پاک بھارت تعلقات کے امکانات
بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی بہتری ہماری ضرورت کم اور پاکستان کی زیادہ ہے۔
بھارت کے حالیہ انتخابات میں نریندر مودی ایک بار پھر وزیراعظم کے منصب پر بیٹھ گئے ہیں۔ وہ واقعی خوش قسمت ہیں کہ ان کی عملی سیاست یا اقتدار کے کھیل نے ان کو تیسری بار اس منصب تک پہنچایا ہے۔ اگرچہ اس بار اقتدار ان کو ماضی کے مقابلے میں کمزور اور مفلوج حیثیت کی بنیاد پر ملا ہے اور وہ طاقتور وزیراعظم نہیں بلکہ ایک کمزور اور اتحادیوں کے سہارے میں کھڑے وزیراعظم ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہی ہے کہ کیا اس بار نریندر مودی کی حکومت ''پاک بھارت تعلقات'' کی بہتری میں کوئی غیرمعمولی عمل کا مظاہرہ کرے گی یا مودی حکومت پہلے سے موجود پاکستان مخالف پالیسی کو ہی بنیاد بنا کرآگے بڑھے گی۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے باوجود پاک بھارت تعلقات میں کوئی بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔ بنیادی وجہ پہلے سے موجود ایک دوسرے پر عدم اعتمادکی کمی ہے۔
پچھلے کچھ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑا ڈیڈلاک ہے اور بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی بہتری ہماری ضرورت کم اور پاکستان کی زیادہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ بھارتی دانشور جو پاکستان مخالف سوچ رکھتے ہیں ان کے بقول بھارت میں اس وقت موجود طاقت کے مراکز میں یہ سوچ مضبوط ہے کہ پاکستان سے بہتر تعلقات ہمارے سیاسی اور معاشی مفاد میں نہیں اور یہ ہی سوچ اس وقت ہمیں بھارت کی حکومت میںبھی بالادست نظر آتی ہے۔
پاکستان اس وقت بھارت سے بہتر تعلقات کی بنیاد پر ایک طرف دہلی کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف اس کی نظریں عالمی قوتوں خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور چین پر ہیں کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر یا ثالثی کا کردار ادا کرکے تیسرے فریق کے طور پر دونوں ممالک میں نہ صرف موجود ڈیڈلاک کو توڑے گا بلکہ بہتر تعلقات کی بحالی میں کلیدی سہولت کاری بھی کرے گا۔
ویسے اس وقت جو بھارت ہے اس کا اگر ہم داخلی سیاست کا تجزیہ کریں تو اس میں کہیں بھی پاک بھارت تعلقات کا ایجنڈا سرفہرست نہیں۔ نریندر مودی کے سیاسی مخالفین کو بھی جو مودی مخالف ووٹ ملا ہے وہ ان کی داخلی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں نے یکجا ہوکر مودی مخالفت میں ووٹ دیا ہے تو وہ بھی ان کی داخلی سیاست سے جڑا ہوا نقطہ ہے۔ نریندر مودی کے مخالفین نے کہیں بھی انتخابی مہم میں پاکستان سے تعلقات کی بہتری کا کوئی پیغام نہیں دیا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں نریندر مودی کی کمزور حکومت ان کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اس بار پاکستان سے تعلقات کی بہتری میں کوئی بڑا کردار ادا کریں گے لیکن ایسے لگتا ہے کہ جب نریندر مودی کا مینڈیٹ کم اور کمزور ہے توو ہ اعتدال کے بجائے ہندواتہ پر مبنی کارڈ کو اور زیادہ شدت سے کھیلنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ ہندواتہ پر مبنی ووٹرز کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرسکیں کیونکہ اگر وہ ہندواتہ یا پاکستان کے خلاف منفی مہم سے باہر نکلتے ہیں تو ان کو اپنے ہی انتہا پسند ووٹرز اور آر ایس ایس کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
