بقا سلامتی و فرض شناسی…
لوگوں میں انتشار پھیلانا، ایک دوسرے کو لڑوانا، لوگوں کو ورغلانا، ۔۔۔
سیاست اور نظم و نسق کا مسئلہ اسلام میں دوسرے ادیان سے کہیں زیادہ اہم اور نمایاں ہے۔ سیاست کو شرع مقدس سے جدا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ شرع کے تار و پود میں سیاست مضمر ہے۔ مینڈیٹ یافتہ قیادت کے سربراہ نے عوام کو سیاست کی ذمے داری دے کر اسے بخوشی قبول کیا یعنی عوام کے تمام کاروبار، فلاح و بہبود، جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری قبول کی، اللہ پاک کی طرف سے تو امت میں ''اتحاد'' کی تاکید کا حوالہ ہے کہ ہر صورت میں آپس میں اتحاد برقرار رکھا جائے اور آج جس طرح آپس میں بھائی چارے، محبت و اتحاد کو ختم کیا جا رہا ہے یہ سراسر احکام خداوندی کی خلاف ورزی ہے۔
لوگوں میں انتشار پھیلانا، ایک دوسرے کو لڑوانا، لوگوں کو ورغلانا، سراسر غیر فطری عمل کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ہر طرح کے سیاسی، فکری، اعتقادی، اقتصادی، اخلاقی اور سماجی گراوٹ اور فساد کو فروغ دینے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔ ان اصولوں کو ان مفاد پرست، مطلبی و جابر حکمرانوں کی اسٹرٹیجک سیاست کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ہے جو ماضی سے لے کر حال تک (عوام) پر اپنی گرفت و حکومت کرتے چلے آئے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن و آبادی اور ملکوں کے وسیع ہونے کے نتیجے میں ان کی مفاد پرستی عوام الناس کے لیے ایک طریقے سے ظالمانہ سیاست ہے۔
آمرانہ قیادت نے تو ایسے عجوبہ سیاست کی ابتدا کی جو جمہوری نقطہ نظر سے مکمل آئینی خلاف ورزی تھی۔ ملک کے ایک منتخب و عوامی مینڈیٹ یافتہ وزیر اعظم کو دورے سے واپسی پر ملک بدر کر دینا حرص و ہوس کا غلام بن کر اپنے مفاد کی خاطر عوامی فلاح و بہبود تو درکنار معصوم و مظلوم عوام پر ایسی کاری ضرب لگائی جس کی مثال نہیں ملتی۔
عوامی مینڈیٹ سے برسر اقتدار آنے والی قیادت ملک و عوام کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ عوام کو رہنمائی اور سیاست کے فرائض بھی معیاری طور پر انجام دے رہی ہے۔ ماضی کے ستائے سیاسی پہلو سے وابستہ حالات اس قدر بے لگام اور مسائل سے بھرپور ہیں جنھیں سلجھانا ایک دن یا ہفتے یا ماہ یا سال میں ناممکن ہے۔ ٹوٹے پھوٹے ملکی نظام کو درست کرنے میں کچھ نہیں تو وہی 5 سال گزر جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ دیگر اقتدار والوں نے کچھ نہیں چھوڑا نئی نویلی دلہن کی طرح ملک کے حالات کو معیشت کی ڈوبتی کشتی کو بحرانوں کے سیلابوں، تعلیمی فقدان کو مغربی کلچر کو جو نوجوان نسل کو اپنے سانچے میں ڈھال رکھے ہے اسے پھر سے ''سدھار'' کے راستے پر لے آنا اتنا آسان نہیں۔
عوام نے مینڈیٹ دے کر وزیر اعظم کا انتخاب کیا کچھ سمجھ کر ہی ناں؟ جب کہ کئی اور سلجھی سیاسی پہلو سے وابستہ شخصیات بھی میدان کارزار میں برسر پیکار تھیں لیکن عوامی مینڈیٹ (حق رائے دہی) کا پورا پورا استعمال عوام الناس نے سوچ سمجھ کر ہی (ن) لیگ کی جھولی میں ڈالا کیونکہ ''میاں'' صاحب کی اپیل بھی تھی کہ اتنا مینڈیٹ دیا جائے کہ بغیر بے ساکھی کے حکومت سنبھال سکوں۔ عوام نے خواہش پوری کر دی موجودہ دور سے پہلے دور حکومت کا جب جائزہ لیا تو ان سب کو (جو ماضی کے دور حکومت) پر فائز تھے عوام الناس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا عوام مرتے رہے، بلبلاتے رہے مگر ناخدا ''جام طہورا نوش'' کرتے رہے کیا یہی اقتدار ہے؟
