سانحہ ماڈل ٹائون پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی سے رونما ہوا
رانا ثناء اللہ کوعہدے سے ہٹانا ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب سانحہ لاہور کے بعد شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہوگئے تھے
پیپلزپارٹی کو حکومت نہیں کرنی آتی جب کہ مسلم لیگ (ن) کو سیاست نہیں کرنی آتی، یہ نتیجہ ہم نے برسوں پہلے اخذ کر لیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سیاست بھی ایسے کرتی ہے جیسے کوئی کاروباری ادارہ چلایا جارہا ہو۔
کاروباری ادارے چلانے والے بعض اوقات صرف اپنے نمبر ٹانگنے یا دوسرے ملازموں کوخوفزدہ کرنے کے لئے بغیر قصور کے بھی کسی افسر کو معطل یا ڈس مس کردیتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کو ہی دیکھ لیں۔کیا وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو افراتفری کے عالم میں اپنے آزمودہ ساتھیوں کو رسوا کرنا چاہیے تھا؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن پردل خون کے آنسو روتا ہے۔ بے گناہ انسانوں کو قتل کیا گیا اس کی کوئی صاحب دل انسان حمایت نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ریاستیں اور حکومتیں انسان نہیں ہوتے وہ جو قدم اٹھاتی ہیں۔
اس کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر اٹھاتی ہیں۔ پنجاب حکومت نے طاہر القادری کی رہائشگاہ سے تجاوزات ہٹانے کے لئے آپریشن کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے نتائج کو بھی سامنے رکھنا چاہیئے تھا۔
وہاں جو سانحہ رونما ہوا اس پر وزیراعلی پنجاب نے فوری طور پر موقف جاری کیا کہ انہوں نے گولی چلانے کا حکم نہیں دیا حالانکہ انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے صرف اپنی ذات کو کلیر کیا۔ ان کی اس وضاحت سے ملبہ ساتھیوں پہ ڈال دیا گیا باقی سب نے یقینی طور پر یہ محسوس کیا ہوگا کہ نتائج بھگتنے کیلئے انہیں اکیلے چھوڑ دیا گیا۔ رانا ثناء اللہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ میں رانا صاحب کو ذاتی طور پر 22 سال سے جانتا ہوں میری ان سے شناسائی اس وقت سے ہے جب وہ پیپلزپارٹی میں تھے انہوں نے طویل جدوجہد کے ذریعے سیاست میں اپنا مقام بنایا۔ وہ مین آف کمٹمنٹ ہیں ۔
رانا ثناء اللہ نے مشرف دور میں شریف برادران کی جلاوطنی کے دوران مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا اور وفاداری نبھائی انہیں بدترین تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پارٹی کیلئے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ انہوں نے جس طریقے سے میاں نواز شریف، شہباز شریف، وفاقی اور پنجاب حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کیا وہ پنجاب کابینہ میں سے کم ازکم کسی اور وزیر، رکن اسمبلی یا ن لیگ کے کسی دوسرے لیڈر نے نہیں کیا۔ منہاج القرآن پر آپریشن کا معاملہ بگڑنے پر بھی ساری کابینہ خاموش تھی صرف رانا ثناء اﷲ ہی حکومت کا دفاع کر رہے تھے۔
انہوں نے پنجاب اسمبلی میں سانحہ لاہور کے بارے میں جوکچھ کہا وہ حکومتی ایجنسیوں کی فراہم کردہ رپورٹوں کی بنیاد پر تھا لیکن ان سے جس طرح استعفیٰ لیا گیا اس سے ایسا تاثر پیدا ہوا کہ اس آپریشن کے ماسٹر مائنڈ رانا ثناء اللہ ہیں ۔ آج کوئی چینل یا کالم نگار کسی پولیس افسر کا نام نہیں لیتا حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی اور مس ہینڈلنگ سے رونما ہو ا۔ دراصل اس کی اصل ذمہ دار وہ اتھارٹی ہے جس نے اس آپریشن کی منظوری دی ہے ۔
اس اتھارٹی کو آپریشن کے سارے پہلووں کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا لیکن نظر آتا ہے کہ تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ لاہور شہر کے معاملات میں رانا ثناء اللہ کا کبھی کوئی عمل دخل نہیں رہا وزیراعلی شہباز شریف اور حمزہ شہبازکی موجودگی میں کوئی مداخلت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ڈاکٹرطاہر القادری کے طیارے کا رخ لاہور کی طرف موڑنے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ انہیںروکنے کا فیصلہ اعلی حکومتی سطح پر کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کا