اس لیے نریندر مودی کی خواہش ہوگی کہ وہ مذہب یا ہندواتہ یا پاکستان مخالف کارڈ کو بطور سیاسی ہتھیار اپنی حمایت کو بحال کرنے میں خرچ کریں اس لیے اس کا بھی امکان ہے کہ بھارت کی کانگریس اور ان کی اتحادی حزب اختلاف بھی نریندر مودی کی داخلی سیاست کو چیلنج کریں گی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری بارے میں ان کا ایجنڈا پرجوش نہیں ہو گا۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان پر نہ صرف دباؤ کی پالیسی بھی جاری رہے گی اور مذاکرات میں جو تعطل ہے، اس میں بھی کوئی بڑا بریک تھرو ممکن نظر نہیں آرہا۔ بھارت کی کوشش ہو گی کہ پاکستان کو اپنی عالمی اور علاقائی خارجہ پالیسی کی بنا پر مزید تنہا کیا جائے اور نہ صرف پاکستان کے داخلی مسائل سے فائدہ اٹھایا جائے بلکہ ان کو الجھایا جائے جن میں بلوچستان کے حالات بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں جو علیحدگی پسند ہیں ان کی حمایت کو جاری رکھنا بھی ان کے مفاد میں ہوگا۔
پاکستان کے سابق وزیرخارجہ میاں خورشید محمود قصوری جو پاک بھارت تعلقات سمیت علاقائی اور عالمی معاملات پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ ان کو ان معاملات پر انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی تناظر میں وہ ایک اہم کتاب Neither a Hawk Nor a Dove جیسی مشہور کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ ان کی یہ کتاب دونوں ممالک کے علمی اور فکری حلقوں میں کافی مقبول بھی ہوئی اور اس کو پسند بھی کیا گیا۔ ان کے بقول پاک بھارت تعلقات میں فوری بریک تھرو ہونا ممکن نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی کوئی بڑی توقع رکھنی چاہیے کیونکہ اس کے لیے پہلے دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے لیے اعتماد کے ماحول کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے کچھ اقدامات کرنے ہونگے۔
اگرچہ نریندر مودی کو وہ کامیابی نہیں مل سکی جو وہ توقع کر رہے تھے اور اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بات اب طے ہے کہ ان کو اپنے اتحادیوں پر زیادہ بھروسہ کرنا ہوگا لیکن اس کے باوجود ہم امکانات کے عمل کو مسترد نہیں کر سکتے۔ بھارت میں اب ایک مضبوط حزب اختلاف ہے اور یقینا ان کا دباؤ مودی حکومت پر پہلے سے زیادہ ہوگا۔ اس لیے نئی مودی حکومت پر اتحادیوں سے زیادہ حزب اختلاف کا دباؤ بڑھ سکتا ہے لیکن یہ جو سوچ ہے کہ نریندر مودی بری طرح ہار گئے ہیں مکمل سچ نہیں کیونکہ جہاں بی جے پی کو اکثریت ملی ہے وہیں ان کے اتحادیوں کی بھی جیت ہوئی ہے اور ان کے اتحادی ابھی بھی ان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔
یہ درست ہے کہ مودی کی حکومت کمزور ہوگی مگر مودی کی سیاسی طاقت کم نہیں ہوئی ہے البتہ اس بار ان کی تن تنہا انتہاپسندی اور ہندواتہ کی سیاست کو وہ برتری نہیں ملے گی جو پہلے ان کو حاصل تھی البتہ مودی کی دوتہائی اکثریت یا سادہ اکثریت نہ ملنے کے بعد سیکولر بھارت کے ایجنڈے کو برتری ملی ہے کیونکہ بھارت کا سیکولر ایجنڈا بھارت میں موجود اقلیتوں بشمول مسلم کے لیے ایک بڑے تحفظ کا سبب بنتا ہے جو برابری کی بنیاد پر اقلیتوں کو تحفظ بھی دیتا ہے۔ خورشید قصوری کے بقول پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں تعلقات کے تناظر میں ایک مائنڈسیٹ موجود ہے جو ایک دوسرے کو قریب نہیں آنے دیتا۔ خود پاکستان میں جب بھی کوئی جماعت چاہے وہ پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ ن یا پی ٹی آئی سب ہی اقتدار میں آکر بھارت سے بہتر تعلقات کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں عملاً تعلقات بہتر ہوں لیکن جب یہ ہی جماعتیں حزب اختلاف کی سیاست میں ہوتی ہیں تو حکومت پر بھارت کی حمایت کا الزام لگا کر سیاسی ماحول کو خراب کرتی ہیں۔
