طاہر القادری کا ایجنڈا

طاہر القادری کا کہنا ہے کہ آئین کی 40 شقیں معطل ہیں، یوں منتخب حکومتوں سے ذاتی آمریتیں بہتر ہیں۔۔۔۔


Dr Tauseef Ahmed Khan June 25, 2014
[email protected]

ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا اور اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ مسلم لیگی حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد میں اترنے نہیں دیا، کارکن آنسو گیس اور پولیس کی لاٹھیاں برداشت کرتے رہے۔ حکومت نے انتظامی طریقہ کار اختیار کر کے شہریوں کو ان کے اجتماع کے حق سے محروم کر دیا۔ یوں ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے ایک ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی۔

طاہر القادری کا کہنا ہے کہ آئین کی 40 شقیں معطل ہیں، یوں منتخب حکومتوں سے ذاتی آمریتیں بہتر ہیں جن میں کم سے کم لوگوں کی جان و مال کا تحفظ تو ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ق اور تحریکِ انصاف طاہر القادری کے ساتھ ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما ہمیشہ ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت کرتے ہیں، یوں کیا حکومت کی تبدیلی کا ایجنڈا تیار ہے اور کیا مسلم لیگ ن حکومت کی تبدیلی سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو جائے گا؟ آج پھر یہ سوالات اہم ہو گئے ہیں۔

پاکستان جنوبی ایشیا کا وہ واحد ملک ہے جو عوام کے قانونی فیصلے کے ذریعے وجود میں آیا۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے 1905سے 1947تک مسلمانوں کے حقوق اور پھر پاکستان کے قیام کے لیے صرف قانونی جدوجہد کی مگر اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے قیام سے لے کر نصف سے زائد عرصے یہ ملک فوجی آمریتوں کے تابع رہا اور جو منتخب جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں انھیں عسکری اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو قبول کرنا پڑا اور ان کے خلاف ایک خاص قسم کا مائنڈ سیٹ Mindset تیار ہو گیا۔

جنرل ایوب خان نے 1958میں اقتدار سنبھالا تو سب سے پہلے آزادئ صحافت پر حملہ کیا۔ ترقی پسند اخبارات پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل ونہار پر قبضہ کر لیا تو دوسرے تمام اخباری مالکان کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ فوجی حکومت کی اطاعت نہ کرنیوالے اخبارات کے مالکان اپنے اخبارات سے محروم ہو جائینگے۔ 1962 میں صدارتی نظام پر مشتمل آئین نافذ کیا گیا۔ اس آئین کے بارے میں ایک سیاستدان کا کہنا تھا کہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد)کے گھنٹہ گھر کی طرح تمام اختیارات صدر کی ذات میں پیوست ہو جاتے ہیں۔

یوں مشرقی پاکستان کے دانشوروں کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اب ملک کے اکثریتی صوبے سے تعلق رکھنے والے شخص یا سیاسی جماعت کے لیے اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ایوب خان کا فوجی خاندان صنعتکاروں کے خاندان میں تبدیل ہو گیا۔ یہ بدعنوانی کو ادارہ جاتی شکل دینے کا آغاز تھا۔ یوں عوامی لیگ کے دانشوروں نے 6 نکات ترتیب دیے جو کہ دو سال قبل آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم میں دی گئی صوبائی خودمختاری کے ہم پلہ تھے مگر فوجی حکومت اور اس کے میڈیا کے ماہرین نے عوامی لیگ کو غدار قرار دیدیا۔

ایوب خان کی حکومت کو عوامی تحریک کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے اپنے ہی آئین پر عمل کر کے اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے اس آئین کو ہی منسوخ کر دیا اور اپنے جانشین فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو مسند اقتدار پر فائز کیا۔ جنرل یحییٰ خان نے اپنے فیصلے کے تحت ہونیوالے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی جس کے نتیجے میں پاکستان تقسیم ہو گیا۔

