تم چاہو تو۔۔

سازش کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ جب وہ ہو رہی ہوتی ہے اُس وقت لوگوں کو نظر نہیں آتی ۔۔۔


انیس منصوری June 25, 2014
[email protected]

جھوٹ کو اتنا سچ نظر آنا چاہیے کہ نسلیں گزرنے کے بعد معلوم ہو کہ آپ نے اُن کی کن کن رگوں سے خون چوسا ہے۔ قتل اتنی صفائی سے کرو کہ وہ قابل احترام محسوس ہو۔ یہ آپ کا فن ہونا چاہیے کہ آپ ہوا کو ٹھوس بتائیں اور لوگ آپ کی بات پر لبیک کہتے ہوئے ہوا کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیں۔ آپ بھوک سے بلکتے ہوئے سوکھے انسانوں کو طاقت ور شیر بتا دیں اور لوگ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکتے ہوں لیکن خود کو جنگل کا بادشاہ سمجھنے لگیں۔ درد سے روتے ہوئے چہروں کو آپ خوشی کی نشانیاں قرار دے دیں۔ اسی فن کو نامور لکھاری جارج اورویل نے سیاسی زبان کا نام دیا تھا۔ جو لوگوں کو اُس سیراب میں لے جاتی ہے جہاں سے واپسی پر صرف ندامت اور پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے مگر فنکار اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کر چکا ہوتا ہے۔ اور طرف سے واہ واہ وصول کر رہا ہوتا ہے۔

سازش کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ جب وہ ہو رہی ہوتی ہے اُس وقت لوگوں کو نظر نہیں آتی۔ اُس وقت جذبات کی ایک لُو ہوتی ہے جو روکنے کا نام نہیں لیتی۔ جب پانی سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنی نسلوں کو برباد کر کے چلا گیا۔ اور اُس میں کمال فن کا مظاہرہ وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سلگتے جذبات کو کس طرح سے اپنی باتوں کے سحر میں گھما دیںگے۔ میں صدیوں پرانی سازشوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایران میں کس نے کب اور کیوں انقلاب برپا کیا اور کتنے برسوں بعد انھیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مصدق کے ساتھ انھوں نے انجانے میں کیا کر دیا۔ سب کو معلوم ہے کہ بھٹو کہ ساتھ کیا ہوا لیکن اُس وقت ہم پر کچھ اور ہی بھوت سوار تھا۔

اب اگر ایک طرف کمال کا فنکار میسر ہو اور دوسری طرف سازش بھی تیار ہو تو مزید مصالحہ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر یہ کیسی سازش ہے کہ سب لوگوں کو سب کچھ معلوم ہے۔ ایک طبقہ ہر صورت میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں لگا ہوا کہ یہ سازش موجودہ حکومت کے خلاف تیار کی گئی ہے اور اس کے پس پردہ پاکستان کا طاقت ور ادارہ ہے۔ کئی دنوں سے جاری اس بحث میں جب پوچھا جائے کہ جناب اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ''سبز انقلاب'' (یہ واضح نہیں کہ سبز انقلاب میں کتنے درخت لگائے جائیں گے) کے پیچھے فوج ہے۔۔؟ تو وہ ماضی کی پوٹلیوں سے پرانے اخبار نکالنے لگ جاتے ہیں۔ جب کہ یہ نہیں جانتے کہ قتل کے لیے اُس قاتل کا انتخاب ہوتا ہے جسے کوئی پہچان نہ سکے۔

خیر وہ پرانے اخبار سے تصویریں نکال نکال کر بتاتے ہیں کہ جناب دیکھے، طاہر القادری کے ساتھ کون کون کھڑا ہے۔ شیخ رشید، چوہدری برادران اور عمران خان ۔۔ ہم مجبوراً کوئی جواب نہیں دیتے تو وہ بضد رہتے ہیں کہ کیونکہ ان سب کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے اسٹیبلشمنٹ سے ہے اس لیے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ طاہر القادری کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے ۔۔ اچھا اس طرح تو نواز شریف کی بھی سیاسی پرورش وہیں سے کہی جاتی ہے تو کیا اُن کا ماضی بھی دیکھ کر آج کا فیصلہ کیا جائے ۔۔؟

ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اُس گھڑی کے ساتھ اپنی سوچ کو روک کر بیٹھ گئے ہیں جس کی چابی ختم ہو گئی ہے ۔۔ ان سے جب پوچھا کہ جب طاہر القادری، جہاز میں چلا چلا کر فوج کو پکار رہے تھے تو فوج اُس وقت آ جاتی۔ ؟ اس بات کا جواب بھی گول کر جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا، اخبار اور ٹی وی پر کئی تبصرہ نگار اسی طرح کا ذکر کر رہے ہیں لیکن ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے اب تک کوئی ایسی ٹھوس دلیل نہیں ملی کہ یہ سارا کھیل اس لیے ہو رہا ہے کہ پاکستان کا مضبوط ادارہ، پاکستان کی حکومت کے خلاف طاہر القادری کو میدان میں لے آیا ہے۔ اور اس کا مقصد جمہوریت کو ختم کرنا ہے۔

گولیاں چلا کر عورتوں کو قتل کرنا کسی کی سازش ہے یا پھر اپنے پائوں پر کلہاڑی چلانا ؟

اب جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جناب فوج اور حکومت کے درمیان کیوں تعلقات خراب ہیں؟ تو ان کا فوری جواب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف اور دوسری وجہ شمالی وزیر ستان کا آپریشن ہے۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ ہو سکتا ہے کہ کسی میٹنگ میں اختلاف ہوا ہو لیکن شمالی وزیرستان آپریشن پر اب دونوں کے درمیان کافی حد تک اتفاق ہے یا پھر معمولی نوعیت کا اختلاف ہے۔ جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف خود کہہ چکے کہ یہ آپریشن ہماری مرضی سے ہو رہا ہے اور پوری قوم فوج کے ساتھ ہے۔

تو پھر وہ ایک اور کہانی لے آتے ہیں کہ پاکستان میں یہ ادارہ اتنا مضبوط ہے کہ اُس کے سامنے وزیر اعظم کی نہیں چل سکتی۔ حکومت نے مجبوراً ہاں کر دی۔ میرا کہنا کا مقصد یہ ہے کہ ہر ہونے والے واقعے کو ماضی کی بنیاد پر پرکھ کر اپنے خیالات اور خواہشات خبر کی شکل کیوں دی جا رہی ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ، کچھ ادارے میڈیا میں اس طرح کی باتیں پھیلانے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ حکومت اُن کے ساتھ ہے یا پھر فوج اُن کے ساتھ ہے۔ اختلاف رائے ہر جگہ ہوتا ہے۔ ایک گھر میں، ایک جماعت میں ایک حکومت میں اور ہر جگہ ۔۔ لیکن یہ اختلاف ابھی اُس سطح پر نہیں کہ جس سے ہمیں ڈرایا جا رہا ہے ۔

گزشتہ دنوں طاہر القادری صاحب کی آمد اور اُس سے قبل لاہور میں لوگوں کی شہادت کی میڈیا کوریج سے یہ تاثر ضرور سامنے آیا۔ لگا یوں ہے کہ جیسے اپنی نشریات کو بحال کرانے والا چینل مکمل طور پر نواز شریف کے ساتھ ہے اور وہ کوئی ایسی خبر نہیں چلائے گا جس سے طاہر القادری کا موقف واضح ہو۔ ہر خبر کو ایک زاویے سے پیش کیا گیا اور براہ راست یہ تاثر دیا گیا کہ وہ حکومت کے ساتھ ہے اور طاہر القادری کے ساتھ کوئی اور ادارہ ہے۔ جب کہ مجھے خود حیرت ہوئی کہ جب سیاسی لوگ یہ کہتے ہیں کہ میڈیا کا بہت شکریہ جنھوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ خیر بات یہ تھی کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے فائدے کے لیے طاقت کے دو محور تشکیل دینا چاہتے ہیں جس سے اُن کی دکان کو فروغ مل سکے۔

اس بات سے انکار نہیں کہ اختلاف ہوتا ہے ۔ اور اس حوالے سے لابنگ بھی کی جاتی ہے۔ کئی صحافیوں اور سیاست دانوں سے مختلف لوگوں اور اداروں نے باتیں کی جس کا مقصد اپنی لابی کو مضبوط کرنا ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ کیوں برآمد کیا جا رہا ہے کہ ساری ٹیمیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ سیاست میں بہتر وقت پر بہتر فیصلہ ہی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ زیادہ دور مت جائیں جب سابق چیف جسٹس کے ساتھ ایک پولیس اہلکار نے بدتمیزی کی تھی تو نواز شریف صاحب سمیت کئی رہنما یہ کہتے تھے کہ یہ مشرف کے کہنے پر ہوا ہے اُسے فوری مستعفی ہو جانا چاہیے۔

اور اُس وقت مشرف نے کہا تھا کہ مجھے نہیں معلوم یہ کس نے حکم دیا تھا۔ آج اُسی طرح کی صورت حال کا سامنا مسلم لیگ (ن) کو ہے۔ شہباز شریف بار بار کہہ رہے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم۔ لیکن میڈیا کہہ رہا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انھیں معلوم نہ ہو۔ اُس وقت میڈیا کی نواز شریف صاحب تعریف کرتے تھے اور ساتھ دینے کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ آج ان کی جگہ کوئی اور کر رہا ہے۔ کل تک پیپلز پارٹی کو شکوہ تھا کہ میڈیا کہ کچھ اداکار اُن کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔ اور آج وزیر اعظم صاحب یہ ہی فرما رہے ہیں ۔

بات جارج سے نکلی تھی اور میں اس کی تحریر پر کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ جو دن کو رات کہہ دے ، جو قتل کو خوبصورت سانحہ بنا کر پیش کر دے اور جو سازش کو پھولوں کا ہار بنا کر پیش کر دے وہ ہی سیاسی زبان ہوتی ہے۔ اور مجھے تمام تر سازشی نظریوں کے ٹھوس ثبوت اب تک نہیں ملے لیکن دو باتیں واضح ہوئی ہے اول یہ کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال مسلم لیگ (ن) سیاسی زبان میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ اور دوم یہ کہ کچھ لوگ اور ادارے اس وقت زبردستی اپنی وابستگی بنا رہے ہیں۔ اور وہ دو اہم لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کون ٹھیک وقت پر ٹھیک فیصلہ کرتا ہے۔ یا پھر سب استعمال ہو جائیں گے اور پھر ہو گا ایک نئی جدوجہد کا سلسلہ۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں