لوٹ کر میرا جہاں چھپ گئے ہو تم کہاں
مزے کی بات ہے کہ ہمیں لوٹنے والے ہمارا سب کچھ لوٹ کر بھی خوش نہیں ہیں
کیا لو ٹ کھسوٹ اور دیمک زدہ نظام خود بخود گرتے ہیں یا انھیں گرانے کے لیے ہم میں ہی سے کچھ لوگ آگے بڑھتے ہیں اورگرا دیتے ہیں اس گرا دینے میں وہ اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں حتیٰ کہ اپنی جان تک بھی۔ آیا وہ لوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں جو خاموشی سے ہر ذلت،خواری ،بے عزتی،گالیاں برداشت کرتے رہتے ہیں کہ یہ ہی ہمارا نصیب اور مقدر ہے اورکبھی نہیں اٹھتے اور ایک روز اس کے اپنے اسے اٹھا رہے ہوتے ہیں یا وہ لوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں جو اپنی کسی چیزکی اور اپنوں کی پروانہ کرتے ہوئے باقی لوگوں کو ذلت، توہین اور بے عزتی کی زندگی سے نجات دلوانے کے لیے اپنا سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔
آئیں، دونوں باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روسی شاعر اور فلسفی الیگزینڈ نے کہا تھا '' آپ اس وقت تک لوگوں پر پاور کے حامل ہوسکتے ہیں جب آپ ان سے ہر چیز نہیں چھین لیتے،لیکن جب آپ کسی شخص کو ہر ایک چیز سے محروم کر دیتے ہیں اس کی ہر ایک چیز کو لوٹ لیتے ہیں تب وہ آپ کی پاور میں نہیں رہتا وہ دوبارہ آزاد ہوجاتا ہے''
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم سب دوبارہ آزاد ہو رہے ہیں،کیونکہ ہم سب کی تقریباً تمام کی تمام چیزوں کو لوٹ لیا گیا ہے نہ ہمارے پاس کسی بھی قسم کا کوئی حق ہے نہ روزگار ہے نہ ذاتی گھر ہے اور نہ ہی گاڑی ہے ایک وقت بڑی ہی مشکل سے گھر میں چولہا جلتا ہے، باقی سارا وقت بجھا رہتا ہے نہ سارا دن ساری رات بجلی اور گیس ہوتی ہے اور نہ ہی نلکوں میں پانی آتا ہے نہ ہم کبھی اسکول جاسکے اور نہ ہی ہمارے بچے اسکول جارہے ہیں۔ بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کی عمر عرصہ دراز پہلے غربت اور افلاس کی وجہ سے آکر نجانے کہاں چلی گئی ہے کہ اب ڈھونڈ ے سے بھی نہیں ملتی ہے، ووٹ دے دے کر تھک گئے لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ ہی ہمارے حالات بدلے اور اگر کچھ بدلا تو ان کے حالات بدلے جنھیں ہم نے ووٹ دیے تھے جو اپنے حالات بدل کر نجانے کہاں جا کر چھپ گئے ہیں۔
مزے کی بات ہے کہ ہمیں لوٹنے والے ہمارا سب کچھ لوٹ کر بھی خوش نہیں ہیں ہم تو اس لیے خوش نہیں ہیں کہ ہمارے پاس تو خوش ہونے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے وہ جو اب ہماری سب چیزوں کے مالک بن گئے ہیں وہ ہم سے زیادہ اداس، غمگین اور فکر مند ہیں سمجھ میں نہیں آتا وہ خوش کیوں نہیں ہیں، ہمارے پاس اب تو باقی ایسا کچھ نہیں بچا ہے جسے لوٹ لینے کی فکر میں وہ گھلے جارہے ہوں اب ہمارے پاس تو لوٹے جانے کے لیے صرف غربت، افلاس، بھوک، ذلتیں،گالیاں اور دھکے باقی بچے ہیں جنھیں دیکھ کر جن، بھوت اور چڑیلیں بھاگ جاتی ہیں انسانوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
ہاں یاد آیا ایک اور چیز ابھی تک ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہے ہماری یہ سوچ کہ کیا خدا اور اس کا نظام انصاف ناکام ہوچکے ہیں؟ کیا خدا نے ہماری طرف توجہ دینا ہی بند کردی ہے؟ کیا ہم خدا کے نا پسندیدہ ترین بندے بن گئے ہیں؟ آخر ہمارے نصیب بدلتے کیوں نہیں ہیں؟ دنیا بھرکی تمام ذلتیں ہماری قسمت میں کیوں لکھ دی گئی ہیں؟ اگر یہ باقی بچی چیز لوٹ سکتے ہوتو اسے بھی لوٹ لو۔ لیکن یاد رکھنا تم اس سے زیادہ ہمیں غمگین نہیں کرسکو گے جتنے کہ ابھی ہم ہیں۔
