وفاقی حکومت امپورٹ سبسٹیٹیوٹ پالیسی پر گامزن
وزیرخزانہ کی تقریر اور بجٹ دستاویز متضاد، ایکسپورٹ بڑھائے بنا ترقی ممکن نہیں
وفاقی حکومت امپورٹ سبسٹیٹیوٹ پالیسی پر گامزن ہے۔
وزیرخزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے 1990کی دہائی میں شروع کیے گئے ایجنڈے کو پورا کرنا چاہتے ہیں، نواز شریف نے اپنے پہلے دورحکومت میں ملکی معیشت کو مسابقتی بنانے کا آغاز کیا تھا، لیکن وزیرخزانہ کے اعلان کا پیش کیے گئے بجٹ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
وزیرخزانہ کی بجٹ تقریب اور بجٹ دستاویزات ایک دوسرے کے متضاد ہیں، کوئی بھی ملک ایکسپورٹ کو بڑھانے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، لیکن پیش کیے گئے بجٹ میں درآمدی متبادل کو بڑھانے پر زور دیا گیا ہے، اور بھاری ٹیکس عائد کرکے ملکی معیشتوں کو مسابقتی عمل سے باہر کردیا گیا ہے، جیسا کہ بجٹ میں الیکٹرک وہیکل پالیسی پاکستان 2020-25کے تحت بننے والے کاروں کو دیے گئی مراعات ختم کردی گئی ہیں۔
پوری دنیا الیکٹرک وہیکل پر جارہی ہے، لیکن حکومت نے اس کی مخالف پالیسی اختیار کی ہے، اسی طرح مقامی انڈسٹری کو تقویت دینے کیلیے آٹوپارٹس کی درآمد پر ڈیوٹیز میں اضافہ کیا گیا ہے، جس سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوگا، آئرن اور اسٹیل پر ڈیوٹی میں اضافے سے انجینیئرنگ اور کسنٹرکشن انڈسٹری متاثر ہوگی، پیپر پر ٹیکسز میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جس سے پیپرانڈسٹری تباہی کا شکار ہوجائے گی، جبکہ بھارت میں پیپر انڈسٹی پر ٹیکسز میں کمی سے اس وقت بھارت پیپر انڈسٹری کا حب بن چکا ہے۔
تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ امپورٹ سبسٹیٹیوشن کے کامیاب نتائج برآمد نہیں ہوتے، 20 ویں صدی کے آخر تک تمام ممالک نے اس کو ختم کردیا ہے اور ایکسپورٹ بیسڈ گروتھ کو فروغ دیا ہے، نواز لیگ کی ہر حکومت میں ایکسپورٹ کی شرح گری ہے، ایسا بار بار ہوتا رہے گا جب تک کہ ایکسپورٹ لیڈ پالیسی اختیار نہیں کی جاتی، اس کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔
حال ہی میں PIDE اور PRIME نامی دو تھنک ٹینکس نے ٹیکس اور ٹیرف پالیسیوں کو ماڈرنائز کرنے کیلیے وسیعروڈ میپ پیش کیا ہے، انکی تجاویز معیشت کو متحرک کرنے اور ایکسپورٹ بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسکے ساتھ ساتھ انھوں نے ٹیکس کلیکشن میں اضافہ کرنے کے طریقے بھی بتائے ہیں، حکومت کو ان پر غور کرنا چاہیے۔
وزیرخزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے 1990کی دہائی میں شروع کیے گئے ایجنڈے کو پورا کرنا چاہتے ہیں، نواز شریف نے اپنے پہلے دورحکومت میں ملکی معیشت کو مسابقتی بنانے کا آغاز کیا تھا، لیکن وزیرخزانہ کے اعلان کا پیش کیے گئے بجٹ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
وزیرخزانہ کی بجٹ تقریب اور بجٹ دستاویزات ایک دوسرے کے متضاد ہیں، کوئی بھی ملک ایکسپورٹ کو بڑھانے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، لیکن پیش کیے گئے بجٹ میں درآمدی متبادل کو بڑھانے پر زور دیا گیا ہے، اور بھاری ٹیکس عائد کرکے ملکی معیشتوں کو مسابقتی عمل سے باہر کردیا گیا ہے، جیسا کہ بجٹ میں الیکٹرک وہیکل پالیسی پاکستان 2020-25کے تحت بننے والے کاروں کو دیے گئی مراعات ختم کردی گئی ہیں۔
پوری دنیا الیکٹرک وہیکل پر جارہی ہے، لیکن حکومت نے اس کی مخالف پالیسی اختیار کی ہے، اسی طرح مقامی انڈسٹری کو تقویت دینے کیلیے آٹوپارٹس کی درآمد پر ڈیوٹیز میں اضافہ کیا گیا ہے، جس سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوگا، آئرن اور اسٹیل پر ڈیوٹی میں اضافے سے انجینیئرنگ اور کسنٹرکشن انڈسٹری متاثر ہوگی، پیپر پر ٹیکسز میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جس سے پیپرانڈسٹری تباہی کا شکار ہوجائے گی، جبکہ بھارت میں پیپر انڈسٹی پر ٹیکسز میں کمی سے اس وقت بھارت پیپر انڈسٹری کا حب بن چکا ہے۔
تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ امپورٹ سبسٹیٹیوشن کے کامیاب نتائج برآمد نہیں ہوتے، 20 ویں صدی کے آخر تک تمام ممالک نے اس کو ختم کردیا ہے اور ایکسپورٹ بیسڈ گروتھ کو فروغ دیا ہے، نواز لیگ کی ہر حکومت میں ایکسپورٹ کی شرح گری ہے، ایسا بار بار ہوتا رہے گا جب تک کہ ایکسپورٹ لیڈ پالیسی اختیار نہیں کی جاتی، اس کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔
حال ہی میں PIDE اور PRIME نامی دو تھنک ٹینکس نے ٹیکس اور ٹیرف پالیسیوں کو ماڈرنائز کرنے کیلیے وسیعروڈ میپ پیش کیا ہے، انکی تجاویز معیشت کو متحرک کرنے اور ایکسپورٹ بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسکے ساتھ ساتھ انھوں نے ٹیکس کلیکشن میں اضافہ کرنے کے طریقے بھی بتائے ہیں، حکومت کو ان پر غور کرنا چاہیے۔