عوام بمقابلہ اشرافیہ
تنخواہ دار طبقے کے پاس واحد آپشن یہ ہی رہ جاتا ہے کہ اسے تنخواہ کیش میں دی جائے
اگر ہم عوامی مفادات کے تناظر میں سیاست ومعیشت کا تجزیہ کریں تو ہمیں ایک ہی نقطہ غالب نظر آتا ہے ، یعنی عوام اور اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش یا جنگ ہے ۔ایک ایسا معاشرہ یا ریاستی نظام جوطبقاتی تقسیم کا شکار ہو اور جہاں سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، قانونی اور معاشی لحاظ سے سب انسان برابر نہ ہوں ، اسے مثالی نظام کیسے کہا جا سکتا ہے ۔ ہمارے سرکاری ڈھانچے میں عام یا کمزور آدمی کا حصہ محدود نظر آتاہے ۔ ایسے معاشرے میں حکومتی نظام پر عدم اعتماد کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے ۔
بجٹ 2024-25کو دیکھیں تو کہانی وہی پرانی ہے۔ البتہ ہربار بجٹ پیش کرتے ہوئے کہانی میں نئے رنگوں کی بنیاد پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بجٹ عوامی خواہشات کی بنیاد پر ترتیب بھی دیا گیا ہے۔مگر 75برسوں کی بجٹ کہانی تو یہی ہے کہ عام طبقات کو مزید مسائل کا سامنا ہے۔ بجٹ ایک محض معاشی دستاویز نہیں ہوتا بلکہ اسے ہم ایک اہم سیاسی دستاویز سمجھتے ہیں جہاں حکومت اس امر کو طے کرتی ہے کہ اس کی عوامی سطح پر کیا سیاسی ترجیحات ہیں اور ان ترجیحات کی عکاسی کیسے معاشی فیصلوں میں جڑی نظر آتی ہے۔
اس لیے سوال معیشت کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر سیاسی یا ریاستی نظام کی درستگی کا ہے اور اس کو درست کیے بغیر ہم معیشت کے معاملات میں عوامی تناظر میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی نہیں دیکھ سکیں گے ۔ بظاہر حالیہ عوام کا بجٹ ہے مگر حکمران طبقے کی ہمیشہ سے ترجیحات میں عوام نہیں رہے بلکہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔
حکمران اشرافیہ اپنے مالی مفادات میں کمی کرنے پر آمادہ نہیں ہے، البتہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کرلی جاتی ہیں حالانکہ آئی ایم ایف آپشن دیتا ہے کہ اشرافیہ کو دی جانے والی سرکاری مراعات ختم کریں، اشرافیہ سے اس کے مالی حجم کے مطابق ٹیکس اکٹھا کریں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ معیشت کی بدحالی ہو یا دوسری سنگین صورتحال، اس کی قیمت طاقت وراشرافیہ خود ادا کرنے کی بجائے عام اور کمزور افراد پر ڈال دیتی ہے۔ ریاست، حکومت اور سرمائے دار طبقے کا گٹھ جوڑ دولت اور وسائل کو عام آدمی تک منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
حکومت نے 2024-25میں پٹرولیم میں لیوی کی مد سے 12کھرب80ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف طے کیا ہے جو پچھلے برس کے ہدف سے تقریبا47.04فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک طرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا فیصلہ اور دوسری طرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
تنخواہ دار طبقے کے پاس واحد آپشن یہ ہی رہ جاتا ہے کہ اسے تنخواہ کیش میں دی جائے تاکہ وہ خود کو ان بھاری بھرکم ٹیکسوں سے بچا سکے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر '' کم تنخواہ ہو تو کم پیسوں کا دکھ '' غالب ہوتا ہے اور اگر '' تنخواہ زیادہ ہو تو پھر زیادہ ٹیکسوں کا دکھ '' سہنا پڑتا ہے ۔بنیادی طور پر ہم نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہے ہیں اور اس ناکامی کا بوجھ ہم تنخواہ دار طبقے پر جبر کی بنیاد پر ڈال رہے ہیں ۔