اسی طرح بھارت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ ہیں اور عملی طور پر تعلقات کی بہتری کے ہر اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کو غیراہم اور بلاوجہ پر مبنی عدم اعتماد کے ماحول سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے جڑے اہم ایشوز پر بات چیت کا ماحول پیدا کریں اور بات چیت کے پروسیس کو آگے بڑھائیں، یہ ہی خطے کی عملی سیاست کے مفاد میں ہے لیکن خورشید محمود قصوری کہتے ہیں اگرپاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے تو اسے پہلے اپنے داخلی معاملات میں بہتری لانی ہوگی اور سیاسی و معاشی استحکام اور سیکیورٹی کے حالات کو بہتر بنائے ہم ڈائیلاگ میں نہ تو بہتر پوزیشن میں ہو سکتے ہیں اور نہ ہی بھارت مزاکرات یا تعلقات کی بحالی کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوگا۔ اس لیے پہلی ترجیح ہمارا داخلی استحکام اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم پاک بھارت تعلقات کی بحث کو آگے اور نتیجہ خیز بناسکتے ہیں۔
خورشید قصوری نے اصولی طور پر بجا فرمایا کہ ہم ایک کمزور ریاستی، سیاسی، جمہوری اور معاشی نظام میں بھارت کے ساتھ بات چیت کے عمل کی خواہش میں کوئی بڑی کامیابی یا بریک تھرو نہیں کرسکیں گے یا دیکھ سکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر سیاسی معاشی ڈپلومیسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ اس سیاسی او رمعاشی ڈپلومیسی کو استحکام بھی داخلی مضبوطی سے ملے گا کیونکہ اس وقت ہمارا داخلی سیاسی و معاشی نظام جن حالات سے دوچار ہیں یا اس کے نتیجہ میں جو ایک بڑی سیاسی تقسیم ہمیں سیاست اور غیرسیاسی یا ریاستی قوتوں میں نظر آتی ہے اس کا علاج تلاش کیے بغیر ہم پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی بحث کو آگے نہیں بڑھا سکیں گے کیونکہ داخلی سیاسی و معاشی استحکام کو لائے بغیر علاقائی تعلقات میں بہتری کی باتیں کمزور دلیل کی عکاسی کرتی ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہی ہے کہ کیا اس بار نریندر مودی کی حکومت ''پاک بھارت تعلقات'' کی بہتری میں کوئی غیرمعمولی عمل کا مظاہرہ کرے گی یا مودی حکومت پہلے سے موجود پاکستان مخالف پالیسی کو ہی بنیاد بنا کرآگے بڑھے گی۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے باوجود پاک بھارت تعلقات میں کوئی بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔ بنیادی وجہ پہلے سے موجود ایک دوسرے پر عدم اعتمادکی کمی ہے۔
پچھلے کچھ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑا ڈیڈلاک ہے اور بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی بہتری ہماری ضرورت کم اور پاکستان کی زیادہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ بھارتی دانشور جو پاکستان مخالف سوچ رکھتے ہیں ان کے بقول بھارت میں اس وقت موجود طاقت کے مراکز میں یہ سوچ مضبوط ہے کہ پاکستان سے بہتر تعلقات ہمارے سیاسی اور معاشی مفاد میں نہیں اور یہ ہی سوچ اس وقت ہمیں بھارت کی حکومت میںبھی بالادست نظر آتی ہے۔
پاکستان اس وقت بھارت سے بہتر تعلقات کی بنیاد پر ایک طرف دہلی کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف اس کی نظریں عالمی قوتوں خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور چین پر ہیں کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر یا ثالثی کا کردار ادا کرکے تیسرے فریق کے طور پر دونوں ممالک میں نہ صرف موجود ڈیڈلاک کو توڑے گا بلکہ بہتر تعلقات کی بحالی میں کلیدی سہولت کاری بھی کرے گا۔
ویسے اس وقت جو بھارت ہے اس کا اگر ہم داخلی سیاست کا تجزیہ کریں تو اس میں کہیں بھی پاک بھارت تعلقات کا ایجنڈا سرفہرست نہیں۔ نریندر مودی کے سیاسی مخالفین کو بھی جو مودی مخالف ووٹ ملا ہے وہ ان کی داخلی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں نے یکجا ہوکر مودی مخالفت میں ووٹ دیا ہے تو وہ بھی ان کی داخلی سیاست سے جڑا ہوا نقطہ ہے۔ نریندر مودی کے مخالفین نے کہیں بھی انتخابی مہم میں پاکستان سے تعلقات کی بہتری کا کوئی پیغام نہیں دیا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں نریندر مودی کی کمزور حکومت ان کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اس بار پاکستان سے تعلقات کی بہتری میں کوئی بڑا کردار ادا کریں گے لیکن ایسے لگتا ہے کہ جب نریندر مودی کا مینڈیٹ کم اور کمزور ہے توو ہ اعتدال کے بجائے ہندواتہ پر مبنی کارڈ کو اور زیادہ شدت سے کھیلنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ ہندواتہ پر مبنی ووٹرز کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرسکیں کیونکہ اگر وہ ہندواتہ یا پاکستان کے خلاف منفی مہم سے باہر نکلتے ہیں تو ان کو اپنے ہی انتہا پسند ووٹرز اور آر ایس ایس کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
اس لیے نریندر مودی کی خواہش ہوگی کہ وہ مذہب یا ہندواتہ یا پاکستان مخالف کارڈ کو بطور سیاسی ہتھیار اپنی حمایت کو بحال کرنے میں خرچ کریں اس لیے اس کا بھی امکان ہے کہ بھارت کی کانگریس اور ان کی اتحادی حزب اختلاف بھی نریندر مودی کی داخلی سیاست کو چیلنج کریں گی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری بارے میں ان کا ایجنڈا پرجوش نہیں ہو گا۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان پر نہ صرف دباؤ کی پالیسی بھی جاری رہے گی اور مذاکرات میں جو تعطل ہے، اس میں بھی کوئی بڑا بریک تھرو ممکن نظر نہیں آرہا۔ بھارت کی کوشش ہو گی کہ پاکستان کو اپنی عالمی اور علاقائی خارجہ پالیسی کی بنا پر مزید تنہا کیا جائے اور نہ صرف پاکستان کے داخلی مسائل سے فائدہ اٹھایا جائے بلکہ ان کو الجھایا جائے جن میں بلوچستان کے حالات بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں جو علیحدگی پسند ہیں ان کی حمایت کو جاری رکھنا بھی ان کے مفاد میں ہوگا۔
پاکستان کے سابق وزیرخارجہ میاں خورشید محمود قصوری جو پاک بھارت تعلقات سمیت علاقائی اور عالمی معاملات پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ ان کو ان معاملات پر انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی تناظر میں وہ ایک اہم کتاب Neither a Hawk Nor a Dove جیسی مشہور کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ ان کی یہ کتاب دونوں ممالک کے علمی اور فکری حلقوں میں کافی مقبول بھی ہوئی اور اس کو پسند بھی کیا گیا۔ ان کے بقول پاک بھارت تعلقات میں فوری بریک تھرو ہونا ممکن نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی کوئی بڑی توقع رکھنی چاہیے کیونکہ اس کے لیے پہلے دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے لیے اعتماد کے ماحول کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے کچھ اقدامات کرنے ہونگے۔
