پسند کی شادی یا دعوت عتاب
شادی کا معروف تصور یہ ہے کہ اس میں مرد اور عورت باہم مل کر ازدواجی زندگی گزارنے پر رضامند ہو جاتے ہیں
KARACHI:
ہمارے معاشرے میں عورتوں پر گھریلو تشدد اور استحصال کا مسئلہ بھی پرانا ہے۔ آئے روز اس حوالے سے میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں۔ مگر اس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ محض مذمتی بیانات اور تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دینے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ 1999 میں خواتین کی عالمی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں عورتوں پر گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور ایچ آئی وی (H.I.V) ایڈز اور گلوبلائزیشن کے عورتوں پر اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعادہ کیا گیا تھا اور ایک نئے منصوبے اور اس کے ساتھ ایک سیاسی اعلامیہ کی منظوری دی گئی تھی۔
دونوں دستاویزات کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس وقت کے جنرل اسمبلی کی صدر کی طرف سے حتمی فیصلے کے لیے بلانے سے پہلے دو درجن کے قریب ملکوں نے نئی دستاویزات کے کچھ مخصوص نکات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور منظوری کے بعد 12 کے قریب دیگر ممالک نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان دستاویزات کو عورتوں کے آگے بڑھانے کا عالمی ایجنڈا قرار دیا گیا تھا، اس سے قبل عورتوں کو بے راہ روی کی اجازت دلوانے کے لیے مہم چلانے والی این جی اوز اور دیگر گروپوں نے اپنے مطالبات منوانے کی بھرپور کوششیں کیں اور انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس عالمی کانفرنس میں اسقاط حمل، جنسی آزادی کے حقوق اور وراثت میں برابری کا حق جیسے متنازعہ معاملات پر اتفاق رائے نہ ہو سکا تھا البتہ بیجنگ اور انسانی حقوق اور ترقی سے متعلق دیگر کانفرنسز کی توثیق کی تھی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ 1999کے مطابق دنیا بھر میں 3 ارب غریب لوگوں میں 70 فیصد عورتیں شامل ہیں، دنیا کے 270 کروڑ مہاجرین میں 70، 75 فیصد تک عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ 20 ویں صدی میں صرف 24 خواتین سربراہ مملکت منتخب ہوئیں، خواتین کے پاس دنیا بھر میں پارلیمنٹ کی 11.4 فیصد نشستیں ہیں۔ جن میں اسکینڈے نیویا میں 35.9 فیصد ، یورپ اور امریکا میں 13.2 فیصد، افریقہ میں 11.3 فیصد، ایشیا میں 9.7 فیصد جب کہ عرب ممالک میں 3.4 فیصد نشستیں ہیں، اقوام متحدہ کے 186 اعلیٰ سطحی عہدوں میں سے صرف سات پر خواتین تقرر کی گئی۔
دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں میں لڑکیوں کا تناسب 66 فیصد ہے، ترقی پذیر ممالک میں مزدور عورتیں 31 فیصد ہیں اور دنیا بھر میں 46.7 فیصد ہے، پاکستان میں عورتیں 50 فیصد جسمانی اور 90 فیصد ذہنی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایشیا و شمالی افریقا میں 6 کروڑ خواتین کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا جاتا۔ ہر سال دنیا میں 65 لاکھ خواتین فروخت کر دی جاتی ہیں جن میں پاکستان میں 50 ہزار، بھارت میں 80 ہزار، چین میں ایک لاکھ اور جاپان میں 40 ہزار خواتین فروخت کی جاتی ہیں۔ ہر سال تقریباً 575000 عورتیں دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں۔ بھارت میں ہر سال 5 ہزار خواتین جہیز کی عدم دستیابی کے باعث سسرال والوں کے ہاتھوں قتل کر دی جاتی ہیں۔ امریکا میں ہر 9 سیکنڈ میں ایک عورت کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
شادی کا معروف تصور یہ ہے کہ اس میں مرد اور عورت باہم مل کر ازدواجی زندگی گزارنے پر رضامند ہو جاتے ہیں اور ان کے مابین چند مذہبی رسوم کی ادائیگی کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا جاتا ہے جس کی پابندی دونوں پر لازم ہوتی ہے لیکن اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے صدیوں کی جد وجہد کارفرما ہے۔ مسلمانوں میں اپنے خاندان میں شادی تہذیب کا ایک جزو لازم قرار دی جاتی ہے حالانکہ شریعت کے نقطہ نگاہ سے خاندان میں شادی ضروری نہیں بلکہ دین صرف نکاح کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔
''برادری یا خاندان سے باہر شادی'' آج کل تقریباً ہر گھر میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی صورت میں زیر بحث ہے۔ اس ضمن میں والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دور اندیشی سے سوچ سمجھ کر کام لیں۔ اپنی اولاد کومادر پدر آزاد و بے لگام طرز زندگی سے دور رکھیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے میل جول پر نظر رکھی جائے اگر کہیں محبت کی دیوانگی پروان چڑھ جائے اور لڑکا اور لڑکی شادی کے لیے زور دیں تو پھر اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اس معاملے میں ان کی مرضی کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ زندگی بہر حال ان دونوں کو گزارنی ہے۔
