دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوم کا متحد ہونا ضروری
آج پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے فیصلہ کن موڑ پہ کھڑا ہے۔
KARACHI:
پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کا ناسور کب، کیسے اور کہاں سے در آیا، اس بحث کا وقت اب ختم ہو چکا ہے۔
آج پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے فیصلہ کن موڑ پہ کھڑا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیراعظم نواز شریف نے برسراقتدار آتے ہی ملک کو تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے سفر پر گامزن کرنے کا ارادہ کرتے ہی یہ تو بھانپ لیا تھا کہ جب تک دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی صورتحال کو یقینی نہ بنایا جائے گا، پاکستان کو اقتصادی اعتبار سے آگے لے جانا ممکن نہ ہو گا۔
مگر انہوں نے اپنے دھیمے مزاج اور معاملہ فہمی کے باعث دہشت گردی کے گھناؤنے کھیل میں ملوث انتہا پسندوں سے براہ راست ٹکراؤ سے بچنے کی حتمی الامکان کوشش کی اور اپنے اس فیصلے سے قبل ملک کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لیا۔ قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے سے قبل ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کے حکومتی اقدام کو دنیا بھرمیں سراہا گیا مگر بات چیت کا سلسلہ بعض پیچیدگیوں کے باعث آگے نہ بڑھ سکا اور اب وہ پیچیدگیاں غیر ملکی جنگجوؤں کی صورت میں پوری دنیا پر واضح ہو چکی ہیں۔
آپریشن ضرب عضب شروع کیے جانے کے بعد شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرکے بنوں اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں قائم امدادی کیمپوں میں اب تک پہنچنے والے سوا چار لاکھ افراد اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ازبکستان، چیچنیا اور تاجکستان سے آنے والے جنگجوؤں نے عملاً انہیں اور ان کی آبادیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا، قیام امن کی خاطر اپنا گھر بار، فصل، مویشی اور زندگی کا سکون چھوڑ کر آنے والوں کو اس سب کا ذرہ بھر بھی ملال نہیں بلکہ اسے اپنا قومی فرض سمجھ کر اس امید پر یہ بھاری قربانی دینے پرآمادہ نظر آ رہے ہیں کہ ان کے آبائی علاقے اس ناسور سے پاک ہو جائیں گے اور انشاء اللہ وطن عزیز ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنے گا۔
اس اہم تاریخی موقع پر ہم تمام اہلِ وطن کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم پاک فوج اور حکومت پاکستان و صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے لگائے گئے امدادی کیمپوں میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ دامے، درمے سخنے دیں کیونکہ آج اگر ہم سب متحد نہ ہوئے تو دنیا نے تو ہم پر ہنسنا ہی ہے ہمارے لیے شاید کوئی رونے والا بھی نہ بچے۔
آج جبکہ پاک فوج اور پوری قوم اپنی تاریخ کے خطرناک ترین دشمن سے نبردآزما ہے ایسے میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دو ممالک کی شہریت اور سماجی تربیت یافتہ عاقل و بالغ شخص سے یہ توقع رکھنا ہی سمجھ سے بالا ہے کہ وہ غلط وقت پر وطن عزیز پہنچ کر امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کا کوئی قدم اٹھائیں گے۔ البتہ اپنی بعض مجبوریوں کے باعث وہ گزشتہ روز اسلام آباد پہنچنے پر مصر تھے مگر حکومت پاکستان نے انھیں مستقل رہائش گاہ لاہور پہنچا دیا۔
اس دوران پنجاب بھر کے عوام کی زندگی جس طرح مفلوج رہی شاید یہ علامہ طاہرالقادری کی علمی شخصیت سے عقیدت اور احترام کا خراج تھا جو یہاں کے باسیوں کو ہر چھ ماہ یا سال بعد ادا کرنا ہوتا ہے۔ چند روز قبل لاہور میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے بیرئیر ہٹانے کے حکومت پنجاب کے غیر متوقع فیصلے کے بعد منہاج القرآن کے طلبہ و طالبات اور علامہ طاہرالقادری کے چاہنے والوں میں سے تقریباً دس سے بارہ افراد کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑی تو گزشتہ روز اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے اہلکاروں کو محض اس لیے پتھروں، ڈنڈوں، مکوں اور لاتوں کے وار سہنا پڑے کہ وفاقی حکومت نے حکومت پنجاب کے ایک کمزور فیصلے کے منفی نتیجے کا خراج ان پولیس والوں سے ادا کروانے کا ارادہ کر لیا تھا۔