ماہر نفسیات ہال اربن لکھتا ہے ''جب میں کالج میں پڑھتا تھا ایک بارمیری ایک کلاس میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے زندگی کو مختلف انداز میں دیکھنے کے قابل بنا دیا، میں نے یونیورسٹی آف سان فرانسیسکو میں داخلہ لیا جوکہ ایک جیسوٹ (Jesuit) تعلیمی ادارہ تھا اور ہر سمسٹر میں فلسفہ کا مضمون لینا لازمی تھا ''جیسوٹ '' جوکہ کیتھولک پادریوں کا ایک عالمانہ فرقہ ہے اور وہ فلسفے کے زبردست ماہر ہوتے ہیں، ہمارے جیسوٹ اساتذہ نے ہمیں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے دنیا میں جانے سے پہلے وہ ہمیں سوچنا سکھا دیں، انھوں نے ایسا ہی کیا ہمیں روزانہ خداوند، زندگی، دینا اور اس میں ہمارے مقام کے بارے میں سوچنے کا چیلنج دیا جاتا تھا۔
ہم پر لازم تھا کہ زندگی کے معنیٰ اور ہمارے وجود کے اسباب پر مقالے لکھیں ہم حق و باطل اور خیر و شر کے حوالے سے مباحثے بھی کیا کرتے تھے گو کہ یہ موضوعات بہت بوجھل تھے، اس کے باوجود ان پر مباحثے کر نے اور مقالے لکھنے سے ہماری خوب تربیت ہوئی اور ہم نے حقیقت میں سوچنا سیکھا، ایک روز ہم خدا کے وجود پر مباحثہ کر رہے تھے جب کا فی دیر ہوگئی تو میرے ایک ہم جماعت نے استاد سے سوال کیا ''اگر خدا بہت اچھا اور بہت طاقتور ہے تو پھر ہماری زندگیوں میں دکھ کیوں ہوتے ہیں؟ اس نے ہمیں ہمیشہ کے لیے صحت مند اور مسرورکیوں نہیں بنایا ؟ ایسا لگتا تھا کہ ہمارا استاد اس سوال کا منتظر تھا، میں اس کے جواب کوکبھی نہیں بھلا پائوں گا۔ اس نے کہا '' اگر خدا ہمیں اس طرح سے بناتا تو ہم محض کٹھ پتلیاں ہوتے، وہ رسیاں کھینچتا رہتا اور ہمارے پاس کوئی اختیار ہی نہ ہوتا۔
یہ سچ ہے کہ ہمیں دکھ اور تکلیفیں کبھی نہ سہنی پڑتیں لیکن ان کے بغیر ہم زندگی کی حقیقی مسرتوں اور فتوحات سے بھی کبھی واقف نہ ہوتے۔ ہمیں اپنے لیے کوئی معنٰی یا مقصد ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہوتی ہم شعور سے عاری روبوٹوں کے سوا کچھ نہ ہوتے۔ تاہم خدا اس سے کہیں بہترکرنے پر قادر ہے، اس نے ہمیں آزاد ارادے کے ساتھ تخلیق کیا اس نے ہمیں زندگی دی اور پھر ہمیں خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی کہ ہم اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اس نے ہمیں اپنا راستہ خود منتخب کرنے کی صلاحیت دی۔''
ڈاکٹروکٹر فرینکل کہتے ہیں کہ ''ہم حالات کے مارے ہوئے بھی بن سکتے ہیں اور ہم ان کو فتح بھی کرسکتے ہیں ۔ ہم اپنے رحجان کا خود انتخاب کرتے ہیں ہم جوکچھ بنتے ہیں وہ ایک داخلی فیصلے کا نتیجہ ہوتا ہے'' ذہن میں رہے دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف نہیں کرتی ہے اور نہ ہی وہ ہماری ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق ڈھلتی ہے، یہ ہمارے ہی فیصلے ہوتے ہیں کہ ہم ساری زندگی خوش رہیں گے یا غمگین۔ دنیا ہر وقت لٹیروں سے بھری رہتی ہے، جو ہر وقت آپ کو لوٹنے کی پلاننگ کررہے ہوتے ہیں آپ پر یہ منحصر ہے کہ آپ انھیں خود کو لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، اگر آپ انھیں لوٹ لینے کی اجازت دے چکے ہیں تو پھر آپ کا چیخنا چلانا، رونا دھونا سب بے معنیٰ ہے اس لیے آپ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب خود آپ کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے ، اس لیے خدارا چیخنا چلانا بند کر دیجیے اور اگرکوئی چیز ابھی بھی آپ کے پاس لٹنے سے بچ گئی ہے تو وہ بھی لٹیروں کے حوالے کردیجیے، تاکہ انھیں سکون حاصل ہوسکے۔
