پیپلز پارٹی حکومت میں ہے بھی اور نہیں بھی

فروری 2024 کے الیکشن کا نتیجہ کسی کی توقع کے مطابق نہیں نکلا۔


Dr Mansoor Norani June 17, 2024
[email protected]

پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی سیاست کے ہم تو پہلے ہی قائل تھے اورآج بھی ہیں۔ 2024کے الیکشن سے پہلے انھوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس بار وہ اپنے فرزند ارجمند بلاول بھٹو کو ہر صورت میں اس ملک کا وزیر اعظم بنائیں گے۔ اس مقصد سے انھوں نے مکمل تیاری بھی کر لی تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ صوبہ سندھ کی کچھ نشستیں چھوڑکر باقی ساری پاکستان پیپلز پارٹی کی ہی رہی ہیں اور رہیں گی۔

یہ نشستیں اُن سے کوئی چھین نہیں سکتا اور اس کے لیے انھیں کوئی بہت زیادہ کٹھن انتخابی مہم بھی چلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اسی طرح بلوچستان بھی ایک ایسا صوبہ ہے جسے وہ جب چاہیں اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی بھی باقی دوسرے صوبوں کی نسبت بہت اچھی اور بہتر ہے۔

اس کے بعد انھوں نے یہ مکمل پلاننگ بھی کی ہوئی تھی کہ قومی اسمبلی میں پارلیمانی اور حکمراں پارٹی کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے عددی اکثریت کس طرح پوری کی جائے گی۔ اس کے لیے انھوں نے جنوبی پنجاب کے منتخب ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کا طریقہ بھی سوچ رکھا تھا۔ ان کے لیے یہ کام کوئی اتنا مشکل بھی نہیں تھا، مگر ایسا نہ ہوا اور وہ اپنے دوسرے آپشن کے مطابق عمل پیرا ہونے پر مجبور ہوگئے۔ پلان 2 کے مطابق وہ کسی بھی دوسری پارٹی کے ساتھ ملکر حکومت بنالیں گے اور تمام آئینی عہدے اپنی پارٹی کو دلادیں گے۔

فروری 2024 کے الیکشن کا نتیجہ کسی کی توقع کے مطابق نہیں نکلا۔ تحریک انصاف اکثریت رکھنے کے باوجود ان حالات میں حکومت بنانے کے حق میں نہیں تھی۔ ملک کو درپیش جو مالی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی اس دلدل میں اترنے کو تیار نہ تھا۔ طوعاً و کرہاً مسلم لیگ نون اس ذمے داری پر تیار ہوگئی، بشرطیکہ پیپلزپارٹی اس کا ساتھ دے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون حکومت بنانے کے لیے رضامند ہوگئے۔ یہ سیاسی حریف محض اس لیے سر جوڑکر بیٹھ گئے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھرکسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں یہ ملک مزید ابتری اور تباہی کا شکار ہو جائے گا اور ایسا نہ ہو کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں بھی اپنے ہاتھوں سے جاتی رہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ کسی طرح تحریک انصاف کا راستہ روکاجاسکے۔ پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالنے کے بجائے مسلم لیگ سے تعاون کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اس طرح تین ماہ قبل یہ اتحادی حکومت معرض وجود میں آگئی۔

بظاہر پیپلزپارٹی حکومت میں ہے بھی اور نہیں بھی۔ وہ حکومت کے اچھے کاموں کا کریڈٹ تو اپنے نام کرے گی لیکن برے کاموں سے خود کو الگ اور مبرا رکھے گی۔ سودے بازی کرتے ہوئے اس نے حکومت سازی میں کوئی وزارت لینے سے انکار کردیا لیکن بدلے میں تمام اہم آئینی عہدے مانگ لیے۔ دوصوبوں کی گورنر شپ، سینیٹ کے چیئرمین اور صدر مملکت کا عہدہ لے کر انھوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ کر لیا۔ انھیں معلوم تھا کہ اگر آگے جاکر اِن حکومتوں کا بالفرض خاتمہ ہوجاتا ہے یا وہ توڑ دی جاتی ہیں مگر یہ تمام آئینی عہدے اس کے پاس جوں کے توں برقرار رہیں گے۔