بھی اس طرح نام نہیں لیا جاتا کیونکہ بیورو کریٹس اوایس ڈی ہوتے رہتے ہیں لیکن سیاستدان بیوروکریٹ نہیں ہوتے انہیں اگر پریس کانفرنسوں کے ذریعے کسی سانحہ کے تناظر میں عہدے سے ہٹایا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سیاست کو دیدہ دانستہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب رانا ثناء کو عہدے سے نہ ہٹانا چاہتے ہوں لیکن ا س سے مسلم لیگ (ن) میں موجود رانا ثناء اللہ کی مخالف لابی کو سنہرا موقع مل گیا اور انہوں نے وزیراعلی شہباز شریف کو رانا ثناء اللہ کی قربانی کے لئے تیار کرلیا۔
رانا ثناء اللہ کو عہدے سے ہٹانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب سانحہ لاہور کے بعد شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہوگئے تھے اور انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کر لیا جو نہ ان کے لئے اچھا ثابت ہوگا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کے لئے۔ مسلم لیگ (ن) کا دفاع کرنے والے دیگر وزراء اور بیوروکریٹ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اگر کوئی مشکل وقت آیا تو ان کا حشر بھی رانا ثناء اللہ کی طرح ہوگا۔
میری رانا ثناء اللہ سے استعفے کے بعد ملاقات ہوئی، وہ اب بھی دل وجان سے وزیراعلی شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں وہ کہتے ہیں کہ پارٹی لیڈر شپ اور وزیراعلیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے لہجے میں مایوسی نمایاں تھی۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا۔ اگر رانا صاحب یہ سوچ رہے ہیں تو کیا دیگر وزراء ایسا نہیں سوچ سکتے۔ ان کی جگہ جو نئے وزیر قانون بنائے گئے ہیں خیر سے وہ بھی رانا صاحب ہی ہیں۔ رانا مشہود صاحب نے وزرات قانون کا چارج سنبھالتے ہی عقل ودانش کا وہ گل کھلایا ہے کہ عش عش کرنے کوجی چاہتا ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ طاہر القادری کے طیارے کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نہیں پاک فضائیہ نے اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترنے نہیں دیا۔ رانا مشہود کی انفارمیشن کو داد دینی چاہیئے۔ انہوں نے وہ راز پالیا جس کا علم وزیر داخلہ چودھری نثار کو تھا نہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ان کے دن بھی تھوڑے ہی ہیں۔ ویسے سچی بات ہے کہ وزیراعلی پنجاب رانا مشہود جیسے ''نابغوں'' سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ وہ اپنے بے وقوفانہ بیانات سے ان کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے رہیں گے۔
رانا صاحب کی ذہانت کا اندازہ لگا لیں انہوں نے بغیر سوچے سمجھے پاک فضائیہ کو ملوث کرلیا۔ کیا یہ پنجاب حکومت کے ساتھ نیکی ہے؟ گزشتہ چھ برسوں میں سانحہ لاہور کی شکل میں پہلی بار پنجاب حکومت پر مشکل وقت آیا ہے تو سب کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں اور گڈ گورننس کہیں ہوا میں تحلیل ہوگئی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حکومت بحرانوں سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے حوالے سے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آگئی کہ حکومت کے پاس کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی جسے طاہر القادری عزت دینے کیلئے تیار ہوتے۔ انہوں نے گورنر پنجاب چودھری سرور کے ساتھ مذاکرات کرنا مناسب سمجھا۔ ذرا سوچیں کہ اگر حکومت کے پاس چودھری سرور بھی نہ ہوتے تو کیا ہوتا ۔
مجھے تو یقین ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہرائی جاتی اور پھر اس کے ردعمل میں جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جاتی۔ چودھری سرور نے پنجاب ہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو بھی بڑے بحران سے وقتی طور پر نکال دیا۔ طاہر القادری کا طوفان ابھی رکا نہیں ہے اس کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ اس طوفان کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیسے روکتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن رانا ثناء اللہ کے استعفے سے یہی لگتا ہے کہ حکومت طوفان سے گبھرائی ہوئی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ گبھرائی ہوئی حکومت کوئی بڑا بلنڈر نہ کرجائے۔ اس حکومت نے معاشی میدان میں جتنی کامیابیاں حاصل کیں ماڈل ٹاؤن کے واقعہ نے وہ سب خاک میں ملا دیں۔