اگر ہم اپنے معیشت سے جڑے مسائل پر نظر ڈالیں تو اس میں بیرونی قرضوں کا بوجھ ، ریونیوکے حصول کے محدود ذرائع،توانائی کا بوسیدہ نظام ، آبادی کا پھیلاؤ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، روزگار پیدا کرنے کے لیے صنعتوں کے قیام کی پالیسی سے گریز ، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کا نہ ہونا،بھاری بھرکم لیکن کمزور ریاستی ڈھانچہ ، سیاسی استحکام کا کم ہونا ، ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤ، نگرانی ، جوابدہی اور احتساب پر مبنی کمزور نظام مسائل کی جڑ ہے ۔
بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے بقول پاکستان کا حالیہ بجٹ آئی ایم ایف کو راضی رکھنے سے جڑا ہوا ہے اور اس طرز کا بجٹ قرضوں کے حصول میں تو مدد دے سکتا ہے مگر اس سے مہنگائی کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے معاشر ے کی سطح پر سماجی اور معاشی تناؤ پیدا ہوتا ہے اور حکومت کی جانب سے طے کردہ اہداف میں ناکامی اور اصلاحات کا عمل اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جو نئے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ اشرافیہ کی ترجیحات میں پہلا نمبر اپنے مفادات کا ہوتا ہے۔
ایسے میں نظام میں اسٹرکچرل اصلاحات یا بنیادی نوعیت کی انتظامی، سیاسی ، قانونی اور معاشی نظام کے ڈھانچوں میں تبدیلی کا عمل کیسے ممکن ہوگا ۔ہم محض عالمی مالیاتی اداروں یا عالمی ممالک یا دوست اسلامی ممالک کی امداد کی بنیاد پر انحصار کرتے ہیں اور جو امداد یا منصوبوں کی مد میں سرمایہ آتا ہے اس کا بھی کوئی آڈٹ نہیں ہوتا کہ یہ رقم کہاں استعمال ہوئی اور کیسے اس میں شفافیت کے تقاضوں کو پورا کیا گیا۔
قرضوں اور سود در سود پر کھڑی معیشت سے ہمیں کسی بھی سطح انقلابی تبدیلیوں کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی طاقت ور اشرافیہ کا باہمی مفادات پر مبنی کھیل عام آدمی کو کچھ دے سکے گا یا ان کی سماجی اور معاشی حیثیت کو تبدیل کرسکے گا۔ کیونکہ روائتی اور فرسودہ خیالات کو بنیاد بنا کر ہم معیشت کی درستگی کا جو علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح اس فکری مغالطے سے بھی باہر نکلنا ہوگا کہ ہم سیاسی استحکام کو پیدا کیے بغیر معاشی استحکام کی طرف پیش رفت کرسکیں گے ۔
عام آدمی کو مختلف نوعیت کے خیراتی یا چیرٹی پروگراموں کا حصہ بنا کر ان کو بھکاری بنانے کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے بھی عام آدمی کی معاشی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔یہ حکمت عملی لوگوں کو خو دکفیل بنانے کی بجائے ان کو خیراتی اداروں کا غلام بنادیتی ہے۔
جو کسی بھی سطح پر درست حکمت عملی نہیں ۔اس لیے اصل چیلنج جو اس وقت عوامی مفادات یا عوام کو معاشی تحفظ اور باعزت روزگار یا تحفظ دینے سے جڑا ہے۔ ہمیں نظام کو چیلنج کرکے ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنا ہے ۔کیونکہ جب تک ہم طاقت ور اشرافیہ کو جوابدہی میں نہیں لائیں گے، عام آدمی کی سیاست اور معیشت درست نہیں ہوسکے گی۔
بجٹ 2024-25کو دیکھیں تو کہانی وہی پرانی ہے۔ البتہ ہربار بجٹ پیش کرتے ہوئے کہانی میں نئے رنگوں کی بنیاد پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بجٹ عوامی خواہشات کی بنیاد پر ترتیب بھی دیا گیا ہے۔مگر 75برسوں کی بجٹ کہانی تو یہی ہے کہ عام طبقات کو مزید مسائل کا سامنا ہے۔ بجٹ ایک محض معاشی دستاویز نہیں ہوتا بلکہ اسے ہم ایک اہم سیاسی دستاویز سمجھتے ہیں جہاں حکومت اس امر کو طے کرتی ہے کہ اس کی عوامی سطح پر کیا سیاسی ترجیحات ہیں اور ان ترجیحات کی عکاسی کیسے معاشی فیصلوں میں جڑی نظر آتی ہے۔