اگرچہ نریندر مودی کو وہ کامیابی نہیں مل سکی جو وہ توقع کر رہے تھے اور اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بات اب طے ہے کہ ان کو اپنے اتحادیوں پر زیادہ بھروسہ کرنا ہوگا لیکن اس کے باوجود ہم امکانات کے عمل کو مسترد نہیں کر سکتے۔ بھارت میں اب ایک مضبوط حزب اختلاف ہے اور یقینا ان کا دباؤ مودی حکومت پر پہلے سے زیادہ ہوگا۔ اس لیے نئی مودی حکومت پر اتحادیوں سے زیادہ حزب اختلاف کا دباؤ بڑھ سکتا ہے لیکن یہ جو سوچ ہے کہ نریندر مودی بری طرح ہار گئے ہیں مکمل سچ نہیں کیونکہ جہاں بی جے پی کو اکثریت ملی ہے وہیں ان کے اتحادیوں کی بھی جیت ہوئی ہے اور ان کے اتحادی ابھی بھی ان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔
یہ درست ہے کہ مودی کی حکومت کمزور ہوگی مگر مودی کی سیاسی طاقت کم نہیں ہوئی ہے البتہ اس بار ان کی تن تنہا انتہاپسندی اور ہندواتہ کی سیاست کو وہ برتری نہیں ملے گی جو پہلے ان کو حاصل تھی البتہ مودی کی دوتہائی اکثریت یا سادہ اکثریت نہ ملنے کے بعد سیکولر بھارت کے ایجنڈے کو برتری ملی ہے کیونکہ بھارت کا سیکولر ایجنڈا بھارت میں موجود اقلیتوں بشمول مسلم کے لیے ایک بڑے تحفظ کا سبب بنتا ہے جو برابری کی بنیاد پر اقلیتوں کو تحفظ بھی دیتا ہے۔ خورشید قصوری کے بقول پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں تعلقات کے تناظر میں ایک مائنڈسیٹ موجود ہے جو ایک دوسرے کو قریب نہیں آنے دیتا۔ خود پاکستان میں جب بھی کوئی جماعت چاہے وہ پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ ن یا پی ٹی آئی سب ہی اقتدار میں آکر بھارت سے بہتر تعلقات کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں عملاً تعلقات بہتر ہوں لیکن جب یہ ہی جماعتیں حزب اختلاف کی سیاست میں ہوتی ہیں تو حکومت پر بھارت کی حمایت کا الزام لگا کر سیاسی ماحول کو خراب کرتی ہیں۔
اسی طرح بھارت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ ہیں اور عملی طور پر تعلقات کی بہتری کے ہر اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کو غیراہم اور بلاوجہ پر مبنی عدم اعتماد کے ماحول سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے جڑے اہم ایشوز پر بات چیت کا ماحول پیدا کریں اور بات چیت کے پروسیس کو آگے بڑھائیں، یہ ہی خطے کی عملی سیاست کے مفاد میں ہے لیکن خورشید محمود قصوری کہتے ہیں اگرپاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے تو اسے پہلے اپنے داخلی معاملات میں بہتری لانی ہوگی اور سیاسی و معاشی استحکام اور سیکیورٹی کے حالات کو بہتر بنائے ہم ڈائیلاگ میں نہ تو بہتر پوزیشن میں ہو سکتے ہیں اور نہ ہی بھارت مزاکرات یا تعلقات کی بحالی کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوگا۔ اس لیے پہلی ترجیح ہمارا داخلی استحکام اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم پاک بھارت تعلقات کی بحث کو آگے اور نتیجہ خیز بناسکتے ہیں۔
خورشید قصوری نے اصولی طور پر بجا فرمایا کہ ہم ایک کمزور ریاستی، سیاسی، جمہوری اور معاشی نظام میں بھارت کے ساتھ بات چیت کے عمل کی خواہش میں کوئی بڑی کامیابی یا بریک تھرو نہیں کرسکیں گے یا دیکھ سکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر سیاسی معاشی ڈپلومیسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ اس سیاسی او رمعاشی ڈپلومیسی کو استحکام بھی داخلی مضبوطی سے ملے گا کیونکہ اس وقت ہمارا داخلی سیاسی و معاشی نظام جن حالات سے دوچار ہیں یا اس کے نتیجہ میں جو ایک بڑی سیاسی تقسیم ہمیں سیاست اور غیرسیاسی یا ریاستی قوتوں میں نظر آتی ہے اس کا علاج تلاش کیے بغیر ہم پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی بحث کو آگے نہیں بڑھا سکیں گے کیونکہ داخلی سیاسی و معاشی استحکام کو لائے بغیر علاقائی تعلقات میں بہتری کی باتیں کمزور دلیل کی عکاسی کرتی ہیں۔