آئیں، دونوں باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روسی شاعر اور فلسفی الیگزینڈ نے کہا تھا '' آپ اس وقت تک لوگوں پر پاور کے حامل ہوسکتے ہیں جب آپ ان سے ہر چیز نہیں چھین لیتے،لیکن جب آپ کسی شخص کو ہر ایک چیز سے محروم کر دیتے ہیں اس کی ہر ایک چیز کو لوٹ لیتے ہیں تب وہ آپ کی پاور میں نہیں رہتا وہ دوبارہ آزاد ہوجاتا ہے''
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم سب دوبارہ آزاد ہو رہے ہیں،کیونکہ ہم سب کی تقریباً تمام کی تمام چیزوں کو لوٹ لیا گیا ہے نہ ہمارے پاس کسی بھی قسم کا کوئی حق ہے نہ روزگار ہے نہ ذاتی گھر ہے اور نہ ہی گاڑی ہے ایک وقت بڑی ہی مشکل سے گھر میں چولہا جلتا ہے، باقی سارا وقت بجھا رہتا ہے نہ سارا دن ساری رات بجلی اور گیس ہوتی ہے اور نہ ہی نلکوں میں پانی آتا ہے نہ ہم کبھی اسکول جاسکے اور نہ ہی ہمارے بچے اسکول جارہے ہیں۔ بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کی عمر عرصہ دراز پہلے غربت اور افلاس کی وجہ سے آکر نجانے کہاں چلی گئی ہے کہ اب ڈھونڈ ے سے بھی نہیں ملتی ہے، ووٹ دے دے کر تھک گئے لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ ہی ہمارے حالات بدلے اور اگر کچھ بدلا تو ان کے حالات بدلے جنھیں ہم نے ووٹ دیے تھے جو اپنے حالات بدل کر نجانے کہاں جا کر چھپ گئے ہیں۔
مزے کی بات ہے کہ ہمیں لوٹنے والے ہمارا سب کچھ لوٹ کر بھی خوش نہیں ہیں ہم تو اس لیے خوش نہیں ہیں کہ ہمارے پاس تو خوش ہونے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے وہ جو اب ہماری سب چیزوں کے مالک بن گئے ہیں وہ ہم سے زیادہ اداس، غمگین اور فکر مند ہیں سمجھ میں نہیں آتا وہ خوش کیوں نہیں ہیں، ہمارے پاس اب تو باقی ایسا کچھ نہیں بچا ہے جسے لوٹ لینے کی فکر میں وہ گھلے جارہے ہوں اب ہمارے پاس تو لوٹے جانے کے لیے صرف غربت، افلاس، بھوک، ذلتیں،گالیاں اور دھکے باقی بچے ہیں جنھیں دیکھ کر جن، بھوت اور چڑیلیں بھاگ جاتی ہیں انسانوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
ہاں یاد آیا ایک اور چیز ابھی تک ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہے ہماری یہ سوچ کہ کیا خدا اور اس کا نظام انصاف ناکام ہوچکے ہیں؟ کیا خدا نے ہماری طرف توجہ دینا ہی بند کردی ہے؟ کیا ہم خدا کے نا پسندیدہ ترین بندے بن گئے ہیں؟ آخر ہمارے نصیب بدلتے کیوں نہیں ہیں؟ دنیا بھرکی تمام ذلتیں ہماری قسمت میں کیوں لکھ دی گئی ہیں؟ اگر یہ باقی بچی چیز لوٹ سکتے ہوتو اسے بھی لوٹ لو۔ لیکن یاد رکھنا تم اس سے زیادہ ہمیں غمگین نہیں کرسکو گے جتنے کہ ابھی ہم ہیں۔