پسند کی شادی کے حوالے سے تجویز دی جاتی ہے کہ حکومت ایسا قانون بنائے جس کے تحت ایک مشینری کا قیام عمل میں لایا جائے جو اپنی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکیوں اور لڑکوں کے معاملات سے نمٹ سکے۔ اس مشینری کی ذمے داریوں میں یہ بات بھی شامل کی جائے کہ اگر کسی خاتون کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہو رہی ہو تو وہ خود یا اس کا کوئی نمایندہ اس بارے میں متعلقہ ڈسٹرکٹ یا مجسٹریٹ کو درخواست دے سکے۔ جس کے بعد مشینری اپنی ذمے داریاں پوری کرے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے میل جول سے نئی معاشرتی قدروں میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں نئی اور پرانی نسل کے درمیان کشمکش کو جنم دے رہی ہیں۔ بے شمار لڑکے اور لڑکیاں اس بنا پر عتاب کا شکار ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا جنھوں نے شادی کر لی ہے اور ان کے سرپرست ان کو قبول نہیں کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں اس طرح کے ہزاروں واقعات ہو چکے ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے اسی طرح کاروکاری کے نام پر سیکڑوں نوجوان قتل کیے جا چکے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی دھرتی عشق و محبت کی لازوال داستانوں کی خوشبوئوں سے مہک رہی ہے، یہاں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنوں، عمر ماروی، شیریں فرہاد اور اس طرح کی بے شمار عشقیہ داستانوں سے لوگ آج بھی محبت کی نرمی اور عشق کا گداز محسوس کرتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب محبت کے لیے یہ دھرتی بہت سنگلاخ ہو گئی ہے۔ ہمارے درمیان رواداری اور بھائی چارے کی فضا ختم ہوتی جا رہی ہے، خواتین کے حقوق کی ترجمان انیس ہارون کا ایک بیان تھا کہ ''محبت کی شادی کرنا تو ہمیشہ سے مشکل رہا ہے لیکن اب تو محبت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے''۔
واقعات و شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ والدین کو اپنے رویے میں نرمی پیدا کرنی چاہیے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں راہ اعتدال سے نہ ہٹیں۔ اسلام کے قوانین بھی خواتین اور مردوں کے گھلنے ملنے کی ممانعت کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی اپنی پسند کی شادی کے عمل سے عموماً فساد کے پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات لازمی ہے کہ شادی کے لیے شریعت کی پیروی کی جائے اور شریعت شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی کو ضروری قراردیتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورتوں پر گھریلو تشدد اور استحصال کا مسئلہ بھی پرانا ہے۔ آئے روز اس حوالے سے میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں۔ مگر اس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ محض مذمتی بیانات اور تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دینے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ 1999 میں خواتین کی عالمی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں عورتوں پر گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور ایچ آئی وی (H.I.V) ایڈز اور گلوبلائزیشن کے عورتوں پر اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعادہ کیا گیا تھا اور ایک نئے منصوبے اور اس کے ساتھ ایک سیاسی اعلامیہ کی منظوری دی گئی تھی۔
دونوں دستاویزات کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس وقت کے جنرل اسمبلی کی صدر کی طرف سے حتمی فیصلے کے لیے بلانے سے پہلے دو درجن کے قریب ملکوں نے نئی دستاویزات کے کچھ مخصوص نکات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور منظوری کے بعد 12 کے قریب دیگر ممالک نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان دستاویزات کو عورتوں کے آگے بڑھانے کا عالمی ایجنڈا قرار دیا گیا تھا، اس سے قبل عورتوں کو بے راہ روی کی اجازت دلوانے کے لیے مہم چلانے والی این جی اوز اور دیگر گروپوں نے اپنے مطالبات منوانے کی بھرپور کوششیں کیں اور انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس عالمی کانفرنس میں اسقاط حمل، جنسی آزادی کے حقوق اور وراثت میں برابری کا حق جیسے متنازعہ معاملات پر اتفاق رائے نہ ہو سکا تھا البتہ بیجنگ اور انسانی حقوق اور ترقی سے متعلق دیگر کانفرنسز کی توثیق کی تھی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ 1999کے مطابق دنیا بھر میں 3 ارب غریب لوگوں میں 70 فیصد عورتیں شامل ہیں، دنیا کے 270 کروڑ مہاجرین میں 70، 75 فیصد تک عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ 20 ویں صدی میں صرف 24 خواتین سربراہ مملکت منتخب ہوئیں، خواتین کے پاس دنیا بھر میں پارلیمنٹ کی 11.4 فیصد نشستیں ہیں۔ جن میں اسکینڈے نیویا میں 35.9 فیصد ، یورپ اور امریکا میں 13.2 فیصد، افریقہ میں 11.3 فیصد، ایشیا میں 9.7 فیصد جب کہ عرب ممالک میں 3.4 فیصد نشستیں ہیں، اقوام متحدہ کے 186 اعلیٰ سطحی عہدوں میں سے صرف سات پر خواتین تقرر کی گئی۔
دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں میں لڑکیوں کا تناسب 66 فیصد ہے، ترقی پذیر ممالک میں مزدور عورتیں 31 فیصد ہیں اور دنیا بھر میں 46.7 فیصد ہے، پاکستان میں عورتیں 50 فیصد جسمانی اور 90 فیصد ذہنی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایشیا و شمالی افریقا میں 6 کروڑ خواتین کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا جاتا۔ ہر سال دنیا میں 65 لاکھ خواتین فروخت کر دی جاتی ہیں جن میں پاکستان میں 50 ہزار، بھارت میں 80 ہزار، چین میں ایک لاکھ اور جاپان میں 40 ہزار خواتین فروخت کی جاتی ہیں۔ ہر سال تقریباً 575000 عورتیں دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں۔ بھارت میں ہر سال 5 ہزار خواتین جہیز کی عدم دستیابی کے باعث سسرال والوں کے ہاتھوں قتل کر دی جاتی ہیں۔ امریکا میں ہر 9 سیکنڈ میں ایک عورت کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
شادی کا معروف تصور یہ ہے کہ اس میں مرد اور عورت باہم مل کر ازدواجی زندگی گزارنے پر رضامند ہو جاتے ہیں اور ان کے مابین چند مذہبی رسوم کی ادائیگی کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا جاتا ہے جس کی پابندی دونوں پر لازم ہوتی ہے لیکن اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے صدیوں کی جد وجہد کارفرما ہے۔ مسلمانوں میں اپنے خاندان میں شادی تہذیب کا ایک جزو لازم قرار دی جاتی ہے حالانکہ شریعت کے نقطہ نگاہ سے خاندان میں شادی ضروری نہیں بلکہ دین صرف نکاح کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔
''برادری یا خاندان سے باہر شادی'' آج کل تقریباً ہر گھر میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی صورت میں زیر بحث ہے۔ اس ضمن میں والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دور اندیشی سے سوچ سمجھ کر کام لیں۔ اپنی اولاد کومادر پدر آزاد و بے لگام طرز زندگی سے دور رکھیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے میل جول پر نظر رکھی جائے اگر کہیں محبت کی دیوانگی پروان چڑھ جائے اور لڑکا اور لڑکی شادی کے لیے زور دیں تو پھر اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اس معاملے میں ان کی مرضی کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ زندگی بہر حال ان دونوں کو گزارنی ہے۔
پسند کی شادی کے حوالے سے تجویز دی جاتی ہے کہ حکومت ایسا قانون بنائے جس کے تحت ایک مشینری کا قیام عمل میں لایا جائے جو اپنی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکیوں اور لڑکوں کے معاملات سے نمٹ سکے۔ اس مشینری کی ذمے داریوں میں یہ بات بھی شامل کی جائے کہ اگر کسی خاتون کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہو رہی ہو تو وہ خود یا اس کا کوئی نمایندہ اس بارے میں متعلقہ ڈسٹرکٹ یا مجسٹریٹ کو درخواست دے سکے۔ جس کے بعد مشینری اپنی ذمے داریاں پوری کرے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے میل جول سے نئی معاشرتی قدروں میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں نئی اور پرانی نسل کے درمیان کشمکش کو جنم دے رہی ہیں۔ بے شمار لڑکے اور لڑکیاں اس بنا پر عتاب کا شکار ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا جنھوں نے شادی کر لی ہے اور ان کے سرپرست ان کو قبول نہیں کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں اس طرح کے ہزاروں واقعات ہو چکے ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے اسی طرح کاروکاری کے نام پر سیکڑوں نوجوان قتل کیے جا چکے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی دھرتی عشق و محبت کی لازوال داستانوں کی خوشبوئوں سے مہک رہی ہے، یہاں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنوں، عمر ماروی، شیریں فرہاد اور اس طرح کی بے شمار عشقیہ داستانوں سے لوگ آج بھی محبت کی نرمی اور عشق کا گداز محسوس کرتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب محبت کے لیے یہ دھرتی بہت سنگلاخ ہو گئی ہے۔ ہمارے درمیان رواداری اور بھائی چارے کی فضا ختم ہوتی جا رہی ہے، خواتین کے حقوق کی ترجمان انیس ہارون کا ایک بیان تھا کہ ''محبت کی شادی کرنا تو ہمیشہ سے مشکل رہا ہے لیکن اب تو محبت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے''۔
واقعات و شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ والدین کو اپنے رویے میں نرمی پیدا کرنی چاہیے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں راہ اعتدال سے نہ ہٹیں۔ اسلام کے قوانین بھی خواتین اور مردوں کے گھلنے ملنے کی ممانعت کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی اپنی پسند کی شادی کے عمل سے عموماً فساد کے پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات لازمی ہے کہ شادی کے لیے شریعت کی پیروی کی جائے اور شریعت شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی کو ضروری قراردیتی ہے۔