میاں صاحب ایک سلجھے ہوئے، منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے ناتے گزشتہ ''دو'' دور حکومت کے بہت واضح تلخ تجربے کے حامل ہیں پھر ان کی آپسی سوچ، فکری انداز، طریقہ اقتدار اور سیاست دوسروں سے کجا افضل اور بلند ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات کی بہتری کے لیے مثبت و نتیجہ خیز اقدام کی ضرورت ہے۔ جب کہ (ن) لیگ کو موجودہ حالات کے پیش نظر کئی زاویوں سے مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں کئی اقسام کے بحران بھی شامل ہیں۔
بجلی بحران، پانی کی قلت، مہنگائی بحران، بھوک و افلاس، غربت، تعلیم، علاج و معالجے فوری طور پر قانونی شکنجوں میں جکڑا جائے، عوام نے سابق جمہوری قیادت سے بھی یہی توقعات تھی مگر رزلٹ صفر ہی ثابت ہوا اور مسائل میں بے پناہ اضافے کے ساتھ عوامی ضروریات ''جوں کے توں'' ہی رہ گئیں۔ یعنی صرف ''محرومی'' ، اسی کے ساتھ ایک قصیدہ۔ ماضی کے دور حکومت پر فائز شخصیات کی شان میں ''نصیب در پہ ترے، آزمانے آیا ہوں'' ۔ بہرکیف وزیر اعظم کے لیے ایک ایک دن قیمتی ہے۔ عوامی توقعات (ن) لیگ سے بہت ہیں۔ اب قیادت خود فیصلہ کرے کہ وہ کس طرح مرجھائے جمہوری پودے کو پھر سے جاندار بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اپنے تجربے و کردار کے حوالے سے۔ ملک کا شیرازہ تو بکھر ہی چکا ہے۔
میاں صاحب وزیر اعظم پاکستان کو اس بچے کھچے، مرجھائے جمہوری پودوں کو عوام اور ملک کی اجڑی دیاروں کو، عوامی چہار دیوار کے تقدس کو پامال ہونے سے کسی طرح بچائیں یہی عوامی خواہش ہے۔ جب تک اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا نہیں کریں گے مسائل کا حل اور دشمنوں کی سازشوں سے چھٹکارا ملنا بہت مشکل لگتا ہے جب کہ مسائل بے انتہا ہیں۔ وقت بہت کم ہے۔ میاں صاحب اپنے تجربے اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اجڑی نگری کو پھر سے گلزار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں یہی وقت کا تقاضا ہے۔ ہم سب اگر ایک ہو جائیں تو ملک کی تقدیر سنور جائے عوام یہی لو لگائے بیٹھے ہیں۔
اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ ''قوم افراد کا ایک مجموعہ ہے جس کو مخصوص اور مشترک جذبات نے باہم متحد کر دیا ہو۔ جب تک قوم کے اندر یکجہتی کا احساس نہ ہو کہ وہ ایک ہیں ان کی زندگی کے مسائل بھی مشترک ہیں تو ان میں وحدت و قومیت پیدا نہیں ہو سکتی اگر قوم کے افراد میں اتحاد، اتفاق اور ہمدردی کا فقدان نظر آئے تو ترقی، تنزلی، خوشحالی اور بدحالی ان کا عروج و زوال ایک دوسرے سے وابستہ رہتا ہے اور اگر اتحاد، ہمدردی و محبت پائی جائے تو تمام مسائل اور مشکلات بلاجھجھک حل ہو جاتے ہیں اور اگر اس کے بعید ہو تو وہی۔۔۔۔جھگڑا، فساد اور نااتفاقی پیدا ہو جاتی ہے۔
جس کی وجہ سے وحدت و قومیت متاثر ہوتی ہے نتیجتاً پھر سب کچھ بکھر جاتا ہے کاروبار وشگفتگی سے بھی قوم ہاتھ دھو بیٹھتی ہے پھر بدحالی اور محکومی قوم کا نصیب بن جاتا ہے دیکھا یہ گیا ہے کہ جب تک کسی قوم میں اتحاد رہا تو وہ ترقی کی منازل طے کرتی رہی اور جب آپس میں نااتفاقی و ناچاکی ہوئی تو وہ بدبختی اور بدحالی کا شکار ہو گئی۔ یہی حالات اس وقت ہمارے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک فرض شناس اور وفادار شہریوں کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا حکومت اور شہریوں کے بھی اپنے اپنے فرائض ہیں جو دیانت داری اور خلوص سے سر انجام دیے جائیں۔