اس لیے سوال معیشت کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر سیاسی یا ریاستی نظام کی درستگی کا ہے اور اس کو درست کیے بغیر ہم معیشت کے معاملات میں عوامی تناظر میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی نہیں دیکھ سکیں گے ۔ بظاہر حالیہ عوام کا بجٹ ہے مگر حکمران طبقے کی ہمیشہ سے ترجیحات میں عوام نہیں رہے بلکہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔
حکمران اشرافیہ اپنے مالی مفادات میں کمی کرنے پر آمادہ نہیں ہے، البتہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کرلی جاتی ہیں حالانکہ آئی ایم ایف آپشن دیتا ہے کہ اشرافیہ کو دی جانے والی سرکاری مراعات ختم کریں، اشرافیہ سے اس کے مالی حجم کے مطابق ٹیکس اکٹھا کریں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ معیشت کی بدحالی ہو یا دوسری سنگین صورتحال، اس کی قیمت طاقت وراشرافیہ خود ادا کرنے کی بجائے عام اور کمزور افراد پر ڈال دیتی ہے۔ ریاست، حکومت اور سرمائے دار طبقے کا گٹھ جوڑ دولت اور وسائل کو عام آدمی تک منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
حکومت نے 2024-25میں پٹرولیم میں لیوی کی مد سے 12کھرب80ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف طے کیا ہے جو پچھلے برس کے ہدف سے تقریبا47.04فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک طرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا فیصلہ اور دوسری طرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
تنخواہ دار طبقے کے پاس واحد آپشن یہ ہی رہ جاتا ہے کہ اسے تنخواہ کیش میں دی جائے تاکہ وہ خود کو ان بھاری بھرکم ٹیکسوں سے بچا سکے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر '' کم تنخواہ ہو تو کم پیسوں کا دکھ '' غالب ہوتا ہے اور اگر '' تنخواہ زیادہ ہو تو پھر زیادہ ٹیکسوں کا دکھ '' سہنا پڑتا ہے ۔بنیادی طور پر ہم نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہے ہیں اور اس ناکامی کا بوجھ ہم تنخواہ دار طبقے پر جبر کی بنیاد پر ڈال رہے ہیں ۔
اگر ہم اپنے معیشت سے جڑے مسائل پر نظر ڈالیں تو اس میں بیرونی قرضوں کا بوجھ ، ریونیوکے حصول کے محدود ذرائع،توانائی کا بوسیدہ نظام ، آبادی کا پھیلاؤ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، روزگار پیدا کرنے کے لیے صنعتوں کے قیام کی پالیسی سے گریز ، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کا نہ ہونا،بھاری بھرکم لیکن کمزور ریاستی ڈھانچہ ، سیاسی استحکام کا کم ہونا ، ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤ، نگرانی ، جوابدہی اور احتساب پر مبنی کمزور نظام مسائل کی جڑ ہے ۔
بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے بقول پاکستان کا حالیہ بجٹ آئی ایم ایف کو راضی رکھنے سے جڑا ہوا ہے اور اس طرز کا بجٹ قرضوں کے حصول میں تو مدد دے سکتا ہے مگر اس سے مہنگائی کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے معاشر ے کی سطح پر سماجی اور معاشی تناؤ پیدا ہوتا ہے اور حکومت کی جانب سے طے کردہ اہداف میں ناکامی اور اصلاحات کا عمل اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جو نئے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ اشرافیہ کی ترجیحات میں پہلا نمبر اپنے مفادات کا ہوتا ہے۔
ایسے میں نظام میں اسