میٹا فیس بک ٹیکنالوجی اور بھارتی لابنگ

حافظ بلال بشیر  اتوار 16 جون 2024
بھارت میں فیس بک کی طرف سے مسلمان مخالف مواد دکھانے کی منظوری ایک منافقانہ عمل ۔ فوٹو : فائل

بھارت میں فیس بک کی طرف سے مسلمان مخالف مواد دکھانے کی منظوری ایک منافقانہ عمل ۔ فوٹو : فائل

موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ پوری دنیا ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی کر رہی ہے، آج سے سو سال قبل ٹیکنالوجی میں اتنا عروج نہیں تھا دشمن ممالک کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ہتھیاروں سے لیس ممالک کا پلڑا بھاری ہوتا تھا۔ اگر کسی ملک کی مجموعی معیشت اتنی تگڑی نہیں بھی ہوتی تھی تو اس کی مضبوط فوج اور جدید ہتھیار دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیتے تھے۔ لیکن ء2000 کے بعد ٹیکنالوجی کے شعبے نے اس قدر ترقی کی کہ اب ترقی یافتہ ممالک بھی نت نئی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجادات سے دشمن قوتوں کو مات دے رہے ہیں۔

مثال کے طور پر اس وقت دنیا میں مقبول ترین سوشل میڈیا ایپلی کیشن فیس بک، ایکس (ٹوئیٹر)، اسنیپ چیٹ، ٹک ٹاک، انسٹاگرام وغیرہ ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک ایپلی کیشن بھی ایسی نہیں ہے جس پر اغیار کا کنٹرول نہ ہو، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں، حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی اس شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہے۔

بھارت آئی ٹی میں سالانہ ایکسپورٹ 194 بلین ڈالر کر رہا ہے جب کہ پاکستان کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ کا حجم 1.9بلین ڈالر ہے۔ نہ صرف وہ ہم سے آگے ہے بلکہ سوشل میڈیا کی نام ور اور اثر رسوخ والی ایپلی کیشن میٹا فیس بک میں بھارت کی اجارہ داری ہے۔ یہ اجارہ داری ایک دن میں قائم نہیں ہوتی، بلکہ اس پہ پالیسی ساز اور تھنک ٹینک برسوں محنت کرتے ہیں۔ اس اثر و رسوخ ہی کی وجہ سے فیس بک انتظامیہ دنیا بھر میں عمومی طور پر اور بھارت میں خصوصی طور پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز مواد دکھانے تک کی منظوری دے چکی ہے۔

اثرورسوخ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ حقائق ہیں۔ اسی حوالے سے جب میں نے ذاتی طور پر تحقیق کی تو میرے لیے یہ حیران کن اور چونکا دینے والا انکشاف تھا کہ فیس بک انتظامیہ میں سب سے بڑے عہدے دار آدتیہ اگروال (سافٹ ویئر انجینئر) بھارتی نژاد ہیں۔ یہ فیس بک پروڈکٹ کے پہلے ڈائریکٹر بھی تھے ان کی اہلیہ انجینئر روچی سنگھوی بھی بھارتی ہیں اور وہ بھی یہیں اعلیٰ عہدے دار ہیں۔ ان کی شادی 2010 میں ہوئی اور فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے شادی میں خصوصی طور شرکت کی تھی۔ اس سے آپ ان کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

انامیتا گوہا ایک کوانٹم کمپیوٹنگ اور اے آئی ماہر ہیں اور یہ بھی بھارتی نژاد ہیں۔ ان کے علاوہ انکھی داس نامی ایک خاتون بھی ڈائریکٹر آف پبلک پالیسی کے عہدے پر رہی ہیں۔ یہ مسلم کمیونٹی سے سب سے زیادہ متعصبانہ پالیسی لاگو کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ مسلم کمیونٹی سے تعصب رکھنے والا ایک اعلیٰ عہدے دار اسرائیلی بھی ہے۔Evgeniy Gabrilovich  ریسرچ ڈائریکٹر ہے۔ اس سے پہلے، وہ گوگل میں پرنسپل سائنٹسٹ/ڈائریکٹر بھی رہ چکا ہے۔