اسی طرح حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی ضروریات کا خیال رکھے اور شہریوں کی فلاح و بہبود کی ضمانت دے ۔ فریقین کو چاہیے کہ فرض شناسی کے ساتھ اپنے فرائض اور ذمے داری پوری کریں۔ ہم میں اس وقت جس طرح نااتفاقی، ناچاکی، بدنظمی کا رجحان نظر آتا ہے اسے دور کرنے اور سلجھانے کی ضرورت ہے ۔ سرزمین پاکستان ہم سے فرض شناسی کا تقاضا کر رہی ہے اور اسی میں ہماری ذاتی و قومی بقا کا راز مضمر ہے اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
لوگوں میں انتشار پھیلانا، ایک دوسرے کو لڑوانا، لوگوں کو ورغلانا، سراسر غیر فطری عمل کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ہر طرح کے سیاسی، فکری، اعتقادی، اقتصادی، اخلاقی اور سماجی گراوٹ اور فساد کو فروغ دینے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔ ان اصولوں کو ان مفاد پرست، مطلبی و جابر حکمرانوں کی اسٹرٹیجک سیاست کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ہے جو ماضی سے لے کر حال تک (عوام) پر اپنی گرفت و حکومت کرتے چلے آئے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن و آبادی اور ملکوں کے وسیع ہونے کے نتیجے میں ان کی مفاد پرستی عوام الناس کے لیے ایک طریقے سے ظالمانہ سیاست ہے۔
آمرانہ قیادت نے تو ایسے عجوبہ سیاست کی ابتدا کی جو جمہوری نقطہ نظر سے مکمل آئینی خلاف ورزی تھی۔ ملک کے ایک منتخب و عوامی مینڈیٹ یافتہ وزیر اعظم کو دورے سے واپسی پر ملک بدر کر دینا حرص و ہوس کا غلام بن کر اپنے مفاد کی خاطر عوامی فلاح و بہبود تو درکنار معصوم و مظلوم عوام پر ایسی کاری ضرب لگائی جس کی مثال نہیں ملتی۔
عوامی مینڈیٹ سے برسر اقتدار آنے والی قیادت ملک و عوام کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ عوام کو رہنمائی اور سیاست کے فرائض بھی معیاری طور پر انجام دے رہی ہے۔ ماضی کے ستائے سیاسی پہلو سے وابستہ حالات اس قدر بے لگام اور مسائل سے بھرپور ہیں جنھیں سلجھانا ایک دن یا ہفتے یا ماہ یا سال میں ناممکن ہے۔ ٹوٹے پھوٹے ملکی نظام کو درست کرنے میں کچھ نہیں تو وہی 5 سال گزر جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ دیگر اقتدار والوں نے کچھ نہیں چھوڑا نئی نویلی دلہن کی طرح ملک کے حالات کو معیشت کی ڈوبتی کشتی کو بحرانوں کے سیلابوں، تعلیمی فقدان کو مغربی کلچر کو جو نوجوان نسل کو اپنے سانچے میں ڈھال رکھے ہے اسے پھر سے ''سدھار'' کے راستے پر لے آنا اتنا آسان نہیں۔
عوام نے مینڈیٹ دے کر وزیر اعظم کا انتخاب کیا کچھ سمجھ کر ہی ناں؟ جب کہ کئی اور سلجھی سیاسی پہلو سے وابستہ شخصیات بھی میدان کارزار میں برسر پیکار تھیں لیکن عوامی مینڈیٹ (حق رائے دہی) کا پورا پورا استعمال عوام الناس نے سوچ سمجھ کر ہی (ن) لیگ کی جھولی میں ڈالا کیونکہ ''میاں'' صاحب کی اپیل بھی تھی کہ اتنا مینڈیٹ دیا جائے کہ بغیر بے ساکھی کے حکومت سنبھال سکوں۔ عوام نے خواہش پوری کر دی موجودہ دور سے پہلے دور حکومت کا جب جائزہ لیا تو ان سب کو (جو ماضی کے دور حکومت) پر فائز تھے عوام الناس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا عوام مرتے رہے، بلبلاتے رہے مگر ناخدا ''جام طہورا نوش'' کرتے رہے کیا یہی اقتدار ہے؟
میاں صاحب ایک سلجھے ہوئے، منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے ناتے گزشتہ ''دو'' دور حکومت کے بہت واضح تلخ تجربے کے حامل ہیں پھر ان کی آپسی سوچ، فکری انداز، طریقہ اقتدار اور سیاست دوسروں سے کجا افضل اور بلند ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات کی بہتری کے لیے مثبت و نتیجہ خیز اقدام کی ضرورت ہے۔ جب کہ (ن) لیگ کو موجودہ حالات کے پیش نظر کئی زاویوں سے مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں کئی اقسام کے بحران بھی شامل ہیں۔