عام آدمی اس ساری صورتحال میں یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہے کہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست بچانا مقصود ہے تو جانوں کے نذرانے ان کے مداحوں کا لبادہ اوڑھے سادہ لوح عوام پیش کریں اور اگر حکومت وقت کی ساکھ بحال کرنا یا اسے بچانا مقصود ہے تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے یونیفارم زیب تن کیے اس قوم کے بیٹے اپنے جسموں پر گہرے اور تکلیف دہ زخم سہیں۔ اقبال کسی کا بھی بلند ہو نقصان عوام کا ہی ہے۔
عام پاکستانی یہ بھی سوچ رہا ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری بلاشبہ اس ملک کے ایک پائے کے عالم ہیں مگر یہ کیا کہ کچھ عرصہ قبل وہ اسلام آباد میں ایک کنٹینر میں ضد لگائے بیٹھ گئے اور اب ایک عالمی شہرت یافتہ ائیر لائن کے جہاز میں ضد لگا کے گھنٹوں بیٹھے رہے، اس دوران عالمی ذرائع ابلاغ پر دنیا ہم پاکستانیوں پر ہنستی رہی۔ بار بار کے اس ضدی عمل سے سنجیدہ حلقوں میں علامہ طاہرالقادری کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی ہے۔
انہیں اگر یہاں سیاست کرنا ہے تو بلاتاخیر اپنی جرابوں کا ایک جوڑا بھی کینیڈا نہ چھوڑ کر آنے کا اعلان کرنے کی بجائے کینیڈین شہریت سے دستبردار ہو جانے کا اعلان کریں۔ پھر یہاں ادارہ منہاج القرآن کی بجائے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو فعال کریں۔ اپنے کسی چاہنے والے سے قومی اسمبلی کی نشست خالی کروا کر الیکشن لڑیں، پارلیمانی سیاست کا حصہ بنیں۔ ایوان میں موجود اپوزیشن کے تمام رہنماؤں میں سے انہیں اپنی ذہانت، فصاحت و بلاغت کے باعث یقیناً نمایاں ترین مقام حاصل ہو گا اور قوم کو بھی یہ اطمینان ہو گا کہ انقلاب اور انقلابی سیاست کی راہ پر چلانے والے ان کے رہنما نے اب اپنا جینا اور مرنا اسی ملک سے منسوب کر لیا ہے۔
علامہ طاہرالقادری اور ان کے چاہنے والوں کو ماضی کے تمام اچھے برے فیصلوں اور اقدامات سے ہٹ کر آئندہ کے لیے ٹھوس سیاسی بنیادوں پر قابل عمل اور زمینی حقائق کے قریب تر فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ عمران خان جیسے مقبول اپوزیشن لیڈر پہلے سے موجود فاصلے سے مزید دور جا کھڑے ہوں گے اور جس روز عمران خان نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کر دیا کہ میرے اور میری پارٹی کے سیاسی خیالات ڈاکٹر طاہرالقادری سے ہرگز نہیں ملتے، میری اور ان کی سیاسی راہیں جدا ہیں۔
اس روز تحقیق و تصنیف کے بہانے ایک بار پھر علامہ طاہرالقادری کو لاہور سے ٹورانٹو کی ٹکٹ کٹوانا پڑ جائے گی مگر اس دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں بار بار کاروبار زندگی مفلوج کرنے، پاکستان کا اقتصادی و معاشی اعتبار سے جو نقصان ہو گا اس کا ذمہ دار کون ہو گا، شاید کوئی ذمہ داری تو قبول نہ کرے مگر منفی اثرات اسی سادہ لوح عوام کو مزید ٹیکسوں، مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں برداشت کرنا ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیراعظم نواز شریف نے البتہ بروقت صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے بجا کہا ہے کہ ہماری توجہ ملک کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں سے نکالنے اور تعمیر و ترقی کا سفر پوری شان و شوکت سے آگے بڑھانے کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے پر مرکوز ہے اور ہم کسی صورت اپنی توجہ اس اہم قومی فریضے سے نہ ہٹائیں گے۔
قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بھی جمہوریت کا سلسلہ جاری رہنے اور رکھے جانے کے قائل ہیں اور اپوزیشن کے مقبول ترین رہنما عمران خان کو بھی ان کی کور کمیٹی یہی بات سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ انہیں جذبات میں آ کر کسی دوہری شہریت رکھنے والے ایسے شخص کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے جبکہ عمران خان پر تو قوم اعتبار ہی اس لیے کرتی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان میں ہی مرنے جینے کی قسمیں کھا چکے ہیں بلکہ وہ دیگر سیاسی رہنماؤں اور کاروباری افراد کے بیرون ملک پڑے اربوں ڈالر پاکستان واپس منگوا کر ملک و قوم کو تعمیر و ترقی کے سفر پر گامزن کرنے کے داعی ہیں۔
پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کا ناسور کب، کیسے اور کہاں سے در آیا، اس بحث کا وقت اب ختم ہو چکا ہے۔
آج پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے فیصلہ کن موڑ پہ کھڑا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیراعظم نواز شریف نے برسراقتدار آتے ہی ملک کو تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے سفر پر گامزن کرنے کا ارادہ کرتے ہی یہ تو بھانپ لیا تھا کہ جب تک دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی صورتحال کو یقینی نہ بنایا جائے گا، پاکستان کو اقتصادی اعتبار سے آگے لے جانا ممکن نہ ہو گا۔
مگر انہوں نے اپنے دھیمے مزاج اور معاملہ فہمی کے باعث دہشت گردی کے گھناؤنے کھیل میں ملوث انتہا پسندوں سے براہ راست ٹکراؤ سے بچنے کی حتمی الامکان کوشش کی اور اپنے اس فیصلے سے قبل ملک کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لیا۔ قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے سے قبل ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کے حکومتی اقدام کو دنیا بھرمیں سراہا گیا مگر بات چیت کا سلسلہ بعض پیچیدگیوں کے باعث آگے نہ بڑھ سکا اور اب وہ پیچیدگیاں غیر ملکی جنگجوؤں کی صورت میں پوری دنیا پر واضح ہو چکی ہیں۔
آپریشن ضرب عضب شروع کیے جانے کے بعد شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرکے بنوں اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں قائم امدادی کیمپوں میں اب تک پہنچنے والے سوا چار لاکھ افراد اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ازبکستان، چیچنیا اور تاجکستان سے آنے والے جنگجوؤں نے عملاً انہیں اور ان کی آبادیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا، قیام امن کی خاطر اپنا گھر بار، فصل، مویشی اور زندگی کا سکون چھوڑ کر آنے والوں کو اس سب کا ذرہ بھر بھی ملال نہیں بلکہ اسے اپنا قومی فرض سمجھ کر اس امید پر یہ بھاری قربانی دینے پرآمادہ نظر آ رہے ہیں کہ ان کے آبائی علاقے اس ناسور سے پاک ہو جائیں گے اور انشاء اللہ وطن عزیز ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنے گا۔
اس اہم تاریخی موقع پر ہم تمام اہلِ وطن کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم پاک فوج اور حکومت پاکستان و صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے لگائے گئے امدادی کیمپوں میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ دامے، درمے سخنے دیں کیونکہ آج اگر ہم سب متحد نہ ہوئے تو دنیا نے تو ہم پر ہنسنا ہی ہے ہمارے لیے شاید کوئی رونے والا بھی نہ بچے۔
آج جبکہ پاک فوج اور پوری قوم اپنی تاریخ کے خطرناک ترین دشمن سے نبردآزما ہے ایسے میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دو ممالک کی شہریت اور سماجی تربیت یافتہ عاقل و بالغ شخص سے یہ توقع رکھنا ہی سمجھ سے بالا ہے کہ وہ غلط وقت پر وطن عزیز پہنچ کر امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کا کوئی قدم اٹھائیں گے۔ البتہ اپنی بعض مجبوریوں کے باعث وہ گزشتہ روز اسلام آباد پہنچنے پر مصر تھے مگر حکومت پاکستان نے انھیں مستقل رہائش گاہ لاہور پہنچا دیا۔
اس دوران پنجاب بھر کے عوام کی زندگی جس طرح مفلوج رہی شاید یہ علامہ طاہرالقادری کی علمی شخصیت سے عقیدت اور احترام کا خراج تھا جو یہاں کے باسیوں کو ہر چھ ماہ یا سال بعد ادا کرنا ہوتا ہے۔ چند روز قبل لاہور میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے بیرئیر ہٹانے کے حکومت پنجاب کے غیر متوقع فیصلے کے بعد منہاج القرآن کے طلبہ و طالبات اور علامہ طاہرالقادری کے چاہنے والوں میں سے تقریباً دس سے بارہ افراد کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑی تو گزشتہ روز اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے اہلکاروں کو محض اس لیے پتھروں، ڈنڈوں، مکوں اور لاتوں کے وار سہنا پڑے کہ وفاقی حکومت نے حکومت پنجاب کے ایک کمزور فیصلے کے منفی نتیجے کا خراج ان پولیس والوں سے ادا کروانے کا ارادہ کر لیا تھا۔
