آپریشن متاثرین کی امداد کے لئے سب کو آگے بڑھنا ہو گا

ملکی حالات اس وقت اس بات کے متقاضی تھے کہ صوبائی حکومت، مرکز اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک ہی صف پر آکھڑی ہو

تمام سیاسی پارٹیاں بخوبی جانتی ہیں کہ آپریشن کی مخالفت انھیں سیاسی عمل میں بہت پیچھے لے جاسکتی ہے۔ فوٹو : فائل

شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت یہ موقف اپنائے ہوئے تھی کہ اس کے بارے میں مرکزی حکومت نے انھیں اعتماد میں نہیں لیا۔

تاہم ملکی حالات اس وقت اس بات کے متقاضی تھے کہ صوبائی حکومت، مرکز اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک ہی صف پر آکھڑی ہو کیونکہ مذکورہ آپریشن کا مقصد عسکریت پسندی کا خاتمہ ہے اور اگر صوبائی حکومت اس سلسلے میں پس وپیش سے کام لیتی تو اس سے نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ تحریک انصاف اورجماعت اسلامی کی بھی ساکھ متاثر ہوتی، یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے حکمران اتحاد میں شامل تینوں جماعتوں نے مذکورہ صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے گلے شکوؤں کے ماحول میں نہ صرف آپریشن کی کسی نہ کسی طریقہ سے حمایت کی ہے بلکہ ساتھ ہی شمالی وزیرستان سے آنے والے آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے بھی فرنٹ فٹ پر نکل آئی ہیں تاکہ ان پر حرف نہ آسکے۔ جیسا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور ان کی ٹیم کے دیگر ارکان باربار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ انھیں آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا تو اس بات کا بڑا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ شاید انھیں آپریشن شروع کرنے سے متعلق تاریخ کے بارے میں نہ بتایا گیا ہو تاہم جہاں تک آپریشن سے متعلق تیاریوں کا تعلق ہے تو یہ تو بڑے واضح انداز میں نظر آرہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہونے جا رہا ہے اور کور کمانڈر پشاور کی جانب سے گورنر اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو آپریشن شروع ہونے سے قبل اسی حوالے سے بریف بھی کیا گیا تھا۔

2009 ء میں جب ملاکنڈ ڈویژن میں سکیورٹی فورسز نے کاروائیوں کا آغا زکیا تھا تو اس وقت بھی بعض سیاسی جماعتیں مذکورہ آپریشن کے حق میں نہیں تھیں تاہم جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ اب کاروائی ہونی ہے اور عسکریت پسندی کا قلع قمع کرنا ہے تو اس کے بعد سب کو اس آپریشن کی پشت پر کھڑا ہونا پڑا کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ ایسے مرحلہ پر ایسی کاروائیوں کی مخالفت انھیں سیاسی عمل میں بہت پیچھے لے جاسکتی ہے۔

اسی لیے اب جبکہ شمالی وزیرستان میں فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی شروع کی تو وہ سیاسی جماعتیں جو اس آپریشن کی مخالف تھیں وہ بھی اب گھما پھرا کر اپنی بات کر رہی ہیں لیکن واضح طور پر آپریشن کی مخالفت نہیں کرتیں تاکہ سکیورٹی فورسز کو اس عمل کے دوران جس سپورٹ کی ضرورت ہے وہ اس کے لیے برقراررہے ، اگرچہ شمالی وزیرستان سے اس بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے نہیں آرہے جتنی بڑی تعداد میں سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع سے مردان ، صوابی ، نوشہرہ ، چارسدہ اور دیگر اضلاع کو آئے تھے۔

تاہم پانچ سے چھ لاکھ افراد کی تعداد بھی کم نہیں اس لیے جس طرح سوات آپریشن کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کے ورکر اور غیر سرکاری تنظیمیں آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے میدان میں اتری تھیں اسی طرح اب موجودہ حالات میں بھی سیاسی جماعتوں کو اپنے ورکروں کو متحرک کرتے ہوئے میدان میں اتارنا ہوگا تاکہ وہ سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر میدان میں کام کرسکیں اور اس میں خصوصی طور پر پہل ان جماعتوں کو کرنی چاہیے جو شروع ہی سے آپریشن کی حامی تھیں۔