بجلی بحران، پانی کی قلت، مہنگائی بحران، بھوک و افلاس، غربت، تعلیم، علاج و معالجے فوری طور پر قانونی شکنجوں میں جکڑا جائے، عوام نے سابق جمہوری قیادت سے بھی یہی توقعات تھی مگر رزلٹ صفر ہی ثابت ہوا اور مسائل میں بے پناہ اضافے کے ساتھ عوامی ضروریات ''جوں کے توں'' ہی رہ گئیں۔ یعنی صرف ''محرومی'' ، اسی کے ساتھ ایک قصیدہ۔ ماضی کے دور حکومت پر فائز شخصیات کی شان میں ''نصیب در پہ ترے، آزمانے آیا ہوں'' ۔ بہرکیف وزیر اعظم کے لیے ایک ایک دن قیمتی ہے۔ عوامی توقعات (ن) لیگ سے بہت ہیں۔ اب قیادت خود فیصلہ کرے کہ وہ کس طرح مرجھائے جمہوری پودے کو پھر سے جاندار بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اپنے تجربے و کردار کے حوالے سے۔ ملک کا شیرازہ تو بکھر ہی چکا ہے۔
میاں صاحب وزیر اعظم پاکستان کو اس بچے کھچے، مرجھائے جمہوری پودوں کو عوام اور ملک کی اجڑی دیاروں کو، عوامی چہار دیوار کے تقدس کو پامال ہونے سے کسی طرح بچائیں یہی عوامی خواہش ہے۔ جب تک اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا نہیں کریں گے مسائل کا حل اور دشمنوں کی سازشوں سے چھٹکارا ملنا بہت مشکل لگتا ہے جب کہ مسائل بے انتہا ہیں۔ وقت بہت کم ہے۔ میاں صاحب اپنے تجربے اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اجڑی نگری کو پھر سے گلزار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں یہی وقت کا تقاضا ہے۔ ہم سب اگر ایک ہو جائیں تو ملک کی تقدیر سنور جائے عوام یہی لو لگائے بیٹھے ہیں۔
اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ ''قوم افراد کا ایک مجموعہ ہے جس کو مخصوص اور مشترک جذبات نے باہم متحد کر دیا ہو۔ جب تک قوم کے اندر یکجہتی کا احساس نہ ہو کہ وہ ایک ہیں ان کی زندگی کے مسائل بھی مشترک ہیں تو ان میں وحدت و قومیت پیدا نہیں ہو سکتی اگر قوم کے افراد میں اتحاد، اتفاق اور ہمدردی کا فقدان نظر آئے تو ترقی، تنزلی، خوشحالی اور بدحالی ان کا عروج و زوال ایک دوسرے سے وابستہ رہتا ہے اور اگر اتحاد، ہمدردی و محبت پائی جائے تو تمام مسائل اور مشکلات بلاجھجھک حل ہو جاتے ہیں اور اگر اس کے بعید ہو تو وہی۔۔۔۔جھگڑا، فساد اور نااتفاقی پیدا ہو جاتی ہے۔
جس کی وجہ سے وحدت و قومیت متاثر ہوتی ہے نتیجتاً پھر سب کچھ بکھر جاتا ہے کاروبار وشگفتگی سے بھی قوم ہاتھ دھو بیٹھتی ہے پھر بدحالی اور محکومی قوم کا نصیب بن جاتا ہے دیکھا یہ گیا ہے کہ جب تک کسی قوم میں اتحاد رہا تو وہ ترقی کی منازل طے کرتی رہی اور جب آپس میں نااتفاقی و ناچاکی ہوئی تو وہ بدبختی اور بدحالی کا شکار ہو گئی۔ یہی حالات اس وقت ہمارے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک فرض شناس اور وفادار شہریوں کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا حکومت اور شہریوں کے بھی اپنے اپنے فرائض ہیں جو دیانت داری اور خلوص سے سر انجام دیے جائیں۔
اسی طرح حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی ضروریات کا خیال رکھے اور شہریوں کی فلاح و بہبود کی ضمانت دے ۔ فریقین کو چاہیے کہ فرض شناسی کے ساتھ اپنے فرائض اور ذمے داری پوری کریں۔ ہم میں اس وقت جس طرح نااتفاقی، ناچاکی، بدنظمی کا رجحان نظر آتا ہے اسے دور کرنے اور سلجھانے کی ضرورت ہے ۔ سرزمین پاکستان ہم سے فرض شناسی کا تقاضا کر رہی ہے اور اسی میں ہماری ذاتی و قومی بقا کا راز مضمر ہے اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