سندھ میں تعلیمی اداروں ہسپتالوں اور کلینکس پر بھی 15 فیصد سیلزٹیکس عائد

حکومت سندھ کے آئندہ مالی بجٹ میں طبی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں اور انسٹی ٹیوٹس کی خدمات پر بھی ٹیکس ہوگا

عوامی حلقوں نے حکومت کے اس اقدام کو مسترد کردیا—فوٹو: فائل

حکومت سندھ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تعلیمی اداروں کے ساتھ ہسپتالوں اور کلینکس کی خدمات پر بھی 15فیصد صوبائی سیلز ٹیکس عائد کردیا اور طبی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں اور انسٹی ٹیوٹس کی خدمات پر بھی ٹیکس ہوگا۔

ایکسپریس کو ماہرین اور عوام کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت کی سہولتوں پر سیلز ٹیکس مہنگائی کے شکار عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔

سندھ کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس صوبائی سیلز ٹیکس کے دائرے میں گزر بسر کی بنیادی خدمات کو بھی شامل کرلیا گیا ہے، اسکولوں، کالجوں جامعات، کوچنگ سینٹرز اور تکنیکی تربیت کے اداروں کی تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں اور کلینکس کی طبی خدمات پر بھی صوبائی سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔

عوامی حلقوں میں جہاں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو ٹیکس کے دائرے میں لانے پر بے چینی پائی جاتی ہے وہیں ٹیکس ماہرین بھی اسے عوام پر بوجھ قرار دے رہے ہیں۔

صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن انور کاشف ممتاز کا کہنا تھا کہ عوام کو مفت تعلیم اور صحت کی سہولت فراہم کرنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جو حکومت انجام دینے میں ناکام ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور کلینکس کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام بہت مشکل سے اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوارہے ہیں کیونکہ حکومت سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنانے میں ناکام ہوئی ہے، دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں میں ناکافی گنجائش اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے کم آمدن والا طبقہ بھی نجی ہسپتالوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ نے تعلیم اور صحت کی خدمات پر ٹیکس لگا کر اپنی ذمہ داری عوام پر منتقل کر دی ہے، تعلیم اور صحت کی سہولتیں پہلے ہی عام طبقے کی پہنچ سے دور ہیں، اب ٹیکس لگنے سے اور مشکل ہوگی۔


صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ اصولاً ٹیکس ان سے لینا چاہیے جن کے پاس سرمایہ ہے اور یہ سرمایہ کم آمدن والے طبقے پر خرچ ہونا چاہیے، تعلیم اور صحت پر سیلز ٹیکس میں غریب اور امیر کافرق نہیں رکھا گیا۔

انہوں نے حکومت سندھ پر زور دیا کہ صحت اور تعلیم کی خدمات کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے اور تجارتی بنیادوں پر تعلیمی ادارے اور ہسپتال چلانے والوں کی آمدن پر ٹیکس لاگو کیا جائے تاکہ عوام کو اس مہنگائی کے دور میں ٹیکسوں کے بوجھ سے بچایا جاسکے۔

ہسپتالوں اور کلینکس پر سیلز ٹیکس کے نفاذ پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے کہا کہ 70 فیصد مریض نجی اداروں سے علاج کراتے ہیں، ٹیکس کا بوجھ مریض کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی حالات میں عوام تعلیم اور صحت پر سیلز ٹیکس کے متحمل نہیں ہوسکتے، تعلیم اور صحت پر سیلز ٹیکس کا بوجھ ادارے نہیں اٹھائیں گے اور آخر کار عوام کو ہی یہ اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مریض پہلے سے پسے ہوئے ہیں، غریب کے لیے علاج ان کی سکت سے باہر ہے اور حکومت کے لیے مفت علاج فراہم کرنا ممکن نہیں، ایسی صورت حال میں ہسپتال، میڈیکل تعلیم کے اداروں اور ڈاکٹروں کی خدمات پر ٹیکس لگانے سے صورت حال مزید خراب ہوگی۔

ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے بتایا کہ اگر یہ ٹیکس نافذ کیا گیا تو صحت کا نظام کمزور ہوگا اور علاج کی سکت نہ رکھنے والے مریض نجی ہسپتالوں کا رخ کرنے کے بجائے گھروں میں ہی رہ جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوامی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت، میڈیکل تعلیم اور عمومی تعلیم پر سیلز ٹیکس کے نفاذ پر نظر ثانی کی جائے۔

عوامی حلقوں نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب زندگی گزارنا بہت مشکل ہوچکا ہے، ہر چیز پر ٹیکس ہے، بجلی اور گیس کے بلوں سے لے کر ماچس کی ڈبیا، پیٹرول، کھانے پینے کی اشیا، موبائل فون، انٹرنیٹ غرض ہر چیز پر ٹیکس نے عوام کا معیار زندگی بری طرح متاثر کیا ہے اور اب صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورت پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے جس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
Load Next Story