زندگی کی کہانی

سعد اللہ جان برق  جمعرات 20 جون 2024
barq@email.com

[email protected]

زندگی کا سلسلہ بھی ابھی پانی ہی تھا کہ چالیس کروڑسال پہلے پورے کرہ ارض میں ایک بہت ہی بڑی اتھل پتھل یا ٹیکٹانک موومنٹ ہوتی ہے، ارضیات اور طبیعات والے پہلی قیامت کا نام دے چکے ہیں، اس کے نتیجے میں بحر ہند کے اندر، ایشیا سے دور ہند کا خشک ٹکڑا پھٹتا ہے اس کے کچھ ٹکڑے تو دور جا کر آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اورکچھ جزیروں میں بٹ جاتے ہیں اورایک بڑا تکونا ٹکڑا انتہائی تیز رفتاری سے چل کر ایشیا سے پیوست ہو جاتا ہے۔

اس تصادم کے نتیجے میں وہ پہاڑی سلسلے یا دیوار ابھر آتی ہے جسے ہم آج کل برما سے لے کر ایران میں کوہ بابا تک دیکھتے ہیں جس کے ایک طرف زرد اور دوسری طرف سفید نسل پیدا ہوئی ہے ،اس ٹکڑے میں بیج کے اتھلے پانی کا سمندر اوپر اٹھتا ہے تو لاتعداد و بے حساب آبی مخلوقات بھی خشکی پر آپڑتی ہیں جن میں سے ہندسوں کے حدودسے بھی باہرمخلوقات تلف ہوجاتی ہیں جو اپنے ہونے کاثبوت تیل کے ان ذخائر کی شکل میں اب بھی دے رہی ہیں جو اس پہاڑی سلسلے اوراس کے گردا گرد زمینوں سے دستیاب ہورہا ہے.

لیکن ان میں کچھ نے ارتقا کر کے خشکی پر زندہ رہنے کی استعداد حاصل کر لی پھر ان میں ارتقا کا ایک طویل دور چلا، اور نوبت انسان تک پہنچ گئی نہ تو ٹیکٹانک موومنٹ کوئی اتفاقی حادثہ تھا نہ براعظم ہند پھٹنا اور ایشیا سے ٹکرانا حادثہ تھا اورنہ ہی اتھلے سمندر کا اوپر اٹھ کر اس پہاڑی سلسلے میں ابھرنا حادثہ تھا پھر آئس ایج بھی حادثہ نہیں، اس برف سے بھی کھیت کے ہموار کرنے کا کام لینا تھا.

اس پہاڑی سلسلے کی چوٹیوں کا اوپر اٹھنا ایک دیوار ایک روک بننا بھی حادثہ نہیں تھا، وسطی ایشیا کے سرسبز جنگلوں اورچراگاہوں کا بنجر ہونا سمندری نم ہواؤں کا اور بارشوں کا رکنا بھی حادثہ نہیں تھا ایک طویل سیلابی دور بھی اتفاقیہ نہیں تھا ، باغوں اورجنتوں کا برفستانوں اورریگستانوں میں بدلنا بھی حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ پروگرام تھا ۔

بے پناہ ملبوں کا اترنا، پانی کو دھکیل کرسمندروں میں ڈالنا، کھیت کاہموار ہونا،کھیت کا ہموار ہونا، گلوبل وارمنگ کے ذریعے موسم کا سازگار ہونا اور پھر کیاری سے خروجوں کے ذریعے نرسری پھیلانا بھی ایک باقاعدہ پروگرام اورانتظام تھا اوراس باقاعدہ پروگرام کی جھلکیاں ہمیں نہ صرف مذہبی اساطیر میں ملتی ہیں بلکہ سائنسی اورطبیعاتی ثبوتوں میں بھی موجود ہیں ۔

اپنے ہونے کاثبوت اورنشان چھوڑتی ہے

راستہ کوئی ندی ایسے کہاں چھوڑتی ہے

دو انگریز مصنفین نے مل کر ایک کتاب مرتب کی ہے ’’انڈس ویلی سویلائزیشن‘‘ لکھتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی بہت بڑا ڈیم رہا ہو اور پھر وہ اچانک ٹوٹ گیا ہو اور یہ بات قطعی درست ہے لیکن وہ ڈیم پانی کا نہیں برف کا یا منجمد پانی کا تھا، جس سے بہت بڑا کام لینا تھا اورلیا گیا۔

خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ اس پہاڑی سلسلے اورگرداگرد کی اونچی زمینوں سے جوخروج نکلتے رہے ہیں وہ اتفاقیہ نہیں تھے بلکہ نرسری کو کھیت میں پھیلانے کا پروگرام اورانتظام تھا ۔ اب ایک مرتبہ پھر آخری یا پانچویں یلغارکی بات کرتے ہیں جسے چنگیزی یلغار کہا جاتا ہے۔

چنگیز خان بھی وقت اوراس پروگرام کی پیداوار تھا وہ جب اپنے حریف اوردشمن قبائل سے اقتدار کی جنگ لڑتا ہوا منگولوں کا سرداربن گیا تو اس کے سامنے بھی منگولوں کی زندگی اوربقا کا مسئلہ تھا کیوں کہ جس خطے میں وہ رہے تھے وہاں خوراک اور گرسنگی کا بھیانک مسئلہ درپیش تھا یا یوں کہیے کہ ان کے پیچھے بھوک کی کمان تنی ہوئی تھی ۔ کہتے ہیں کسی نے تیر سے پوچھا کہ تم اتنا تیز کیوں چل رہے ہو یا اڑ رہے ہو تو اس نے کہا ،کیا کروں میرے پیچھے کمان کا زور ہے۔ اس وقت منگولوں کے پڑوس میں خوارزم کی حکومت تھی جس کا سربراہ علاؤالدین خوارزم شاہ تھا جو باجبروت حکومت کی طرح اقتدار کے نشے میں بری طرح مبتلا تھا۔

چنگیزخان نے اس کے پاس معروف طریقے سے ایک سفارت بھیجی کہ ہم منگولوں کو اپنی مملکت میں آنے اورتجارت یا دوسرے کام دھندے کرنے کی اجازت دی جائے کیوں کہ منگولوں کے بنجر ریگستانوں میں خوراک کی قلت کا مسئلہ شدید ہوگیا تھا زرعی پیداوار تو اس میں تھی نہیں، صرف مویشیوں پر انحصار تھا اورمویشیوں کے لیے بھی چارہ درکار تھا ان کے پاس جانوروں سے حاصل ہونے والی مصنوعات، اسلحہ، جفاکش سپاہی تھے لیکن خوارزم شاہ ایک مغرور اورمتکبر حکمران کا کردار اداکرتے ہوئے طیش میں آیا کہ ان اجڈ جاہل اورنیچ منگولوں کی اتنی جرات کہ مجھ سے ہم سری کرکے سفارت کی گستاخی کریں چنانچہ اس نے ان منگولوں کو قتل کرڈالا، ظاہرہے کہ اس پر منگولوں کو بھی غصہ آنا فطری تھا اور وہ آیا۔ اور پھر وہی ہوا جو تاریخ میں درج ہے ۔

دیکھاجائے تو یہاں بھی انتظام تھا، علاؤالدین خوارزم شاہ بھی اس پروگرام کا ایک حصہ اور کردارتھا، اس کا غرور اس کی حرکت سب کچھ پروگرام ہی کے تحت ہوتا رہا اگر وہ منگولوں کی سفارت کو قبول کرتا تو منگول معمول کے مطابق تجارت، مزدوری اوردوسرے کام کرتے رہتے اور وہ یلغار نہ ہوتی جو ہوئی۔ اور پھر عروج وزوال کا بھی اپنا ایک فطری سلسلہ ہوتا ہے ، اس وقت کے مسلمان حکمران ، بے شمار فتوحات، بے حساب اموال غنیمت کو پا کرعیش وعشرت میں کھو چکے تھے اورسرزمین عرب سے نکلنے والے سخت کوش اورجفاکش ’’بدو‘‘ اب بغداد کے نازک اندام خلفا بن چکے تھے، دولت کی فراوانی کنیزوں اورغلاموں کی ارزانی نے ان کو حرم سراؤں کا مالک بنا دیا۔

یہ عروج وزوال بھی اپنے طریقے سے چلتے ہیں، صحراؤں، جنگلوں اور کوہستانوں سے وحشت نکلتی ہے جو بربریت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے ہر طرف حملے اورفتوحات پھیل جاتے ہیں جس کے لیے بہانے تو کئی بنائے جاتے ہیں، مذہب قوم نسل زبان کوئی سا بھی بہانہ لیکن بنیادی طورپر اسے ڈاکے اور لوٹ مار ہی کہا جانا چاہیے کیوں کہ حکمران بھی ڈاکو اورلٹیرے کی ایک نسبتاً بڑی شکل ہوتی ہے اور مال غنیمت لوٹ مار کی نئی صورت ہوتی ہے ۔

انسانی تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے کہ وحشی آکر حکمران اورپھر مہذب بن جاتے ہیں ۔

چنگیزی مغلوں کے ساتھ بھی وہی ہوا جو انھوں نے اپنے پیش رو حکومتوں کے ساتھ کیا اگر عرب مہذب ہو کر بغداد کے نازک اندام خلفاء بن گئے تو نئے آنے والے منگولوں کااختتام بھی بہادر شاہ ظفر اورمحمد شاہ رنگیلے جیسوں پر ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