اسی لیے تو کہتے ہیں سیاسی بساط یا شطرنج کی چالیں آصف علی زرداری سے بہتر کوئی کھیل نہیں سکتا۔ چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری کی مصداق پیپلزپارٹی حکومت کی اتحادی بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک بڑی مخالف بھی۔ وہ جب چاہے گی حالات کا رخ بدلتے دیکھ کر اپنے تیور بھی بدل ڈالے گی اور اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو وہ MQM کی مانند حکومت وقت کو بلیک میل کرتے ہوئے اپنے تمام جائز اور ناجائز مطالبے منواتی رہے گی۔ ہم یہ تماشہ شاید اگلے تین چار سال تک دیکھتے رہیں گے۔

موجودہ شہباز حکومت کو اگر باہر سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا ہے اور وہ کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھتی ہے تو پھر بھی پیپلزپارٹی آخری دو سالوں میں اپنا سیاسی قد بڑھانے اور اگلے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ نون کی بھرپور مخالفت شروع کردے گی جس طرح اس نے PDM کی سولہ ماہ کے دور حکومت میں کیا تھا۔

PTI حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والی بھی وہ خود تھی اور پھرکامیابی کی صورت میں وہ اس عارضی حکومت کی سربراہی کرنے سے انکاری بھی بن گئی۔ اسے معلوم تھا کہ ملک کے کٹھن معاشی اور اقتصادی حالات میں جو یہ ذمے داری اُٹھائے گا، بدنامی کا سہرا بھی اسی کے سر باندھا جائے گا اور ہوا بھی ایسے ہی۔ جناب شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا کریڈٹ بھی آصف علی زرداری اپنے نام کرتے رہے اور بیٹے کو وزیر خارجہ بنا کر اسے ساری دنیا میں مقبول ومعروف بھی کروا دیا۔

اس طرح اپنے اگلے منصوبے کی داغ بیل انھوں نے سولہ ماہ پہلے ہی شروع کردی تھی، مگر جب الیکشن کا وقت آیا تو وہی وزیر خارجہ اپنی ساری سیاسی مہم شہباز شریف کے خلاف کرتا دکھائی دیا۔ گویا اس سولہ ماہ کی حکومت میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ایک دوسرے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے یہ دونوں سیاسی رہنما ایک دوسرے کے سخت سیاسی حریف بن گئے۔

جو کچھ ہم نے سابقہ PDM کے دور حکومت میں دیکھا تھا وہی کچھ اب پھر دہرائے جانے والا ہے۔ جو پیپلز پارٹی آج اس حکومت کی اتحادی بنی ہوئی ہے الیکشن کو قریب آتا دیکھ کر اس اتحاد سے اپنی جان چھڑاتی دکھائی دیے گی۔ محترم بلاول بھٹو زرداری کو بہرحال وزیراعظم بننا ہے اور وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مزید وقت ضایع نہیں کرسکتے۔ شہباز شریف حکومت نے اگر عوام کو ریلیف فراہم کردیا اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا تو بلاول صاحب کے لیے یہ مقصد حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

انھیں اس سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور یوں 2022 میں تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جاسکے۔ قوم اسے مکافات عمل کا نام دے کر مسلم لیگ ن ہی کو ملامت کرتی دکھائی دے گی اور پیپلز پارٹی کو کچھ نہیں کہے گی کیونکہ بظاہر وہ اس حکومت کا حصہ ہی نہیں اور اس طرح وہ سیاسی ثمرات کی سب سے بڑی وصول کنند ہ بن جائے گی اور خسارے کا سارا ملبہ مسلم لیگ نون کے سر لاد دیا جائے گا اور یوں ملک کی خاطر سیاسی قربانی دینے کا دعویٰ ایک بار پھر مسلم لیگ نون ہی کرتی دکھائی دے گی۔

بیٹے کو اس ملک کے وزیراعظم کی حیثیت میں دیکھنا آصف علی زرداری کی سب سے بڑی دلی خواہش ہے۔ اگر اس بار اسے پورا نہیں کرسکے تو اگلی بارضرور کریں گے۔ جس طرح وہ پہلی بار صدر مملکت بنے تھے اسی طرح اس بار بھی اس عہدے پر براجمان ہوگئے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بلاول بھٹوکو وزیر اعظم بناتے بناتے وہ خود کیسے صدر مملکت بن جائیںگے۔ پارٹی بھی خوش، مسلم لیگ نون بھی راضی اور مقتدر حلقے بھی مطمئن۔ یہ سیاسی فہم ہمارے یہاں شاید ہی کسی اورکا خاصہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