کاروباری ادارے چلانے والے بعض اوقات صرف اپنے نمبر ٹانگنے یا دوسرے ملازموں کوخوفزدہ کرنے کے لئے بغیر قصور کے بھی کسی افسر کو معطل یا ڈس مس کردیتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کو ہی دیکھ لیں۔کیا وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو افراتفری کے عالم میں اپنے آزمودہ ساتھیوں کو رسوا کرنا چاہیے تھا؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن پردل خون کے آنسو روتا ہے۔ بے گناہ انسانوں کو قتل کیا گیا اس کی کوئی صاحب دل انسان حمایت نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ریاستیں اور حکومتیں انسان نہیں ہوتے وہ جو قدم اٹھاتی ہیں۔
اس کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر اٹھاتی ہیں۔ پنجاب حکومت نے طاہر القادری کی رہائشگاہ سے تجاوزات ہٹانے کے لئے آپریشن کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے نتائج کو بھی سامنے رکھنا چاہیئے تھا۔
وہاں جو سانحہ رونما ہوا اس پر وزیراعلی پنجاب نے فوری طور پر موقف جاری کیا کہ انہوں نے گولی چلانے کا حکم نہیں دیا حالانکہ انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے صرف اپنی ذات کو کلیر کیا۔ ان کی اس وضاحت سے ملبہ ساتھیوں پہ ڈال دیا گیا باقی سب نے یقینی طور پر یہ محسوس کیا ہوگا کہ نتائج بھگتنے کیلئے انہیں اکیلے چھوڑ دیا گیا۔ رانا ثناء اللہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ میں رانا صاحب کو ذاتی طور پر 22 سال سے جانتا ہوں میری ان سے شناسائی اس وقت سے ہے جب وہ پیپلزپارٹی میں تھے انہوں نے طویل جدوجہد کے ذریعے سیاست میں اپنا مقام بنایا۔ وہ مین آف کمٹمنٹ ہیں ۔
رانا ثناء اللہ نے مشرف دور میں شریف برادران کی جلاوطنی کے دوران مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا اور وفاداری نبھائی انہیں بدترین تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پارٹی کیلئے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ انہوں نے جس طریقے سے میاں نواز شریف، شہباز شریف، وفاقی اور پنجاب حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کیا وہ پنجاب کابینہ میں سے کم ازکم کسی اور وزیر، رکن اسمبلی یا ن لیگ کے کسی دوسرے لیڈر نے نہیں کیا۔ منہاج القرآن پر آپریشن کا معاملہ بگڑنے پر بھی ساری کابینہ خاموش تھی صرف رانا ثناء اﷲ ہی حکومت کا دفاع کر رہے تھے۔
انہوں نے پنجاب اسمبلی میں سانحہ لاہور کے بارے میں جوکچھ کہا وہ حکومتی ایجنسیوں کی فراہم کردہ رپورٹوں کی بنیاد پر تھا لیکن ان سے جس طرح استعفیٰ لیا گیا اس سے ایسا تاثر پیدا ہوا کہ اس آپریشن کے ماسٹر مائنڈ رانا ثناء اللہ ہیں ۔ آج کوئی چینل یا کالم نگار کسی پولیس افسر کا نام نہیں لیتا حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی اور مس ہینڈلنگ سے رونما ہو ا۔ دراصل اس کی اصل ذمہ دار وہ اتھارٹی ہے جس نے اس آپریشن کی منظوری دی ہے ۔
اس اتھارٹی کو آپریشن کے سارے پہلووں کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا لیکن نظر آتا ہے کہ تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ لاہور شہر کے معاملات میں رانا ثناء اللہ کا کبھی کوئی عمل دخل نہیں رہا وزیراعلی شہباز شریف اور حمزہ شہبازکی موجودگی میں کوئی مداخلت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ڈاکٹرطاہر القادری کے طیارے کا رخ لاہور کی طرف موڑنے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ انہیںروکنے کا فیصلہ اعلی حکومتی سطح پر کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کا بھی اس طرح نام نہیں لیا جاتا کیونکہ بیورو کریٹس اوایس ڈی ہوتے رہتے ہیں لیکن سیاستدان بیوروکریٹ نہیں ہوتے انہیں اگر پریس کانفرنسوں کے ذریعے کسی سانحہ کے تناظر میں عہدے سے ہٹایا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سیاست کو دیدہ دانستہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب رانا ثناء کو عہدے سے نہ ہٹانا چاہتے ہوں لیکن ا س سے مسلم لیگ (ن) میں موجود رانا ثناء اللہ کی مخالف لابی کو سنہرا موقع مل گیا اور انہوں نے وزیراعلی شہباز شریف کو رانا ثناء اللہ کی قربانی کے لئے تیار کرلیا۔