عام آدمی اس ساری صورتحال میں یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہے کہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست بچانا مقصود ہے تو جانوں کے نذرانے ان کے مداحوں کا لبادہ اوڑھے سادہ لوح عوام پیش کریں اور اگر حکومت وقت کی ساکھ بحال کرنا یا اسے بچانا مقصود ہے تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے یونیفارم زیب تن کیے اس قوم کے بیٹے اپنے جسموں پر گہرے اور تکلیف دہ زخم سہیں۔ اقبال کسی کا بھی بلند ہو نقصان عوام کا ہی ہے۔
عام پاکستانی یہ بھی سوچ رہا ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری بلاشبہ اس ملک کے ایک پائے کے عالم ہیں مگر یہ کیا کہ کچھ عرصہ قبل وہ اسلام آباد میں ایک کنٹینر میں ضد لگائے بیٹھ گئے اور اب ایک عالمی شہرت یافتہ ائیر لائن کے جہاز میں ضد لگا کے گھنٹوں بیٹھے رہے، اس دوران عالمی ذرائع ابلاغ پر دنیا ہم پاکستانیوں پر ہنستی رہی۔ بار بار کے اس ضدی عمل سے سنجیدہ حلقوں میں علامہ طاہرالقادری کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی ہے۔
انہیں اگر یہاں سیاست کرنا ہے تو بلاتاخیر اپنی جرابوں کا ایک جوڑا بھی کینیڈا نہ چھوڑ کر آنے کا اعلان کرنے کی بجائے کینیڈین شہریت سے دستبردار ہو جانے کا اعلان کریں۔ پھر یہاں ادارہ منہاج القرآن کی بجائے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو فعال کریں۔ اپنے کسی چاہنے والے سے قومی اسمبلی کی نشست خالی کروا کر الیکشن لڑیں، پارلیمانی سیاست کا حصہ بنیں۔ ایوان میں موجود اپوزیشن کے تمام رہنماؤں میں سے انہیں اپنی ذہانت، فصاحت و بلاغت کے باعث یقیناً نمایاں ترین مقام حاصل ہو گا اور قوم کو بھی یہ اطمینان ہو گا کہ انقلاب اور انقلابی سیاست کی راہ پر چلانے والے ان کے رہنما نے اب اپنا جینا اور مرنا اسی ملک سے منسوب کر لیا ہے۔
علامہ طاہرالقادری اور ان کے چاہنے والوں کو ماضی کے تمام اچھے برے فیصلوں اور اقدامات سے ہٹ کر آئندہ کے لیے ٹھوس سیاسی بنیادوں پر قابل عمل اور زمینی حقائق کے قریب تر فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ عمران خان جیسے مقبول اپوزیشن لیڈر پہلے سے موجود فاصلے سے مزید دور جا کھڑے ہوں گے اور جس روز عمران خان نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کر دیا کہ میرے اور میری پارٹی کے سیاسی خیالات ڈاکٹر طاہرالقادری سے ہرگز نہیں ملتے، میری اور ان کی سیاسی راہیں جدا ہیں۔
اس روز تحقیق و تصنیف کے بہانے ایک بار پھر علامہ طاہرالقادری کو لاہور سے ٹورانٹو کی ٹکٹ کٹوانا پڑ جائے گی مگر اس دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں بار بار کاروبار زندگی مفلوج کرنے، پاکستان کا اقتصادی و معاشی اعتبار سے جو نقصان ہو گا اس کا ذمہ دار کون ہو گا، شاید کوئی ذمہ داری تو قبول نہ کرے مگر منفی اثرات اسی سادہ لوح عوام کو مزید ٹیکسوں، مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں برداشت کرنا ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیراعظم نواز شریف نے البتہ بروقت صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے بجا کہا ہے کہ ہماری توجہ ملک کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں سے نکالنے اور تعمیر و ترقی کا سفر پوری شان و شوکت سے آگے بڑھانے کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے پر مرکوز ہے اور ہم کسی صورت اپنی توجہ اس اہم قومی فریضے سے نہ ہٹائیں گے۔
قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بھی جمہوریت کا سلسلہ جاری رہنے اور رکھے جانے کے قائل ہیں اور اپوزیشن کے مقبول ترین رہنما عمران خان کو بھی ان کی کور کمیٹی یہی بات سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ انہیں جذبات میں آ کر کسی دوہری شہریت رکھنے والے ایسے شخص کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے جبکہ عمران خان پر تو قوم اعتبار ہی اس لیے کرتی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان میں ہی مرنے جینے کی قسمیں کھا چکے ہیں بلکہ وہ دیگر سیاسی رہنماؤں اور کاروباری افراد کے بیرون ملک پڑے اربوں ڈالر پاکستان واپس منگوا کر ملک و قوم کو تعمیر و ترقی کے سفر پر گامزن کرنے کے داعی ہیں۔