنی اسرائیل من و سلویٰ سے۔ اللہ رب العزت نے پوری کائنات کو اس طرز پر تشکیل دیا ہے کہ یہاں کی ہر شے چاہے وہ ظاہر ہو یا پوشیدہ جامد نہیں ہے بلکہ تبدیلی کا عنصر تمام چیزوں میں موجود ہے۔
اس جہانِ فانی میں تشریف فرما ہونے اور ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی انسان کی اپنی زندگی کے حوالے سے منصوبہ بندی کا آغاز ہوجاتا ہے، عمر اور سوچ کے مناسبت سے اْس میں رد و بدل چلتی رہتی ہے۔ ہر انسان خود کی زندگی کے متعلق کئی خواب سجاتا ہے، کہاں،کیسے،کب اور کیا کرنا ہے، اْس کی تدبیر ترتیب دیتا ہے۔ اپنے ارادوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے محنت کرتا ہے بعض اوقات وہ محنت جسمانی نوعیت کی ہوتی ہے اور کبھی کبھار دماغ کا اس میں دخل ہوتا ہے، چونکہ انسان کو زندگی صرف ایک بار ملتی ہے لہٰذا اْس کا اپنی زیست کے ہر لمحہ کو بھرپور انداز میں گزارنے کی خواہش رکھنا فطری عمل ہے اور معاملاتِ زندگی میں بِن بْلائے تبدیلی کے وارِد ہونے پر حواس باختہ ہونا بھی جائز بات۔اکثر لوگ تبدیلی سے گھبراتے اور خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔
اب چاہے وہ تبدیلی مثبت ہو یا منفی اثرات کی اْس میں آمیزش واقع ہو، ہر کسی کے لیے اْسے ہضم کرنا سہل نہیں ہوتا ہے۔ کئی افراد تو آگے بڑھنے سے اس قدر ہچکچاتے ہیں کہ اپنے ماضی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں بھلے وہ ماضی کتنا ہی گھٹن زدہ اور مستقبل کی جانب قدم اْٹھانا تازہ ہوا کے جھونکے کی نوید ہی کیوں نہ سنا رہا ہو۔ زندگی کا ہر دن انسان سے اْس کا نیا روپ مانگتا ہے لہٰذا کنویں کا مینڈک بنے رہنا اْس کی ذات کے لیے ہی نقصان دہ ہے۔ دنیا میں اپنی بقا کے لیے بہادری کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ انسان کے پاس کوئی دوسرا طریقہ اور راستہ موجود نہیں ہے، اْسے ہر آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور خود کو خسارے کے سودے سے بچانا ہے۔
تبدیلی بیشتر موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سزا نہیں جزا کی حیثیت رکھتی ہے جب کہ بعض اوقات ہماری ناقدری اور کفرانِ نعمت کے باعث ہم سے جان سے عزیز شے چھین لی جاتی ہے یا کسی کبیرہ گناہ کی سزا کے طور پر بار بار مانگنے کے باوجود بھی عطا نہیں کی جاتی ہے۔ اپنے رب سے اکثر ہم ستاروں کی التجا کر رہے ہوتے ہیں مگر اْس ذاتِ کریم نے ہمارے نصیب میں پہلے ہی سے چاند اور سورج لکھ دیے ہوتے ہیں بس ہماری پرواز غلط سمت کی جانب ہوتی ہے۔ خالقِ دوجہاں نے یہ کائنات بہت پیار سے بنائی ہے اور اْس سے کہیں زیادہ دْلار اور محبت سے انسان کو پیدا کیا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی محبوب مخلوق کو ادنٰی شے مہیا کردے جب وہ اعلیٰ شے عنایت کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔
کچھ تبدیلیاں ربِ ذوالجلال کی طرف سے ہماری ذات پر احسان ہوتی ہیں جو ہمارے اندر سنجیدگی، پختگی اور بالیدگی پیدا کرنے کے لیے لائی جاتی ہیں، اگر وہ نہ آئیں تو ہم میں سے کافی افراد اپنی زندگی کو ہنسی کھیل میں برباد کردیں۔ اس کے علاوہ بہت سی تبدیلیاں آزمائش کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ وہ عظیم ہستی اپنے بندوں کو دے کر بھی آزماتی ہے اور لے کر بھی، جس میں سْرخرو صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو صبرکرتے ہیں۔ ایسے ہی صابر ایمان والوں کے بارے میں اللہ کریم سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۵۵ میں ارشاد فرماتے ہیں، '' اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب! ) آپ ( ان ) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔''
خالق کا اپنی خلق کو اْس کے ہر نیک عمل پر انعام کا وعدہ ہے اور اْس بڑی ذات کا ہر وعدہ سچا ہے، لہٰذا جس نے تبدیلی پر صبر کیا، ساتھ اْس رحیم وکریم کی رضا میں راضی رہا، اْن کو مخاطب کرتے ہوئے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۴۳ میں خدا تعالٰی فرماتے ہیں، '' اور جو کچھ ان کے دلوں میں ( کینہ ) تھا ہم اس کو دورکردیں گے، ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا ( لاکھ لاکھ ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے۔
اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے۔''تبدیلی کے بغیر ساکن زندگی بے مزا ہے کیونکہ کہیں جانے کے لیے کہیں سے نکلنا بے حد ضروری ہے۔ انسان اگر ایک جگہ سے صرف اس ڈر سے آگے کی طرف اپنا قدم نہیں اْٹھائے گا کہ زندگی میں آنے والی تبدیلی اْسے راس آئے گی یا نہیں تو پھر وہ کبھی بہادر نہیں بن سکتا ہے۔ انسان میں اعتماد و بہادری مشکل حالات کا مقابلہ کرنے سے آتی ہے جب کہ آسانیاں محض کاہلی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ تبدیلی سے خوفزدہ انسان کا اللہ کی ذات پرکامل یقین ہو تو کوئی بھی تبدیلی ناگوار نہیں گزرتی ہے، مولا کریم ہماری ہر بے چینی سے باخبر ہے، اْس کو باخوبی معلوم ہے ہمیں اور ہماری زندگی کو کب کس تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی سوچ کا رْخ بدل کر تبدیلی کو آفت کے بجائے رحمت سمجھ کر دیکھیں آپ کو زندگی آسان لگنے لگے گی اور تبدیلی کی وقتی اذیت راحت کا روپ اختیار کرجائے گی۔