مغربی پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ کی اکثریتی جماعت نے جنرل یحییٰ خان کی حمایت کی، یوں وہ جمہوریت دشمنی کے مرتکب ہوئے۔ جب 20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے صدر اور سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے تو منتخب سیاستدانوں کو ملک کا آئین تیار کرنے کا موقع ملا۔ 1973 کا ایسا متفقہ آئین تیار ہوا کہ 41 سال بعد بھی یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے متفقہ دستاویز ہے۔ بھٹو حکومت نے تعلیم، زراعت، صحت، معیشت، خواتین اور دوسرے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کیں مگر ان کی طرزِ حکومت کی بناء پر منفی قوتوں کو تقویت ملی۔

جنرل ضیاء الحق نے اس ملک پر افغان جنگ مسلط کی اور پاکستانی معاشرے کی ساخت کو انتہاپسندی کے ذریعے تہس نہس کیا جس کے خلاف آج بھی جنگ جاری ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے مگر اپنے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا اور اپنے ہی نامزد وزیر اعظم کو برطرف کر دیا ۔ 1988 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں، ان حکومتوں کو عسکری مقتدرہ نے اپنی معیاد مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا۔ ان حکومتوں کو خارجہ اور دفاع کے امور میں عسکری مقتدرہ کی ڈاکٹرائن پر عمل کرنے پر مجبور کیا گیا۔

وہ وقت بھی آیا کہ میاں نوازشریف فوج کے لیے ناپسندیدہ شخصیت بن گئے اور 1999 میں فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل پرویز مشرف ایک طرف امریکا کے اتحادی بن گئے تو دوسری طرف ان کی زیرِ کمان فوج طالبان کی سرپرستی کرتی رہی۔ یوں نائن الیون کا سانحہ ہوا۔ اتحادی فوج نے طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے کابل پر حملہ کیا مگر جنرل پرویز مشرف کی Double Cross پالیسی کی بنیاد پر یہ جنگ کراچی تک پہنچ گئی۔

آج پاکستانی فوج اس پالیسی کے منفی نتائج کے خلاف آپریشن ضربِ عضب کر رہی ہے۔ جب اس دوران ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنی ماضی کی غلطیوں کا ادراک کیا اور محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاقِ جمہوریت ہوا تو اس میثاق میں مستقبل میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا عہد کیا گیا۔ اس میثاق کے تحت عوام کے جاننے کے حق، آزاد الیکشن کمیشن، منتخب حکومتوں کو 5 سال حکومت کرنے کا حق اور آئین کے تحت اقتدار پرامن طور پر منتقل کرنے پر اتفاق ہوا۔

2008کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری صدر بنے تو انھوں نے افتخار محمد چوہدری کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے بحال کرنے سے انکار کیا تو یہ سوال اہم ہو گیا کہ اب میثاقِ جمہوریت کی اہمیت باقی رہے گی؟ مگر زرداری حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن میں شدید اختلافات کے باوجود آئین میں 18 ویں، 19 ویں اور 20 ویں ترامیم ہوئیں۔ عبوری حکومت، آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور صوبائی خودمختاری جیسے دیرینہ مسائل طے ہوگئے اور پھر تاریخ میں پہلی دفعہ مئی 2013 کے انتخابات میں برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی اور حزبِ اختلاف کو اقتدار منتقل ہوا۔

اگرچہ مئی 2013 کے انتخابات میں آزاد الیکشن کمیشن کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں ہوا اور انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات لگے مگر اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگی حکومت انتخابی اصلاحات کے لیے تیار ہو گئی اور پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل کمیٹی کا قیام جلد متوقع ہے۔ پنجاب حکومت نے عوامی تحریک کے مرکزی دفتر میں پولیس آپریشن کر کے ایک منفی صورتحال پیدا کی ہے اور طاہر القادری کی اسلام آباد آمد طاقت کے ذریعے روک کر غیر جمہوری اقدام کیا۔

تاریخ یہ سبق سکھاتی ہے کہ کمزور ترین جمہوری حکومت بہترین فوجی حکومت سے بہتر ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اگر یہ موجودہ حکومت طاہر القادری کی آمد کے معاملے کو سیاسی طور پر حل نہیں کر سکی تو یہ حکومت کی ناکامی ہے مگر مسئلے کا حل یہی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی معیاد پوری کرے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی ہمنوا جماعتیں حکومت کی اس غلطی سے فائدہ اٹھائیں اور رائے عامہ ہموار کریں اور موجودہ حکومت کو اس کی قانونی معیاد پوری کرنے دیں اور آیندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