موسم کی شدت کے ساتھ سیاسی جماعتوں میں بھی درجہ حرارت کافی اوپر جا رہا ہے جسے پیپلزپارٹی نے تو انٹرا پارٹی الیکشن کا سٹیئرنگ نامزدگیوں کی طرف موڑتے ہوئے کم کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اسے پارٹی کے اندر موجود ہم خیالوں کی مخالفت کا سامنا ضرور کرنا پڑ رہا ہے جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر الگ تقریب سجاتے ہوئے پیغام دے دیا ہے کہ وہ اتنی آسانی کے ساتھ خاموش ہونے والے نہیں ہیں ،پیپلزپارٹی کی روش پر چلتے ہوئے اے این پی نے بھی معاملات کو مفاہمت کے ذریعے کنٹرول کر لیا ہے ۔

اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے صورت حال یہ نظر آ رہی تھی کہ سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی اور میاں افتخار حسین کے درمیان جوڑ پڑے گا لیکن ایسا تب ہوتا کہ جب میاں افتخار حسین کے سر پر بھی کسی بڑے کا ہاتھ ہوتا تاہم ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار کی طرح اختیار کا ہما بھی امیر حیدر ہوتی ہی کے سر پر جا بیٹھا جبکہ میاں افتخار حسین کو راضی کر لیا گیا ہے کہ وہ امیر حیدر ہوتی کے ساتھ جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں ۔

ایسا کیوں ہوا ؟یہ اپنی جگہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے عہدیداروں کے انتخاب کی نوید تو سنائی گئی تھی لیکن اگر حقیقی معنوں میں ایسا ہو جاتا تو پھر نقشہ کافی حد تک تبدیل ہوتا اس لیے کنٹرولڈ طریقہ سے اے این پی میں انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد کیا گیا تاکہ انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کی شرط بھی پوری ہو جائے اور کوئی مسلہ بھی نہ بنے ، اور یہ بھی واضح رہے کہ اے این پی کے بعض رہنما جو افراسیاب خٹک کو پارٹی کا مرکزی جنرل سیکرٹری بنانے کا سوچ رہے ہیں انھیں اپنی اس سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ کوئی جذباتی فیصلہ پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔

جس مشکل کو اے این پی کے بڑوں نے آپس میں سرجوڑ کو سہولت میں تبدیل کیا ویسی ہی مشکل کا شکار جمعیت علماء اسلام(ف) بھی ہے کیونکہ وہاں بھی پارٹی کی صوبائی تنظیم کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن ہونے جا رہا ہے اور مذکورہ الیکشن کے حوالے سے صورت حال ویسی ہی ہے جیسی گزشتہ انٹرا پارٹی الیکشن میں تھی جس میں شیخ امان اللہ نے مولانا گل نصیب خان کو شکست دے کر امارت حاصل کی تھی تاہم یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ اس وقت شیخ امان اللہ کے ساتھ جو ، جو تھے وہ گل نصیب خان سے نئے ، پرانے حساب برابر کرنا چاہتے تھے اور وہ اپنا حساب چکتا کرنے میں کامیاب رہے۔

تاہم اب کی مرتبہ صورت حال اس لیے تبدیل ہے کہ شیخ امان اللہ میدان میں نہیں جبکہ مولانا قاسم جو شیخ امان اللہ کے ساتھ جنرل سیکرٹری تھے انھیں امارت کے لیے میدان میں اتارنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جن کے ساتھ مولانا عطاء الرحمن جنرل سیکرٹری کے عہدہ کے امیدوار ہوں گے جبکہ دوسری جانب مولانا گل نصیب نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ان کے ساتھ جنرل سیکرٹری کے عہدہ کے لیے امیدوار شجاع الملک ہوں گے ، مفتی کفایت اللہ یا راحت حسین ؟تاہم اندرون خانہ مفاہمت کی کوششیں بھی جاری ہیں جس میں یہ فارمولہ زیر غور ہے کہ بلامقابلہ طور پر مولانا گل نصیب خان امیر اور مولانا عطاء الرحمن جنرل سیکرٹری بن جائیں ، مذکورہ فارمولے کو عملی شکل دینے سے جے یو آئی بہت سی مشکلات سے بچ جائے گی ۔

قومی وطن پارٹی بھی انٹرا پارٹی الیکشن کی راہ پر چل رہی ہے جس کے حوالے سے شنید ہے کہ تبدیلی آرہی ہے۔ امکان ہے کہ پارٹی کی باگ ڈور کسی ایسے شخص کو سونپی جائے گی کہ جس کے پاس کافی سے بھی زیادہ فارغ وقت ہو تاہم یہ تبدیلی پارٹی کی صوبائی قیادت کی حد تک ہی آتی نظر آرہی ہے کیونکہ اگر پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب شیر پاؤ کو ہی تبدیل کر دیا جائے تو پھر قومی وطن پارٹی کا حال بھی ان پارٹیوں جیسا ہی ہو جائے گا کہ وہ پارٹیاں تو ہیں لیکن اس سے آگے کچھ نہیں ۔
Load Next Story