رانا ثناء اللہ کو عہدے سے ہٹانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب سانحہ لاہور کے بعد شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہوگئے تھے اور انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کر لیا جو نہ ان کے لئے اچھا ثابت ہوگا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کے لئے۔ مسلم لیگ (ن) کا دفاع کرنے والے دیگر وزراء اور بیوروکریٹ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اگر کوئی مشکل وقت آیا تو ان کا حشر بھی رانا ثناء اللہ کی طرح ہوگا۔
میری رانا ثناء اللہ سے استعفے کے بعد ملاقات ہوئی، وہ اب بھی دل وجان سے وزیراعلی شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں وہ کہتے ہیں کہ پارٹی لیڈر شپ اور وزیراعلیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے لہجے میں مایوسی نمایاں تھی۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا۔ اگر رانا صاحب یہ سوچ رہے ہیں تو کیا دیگر وزراء ایسا نہیں سوچ سکتے۔ ان کی جگہ جو نئے وزیر قانون بنائے گئے ہیں خیر سے وہ بھی رانا صاحب ہی ہیں۔ رانا مشہود صاحب نے وزرات قانون کا چارج سنبھالتے ہی عقل ودانش کا وہ گل کھلایا ہے کہ عش عش کرنے کوجی چاہتا ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ طاہر القادری کے طیارے کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نہیں پاک فضائیہ نے اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترنے نہیں دیا۔ رانا مشہود کی انفارمیشن کو داد دینی چاہیئے۔ انہوں نے وہ راز پالیا جس کا علم وزیر داخلہ چودھری نثار کو تھا نہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ان کے دن بھی تھوڑے ہی ہیں۔ ویسے سچی بات ہے کہ وزیراعلی پنجاب رانا مشہود جیسے ''نابغوں'' سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ وہ اپنے بے وقوفانہ بیانات سے ان کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے رہیں گے۔
رانا صاحب کی ذہانت کا اندازہ لگا لیں انہوں نے بغیر سوچے سمجھے پاک فضائیہ کو ملوث کرلیا۔ کیا یہ پنجاب حکومت کے ساتھ نیکی ہے؟ گزشتہ چھ برسوں میں سانحہ لاہور کی شکل میں پہلی بار پنجاب حکومت پر مشکل وقت آیا ہے تو سب کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں اور گڈ گورننس کہیں ہوا میں تحلیل ہوگئی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حکومت بحرانوں سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے حوالے سے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آگئی کہ حکومت کے پاس کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی جسے طاہر القادری عزت دینے کیلئے تیار ہوتے۔ انہوں نے گورنر پنجاب چودھری سرور کے ساتھ مذاکرات کرنا مناسب سمجھا۔ ذرا سوچیں کہ اگر حکومت کے پاس چودھری سرور بھی نہ ہوتے تو کیا ہوتا ۔
مجھے تو یقین ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہرائی جاتی اور پھر اس کے ردعمل میں جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جاتی۔ چودھری سرور نے پنجاب ہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو بھی بڑے بحران سے وقتی طور پر نکال دیا۔ طاہر القادری کا طوفان ابھی رکا نہیں ہے اس کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ اس طوفان کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیسے روکتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن رانا ثناء اللہ کے استعفے سے یہی لگتا ہے کہ حکومت طوفان سے گبھرائی ہوئی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ گبھرائی ہوئی حکومت کوئی بڑا بلنڈر نہ کرجائے۔ اس حکومت نے معاشی میدان میں جتنی کامیابیاں حاصل کیں ماڈل ٹاؤن کے واقعہ نے وہ سب خاک میں ملا دیں۔