ان شخصیات کے علاوہ بھی انتظامیہ میں بھارتی لابنگ کا کافی اثرورسوخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی بھارت سے اٹھنے والی ہر حق کی آواز، ہر حریت کو فیس بک نے ڈیلیٹ کر کے اُن اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کردیا گیا۔ جیسا کہ آپ نے 2016 میں مشاہدہ کیا کہ برہان وانی شہید کی تصویر اپ لوڈ کرنے والے تمام اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کردیا گیا۔ حتیٰ کہ اس دور کے حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی شہید کی گرفتاری کی ایک ویڈیو بھی فیس بک نے ڈیلیٹ کردی تھی۔

یہ بھارتی لابی کا فیس بک پر تسلط قائم و دائم ہونے کا واضح ثبوت ہے، اور اب سال 2024 میں فیس بک نے باقاعدہ طور پر مسلم مخالف مواد دکھانے کی منظوری دے دی ہے۔ اس پالیسی کے سامنے آنے کے بعد بھارت میں مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں اور دہشت گردوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ نئی پالیسی سامنے آنے کے بعد انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمان مخالف مواد پھیلانے اور مذہبی تشدد کو بڑھانے کے لیے بے دریغ سوشل میڈیا کا استعمال ہورہا ہے، جب کہ ان کے راہ نماؤں کی طرف سے بھی ایسی ہی حرکتیں سامنے آ رہی ہیں۔

نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے میٹا کو انگریزی، ہندی، بنگالی، گجراتی میں اشتہارات پیش کیے گئے ہیں، جن میں سے 14 کو منظور کیا گیا۔ میٹا فیس بک کی یہ واضح پالیسی ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ہیرا پھیری کرنے والے مواد کو پھیلنے سے روکے گی، تاہم مسلمانوں کے خلاف مواد کو نہیں ہٹایا گیا جب کہ مودی مخالف تقاریر اور اشتہارات کو ہٹا دیا جاتا ہے۔

میٹا انتظامیہ اور ملازمین کی لمبی لسٹ میں صرف ایک برائے نام مسلم فرد ہے جس کا نام بہداد اسفہبد میر حسین زادہ ہے۔ یہ ایرانی نژاد اور کینیڈین نیشنل ہے۔ لیکن اس شخص کے پاس کوئی کلیدی عہدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس شخص نے کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے لیے کوشش کی ہے۔

اس ساری صورت حال کے پیش نظر عمومی طور پر امت مسلمہ اور خاص طور پر پاکستانی نوجوانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اس میدان میں کہاں کھڑے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میٹا کی منافقانہ پالیسیوں کو ختم کروانے کے لیے اہم کردار ادا کریں۔ اور ان ایپس کی جگہ مقامی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر سرمایہ کاری کریں۔ خصوصاً کاروباری افراد ایسی منافقانہ پالیسیوں کی حامل ایپس پر اپنے اشتہارات نہ دیں بلکہ ان کی متبادل ایپس میں سرمایہ کاری کریں۔

دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی بنیادی اور پہلی وجہ بڑوں اور سرکاری سطح پر نوجوانون کی حوصلہ افزائی نہ ہونا ہے۔

اگر ہم اپنے نوجوانون کو ان کی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں سرگرم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کریں، بر وقت راہ نمائی کی جائے اور ہر قسم کے دباؤ میں ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے رہیں تو امید ہے کہ آنے والے وقت میں وطن عزیز اور مسلم دنیا بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا لوہا منوا لے گی، جب کہ دوسری وجہ وسائل کی کمی ہے۔ ایک طرف جہاں یونی ورسٹز کی ابتر صورت حال ہے وہیں نظام تعلیم کی تفریق طلبہ میں حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے، اگر معیاری اور مساوی نظام تعلیم کا قیام عمل میں لایا جائے تو ہمارے نوجوان بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم جما کر اپنے حقوق کی آواز اور جدوجہد کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