مقروض

ہم نے تم کو صحافی بنایا ہے تو تم بھی ہمیں حاجی بنا دو، چاہے وہ پاجی جیسا کیوں نہ ہو


Saad Ulllah Jaan Baraq June 25, 2014
[email protected]

ہماری تو شاید نہیں بلکہ یقیناً قسمت ہی خراب ہے اتنی زیادہ کہ اگر کبھی ہماری قبر کھودی گئی تو اس میں پتھریلی زمین بھی نہیں بلکہ پوری چٹان نکل آئے گی اور اگر کبھی ڈوب کر مرنا چاہا تو دریاؤں میں چلو بھر پانی تک نہیں ملے گا

ڈوبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے

کرنٹ لگواؤں تو بجلی ملے نایاب مجھے

اب کے پکا پکا ارادہ کر لیا تھا کہ سرکار دولت مدار کو درخواست گزاریں گے کہ ہمیں بھی حج وفد میں شامل کریں کیوں کہ ہم نے مطلوبہ رقم کا بندوبست کر لیا ہے۔ یہ ایک نکتے کی بات ہے جو ہمیں ایک مرحوم صحافی دوست نے بتائی تھی۔ وہ جب تین چار مرتبہ خود بھی حج وفد میں تشریف لے گئے اور گھر کے تمام زنانہ و مردانہ بالغ ممبران کو بھی سرکاری حج کرا لائے تو ہم نے گزارش کی کہ

اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

ہم نے تم کو صحافی بنایا ہے تو تم بھی ہمیں حاجی بنا دو، چاہے وہ پاجی جیسا کیوں نہ ہو، بولے پانچ ہزار روپے ہیں (یہ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے) ظاہر ہے کہ چیل کے گھونسلے میں ماس؟ اور وہ بھی اتنی رقم؟ تفصیل اس نے بتائی کہ بمقام اسلام آباد ایک محکمہ ہے جو مذہبی امور کو غیر مذہبی طریقے پر نپٹانے میں یدطولیٰ رکھتا ہے وہاں پر میں نے ایک ایسا سوراخ ڈھونڈا ہے کہ پانچ ہزار روپے ڈالو اور حج وفد میں نام لکھوا لو، بارے خدا خدا کر کے ہم نے اتنے سالوں میں وہ پانچ ہزار روپے جمع کر لیے اور اب محکمہ ہذا میں درخواست بمراد شمولیت حج وفد دینے کو تیار ہیں، لیکن اپنے اس ناہنجار نابکار ''شکی مزاج'' کو کیا کریں جو مسٹر پرفیکٹ بنا پھرتا ہے اسی نے اسی کم بخت نے ہمارے دل میں یہ وسوسہ ڈالا ہے کہ اس طرح کا حج کر کے ہم واقعی حاجی ہو جائیں گے یا بدستور پاجی ہی رہیں گے، چنانچہ ملک بھر کے مفتیان کرام اور قاضیان عظام سے دریں بابت مشورہ یا فتویٰ لینا چاہتے ہیں۔

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے صاحب

کہ یہ موقع بھی منصب بھی ہے دستور بھی ہے

ہم نے ابتداء میں اپنی بدقسمتی کا جو رونا رویا ہے وہ محض عادتاً یا رسماً نہیں رویا ہے بلکہ ثبوت یہ دیکھیے کہ جب سے ہم نے حج کا ارادہ کر رکھا ہے ہر طرف سے ایسی ویسی خبریں آ رہی ہیں، مثلاً یہ جانکاہ خبر لیجیے کہ اس وقت مملکت خداداد پاکستان پر مجموعہ قرضہ اٹھارہ ہزار سات سو پچانوے ارب ہے ذرا پھر سے دہرایے یہ 18795 ہزار... روپے کی نہیں ''اربوں'' کی تعداد ہے اور یہ ''ارب''... عربوں کے ڈیڑھ ارب ڈالروں کے باوجود ہیں، اس قرضے کو حصہ بقدر جثہ نہیں بلکہ حصہ بقدر فی کھوپڑی تقسیم کیا گیا تو پاکستان کا ہر فرد 93 ہزار 875 روپے کا مقروض نکلا، ادھر ہم نے باوثوق ذرایع سے سنا ہے کہ کسی مقروض پر حج فرض نہیں ہوتا لہٰذا آپ مفتیان دین متین اور قاضیان قانون و آئین یہ فرما دیجیے کہ ہم اور پاکستان پر حج فرض ہوتا ہے یا نہیں اور یہ قرضہ جو ہمارے اوپر چڑھا ہے اس کی سبیل بھی ادا کرنے کی کوئی نہیں ہے کیوں کہ اس کا سود ادا کرنے کے لیے بھی ہمیں قرض مع سود لینا پڑ رہا ہے گویا

منحصر ''قرضے'' پہ ہو جس کی امید

ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

بات اگر صرف ہماری ذات بے صفات کی ہوتی تو ہم بھی دوسروں کی طرح ''مگس'' کو باغ میں جانے دے دیتے لیکن یہاں پروانے کے خون کا معاملہ ہمارے اپنے گھریلو یعنی پرسنل مفتی علامہ بریانی عرف برڈ فلو نے تو فتویٰ دے دیا ہے کہ مقروض کون نہیں ہوتا، اب مقروض بے چارا کوئی سیر سپاٹا بھی نہ کرے اور اپنا پیدائشی نام ترک کر کے صفاتی نام حاجی اور الحاج بھی اختیار نہ کرے اور پھر انھوں نے ایک بہت بڑی دلیل چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کے ایک قول زرین سے بھی اخذ کر کے دے دی ہے قہر خداوندی نے ایک دن علامہ سے کہا کہ کون کہتا ہے کہ گدھا حلال نہیں ہے آج میں نے ایک مرتے ہوئے گدھے کے گلے پر چھری پھیر کر اسے حلال کیا ہے وہ بھی از راہ خدا ترس تا کہ بے چارا جانکنی کی تکلیف سے نجات پا جائے