ماہر نفسیات ہال اربن لکھتا ہے ''جب میں کالج میں پڑھتا تھا ایک بارمیری ایک کلاس میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے زندگی کو مختلف انداز میں دیکھنے کے قابل بنا دیا، میں نے یونیورسٹی آف سان فرانسیسکو میں داخلہ لیا جوکہ ایک جیسوٹ (Jesuit) تعلیمی ادارہ تھا اور ہر سمسٹر میں فلسفہ کا مضمون لینا لازمی تھا ''جیسوٹ '' جوکہ کیتھولک پادریوں کا ایک عالمانہ فرقہ ہے اور وہ فلسفے کے زبردست ماہر ہوتے ہیں، ہمارے جیسوٹ اساتذہ نے ہمیں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے دنیا میں جانے سے پہلے وہ ہمیں سوچنا سکھا دیں، انھوں نے ایسا ہی کیا ہمیں روزانہ خداوند، زندگی، دینا اور اس میں ہمارے مقام کے بارے میں سوچنے کا چیلنج دیا جاتا تھا۔
ہم پر لازم تھا کہ زندگی کے معنیٰ اور ہمارے وجود کے اسباب پر مقالے لکھیں ہم حق و باطل اور خیر و شر کے حوالے سے مباحثے بھی کیا کرتے تھے گو کہ یہ موضوعات بہت بوجھل تھے، اس کے باوجود ان پر مباحثے کر نے اور مقالے لکھنے سے ہماری خوب تربیت ہوئی اور ہم نے حقیقت میں سوچنا سیکھا، ایک روز ہم خدا کے وجود پر مباحثہ کر رہے تھے جب کا فی دیر ہوگئی تو میرے ایک ہم جماعت نے استاد سے سوال کیا ''اگر خدا بہت اچھا اور بہت طاقتور ہے تو پھر ہماری زندگیوں میں دکھ کیوں ہوتے ہیں؟ اس نے ہمیں ہمیشہ کے لیے صحت مند اور مسرورکیوں نہیں بنایا ؟ ایسا لگتا تھا کہ ہمارا استاد اس سوال کا منتظر تھا، میں اس کے جواب کوکبھی نہیں بھلا پائوں گا۔ اس نے کہا '' اگر خدا ہمیں اس طرح سے بناتا تو ہم محض کٹھ پتلیاں ہوتے، وہ رسیاں کھینچتا رہتا اور ہمارے پاس کوئی اختیار ہی نہ ہوتا۔
یہ سچ ہے کہ ہمیں دکھ اور تکلیفیں کبھی نہ سہنی پڑتیں لیکن ان کے بغیر ہم زندگی کی حقیقی مسرتوں اور فتوحات سے بھی کبھی واقف نہ ہوتے۔ ہمیں اپنے لیے کوئی معنٰی یا مقصد ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہوتی ہم شعور سے عاری روبوٹوں کے سوا کچھ نہ ہوتے۔ تاہم خدا اس سے کہیں بہترکرنے پر قادر ہے، اس نے ہمیں آزاد ارادے کے ساتھ تخلیق کیا اس نے ہمیں زندگی دی اور پھر ہمیں خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی کہ ہم اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اس نے ہمیں اپنا راستہ خود منتخب کرنے کی صلاحیت دی۔''
ڈاکٹروکٹر فرینکل کہتے ہیں کہ ''ہم حالات کے مارے ہوئے بھی بن سکتے ہیں اور ہم ان کو فتح بھی کرسکتے ہیں ۔ ہم اپنے رحجان کا خود انتخاب کرتے ہیں ہم جوکچھ بنتے ہیں وہ ایک داخلی فیصلے کا نتیجہ ہوتا ہے'' ذہن میں رہے دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف نہیں کرتی ہے اور نہ ہی وہ ہماری ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق ڈھلتی ہے، یہ ہمارے ہی فیصلے ہوتے ہیں کہ ہم ساری زندگی خوش رہیں گے یا غمگین۔ دنیا ہر وقت لٹیروں سے بھری رہتی ہے، جو ہر وقت آپ کو لوٹنے کی پلاننگ کررہے ہوتے ہیں آپ پر یہ منحصر ہے کہ آپ انھیں خود کو لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، اگر آپ انھیں لوٹ لینے کی اجازت دے چکے ہیں تو پھر آپ کا چیخنا چلانا، رونا دھونا سب بے معنیٰ ہے اس لیے آپ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب خود آپ کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے ، اس لیے خدارا چیخنا چلانا بند کر دیجیے اور اگرکوئی چیز ابھی بھی آپ کے پاس لٹنے سے بچ گئی ہے تو وہ بھی لٹیروں کے حوالے کردیجیے، تاکہ انھیں سکون حاصل ہوسکے۔