میں بھی رک رک کر نہ مرتا جو زباں کے بدلے

دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس

چنانچہ علامہ نے تو فتویٰ دیا ہوا ہے کہ جب گدھا حلال ہو سکتا ہے تو ''مقروض'' حاجی کیوں نہیں بن سکتا، وہ بھی ان حالات میں کہ اس کا مقصد حج کرنے کے بجائے صرف ''تبدیلی نام'' ہو، لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ علامہ بریانی کے فتاویٰ پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اس لیے ہم ملک کے مستند اور قابل اعتماد مفتیان کرام اور قاضیان عظام سے فتویٰ لینا چاہتے ہیں کہ کیا کسی مقروض پر ''حج'' فرض ہو سکتا ہے وہ بھی ایسا مقروض جس کے پاس قرضے کی ادائیگی کے لیے ''سود'' پر مزید قرضہ لینے کے سوا کوئی دوسرا چارہ موجود ہی نہ ہو ایک چارہ البتہ ہے لیکن وہ سود سے بھی زیادہ کٹھن ہے۔

یہ دوسرا چارہ یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے عوام مل کر اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یک جہتی کے ساتھ اپنے تمام دستیاب لیڈروں کو خرچ کر ڈالیں لیکن پاکستان کے عوام اتنے دشمن شناس ہوتے تو یہ دن دیکھنا ہی کیوں پڑتا... گویا... معاملہ سخت ہے اور جان عزیز... کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز، تو جملہ جنابان عالی مقام، مفتیاں کرام و قاضیان عظام... کیا فرماتے ہیں اس مسئلے کے بیج... کہ کیا کسی پاکستانی پر حج فرض ہو سکتا ہے، چھ سو پچیس روپے کم ایک لاکھ کا مقروض ہونے پر... کیا اس ملک کو یہ حق ہے کہ لگ بھگ انیس ہزار ارب کا مقروض ہو کر بھی حج کے وفود سرکاری حجوں اور حج کی براتیں لے کر جائے، شاید غالبؔ نے کسی ایسے ہی موقع پر کسی ''ایسے ہی'' کو سمجھانے کے لیے کہا تھا کہ

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

جہاں تک حکومت کے وزیران کرام اور مشیران عظام کا تعلق ہے تو وہ تو ہمیں معلوم ہے کہ باز نہیں آئیں گے بلکہ ان کو ہر موقع پر ''دوران گل'' بن کر فائدہ اٹھانا آتا ہے، دوران گل کا قصہ یوں ہے کہ کافی عرصہ پہلے ہمارے گاؤں کے کچھ لوگ ایک لانچ میں چھپ چھپا کر بیرون ملک بھیجنے والوں کے ہاتھوں پھنس گئے کراچی سے ان کو بٹھا کر کسی ویران ساحل پر اتار دیا گیا بے چاروں کے پاس تھوڑی سی رقم تھی اور باقی اللہ کا آسرا تھا سارے گھبرائے ہوئے درختوں کے ایک جھنڈ میں بیٹھے تھے کہ ان کے ساتھ کیا کیا ہو سکتا ہے سب کے دل دھڑک رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے، لیکن دوران گل جو پیشے کے لحاظ سے نائی تھا اپنی کسوت ساتھ لے کر گیا تھا۔

اس نے حالات کا اندازہ لگاتے ہی ایک سایہ دار درخت چنا اس کی جڑ میں کچھ پتے بچھائے درخت کے تنے میں ایک طرف آئینہ پھنسا کر دوسری طرف استرا تیز کرنے کا پٹہ لٹکا کر اپنی دکان سجا لی سو ڈیڑھ سو آدمی تھے کچھ یہاں وہاں جنگل میں دوسری لانچوں کے آئے ہوئے بدنصیب بھی تھے سب کی داڑھیاں بڑھی ہوئی تھیں دیکھتے ہی دیکھتے دوران گل کی دکان چل نکلی... حکومت پاکستان اور پھر خاص طور پر اس کے دوران گل بڑے ہوشیار ہیں کسی کا حج قبول ہو نہ ہو ان کو اپنی دکانداری کرنا آتی ہے یہاں اضافہ وہاں اضافہ فیس وہ فیس... یہ ٹیکس وہ ٹیکس... کسی کا گھر جلے تو جلے ان کی ہانڈی تو پک جائے گی، اور بھی بہت ساری فتویٰ طلب باتیں ہیں مثلاً اسلام کے تیسرے رکن زکوٰۃ کے نہ دینے والوں پر حج فرض ہو سکتا ہے۔

پڑوس میں بھوک سے مرتے اور بلکتے ہوؤں کو چھوڑ کر حج پر جانا مسلمانی ہے؟... سود کی رقم سے حج کرنا قابل قبول ہوتا ہے؟... لیکن ہمیں ان سب سے کوئی کام نہیں ہے ہمیں تو صرف یہ پتہ کرنا ہے کہ کیا ہم بمقام اسلام آباد اس خاص دفتر سے رجوع کریں یا نہ کریں جو مک مکا کا حج کراتا ہے اور کیا اگر میرا ملک اٹھارہ ہزار ارب کا مقروض ہو اور ملک کا ہر باشندہ چورانوے ہزار کا نادہندہ ہو، تو ہم حج پر جا سکتے ہیں یا نہیں... کوئی نہ کوئی مفتی قاضی و محتسب تو ہمیں بتائے ...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں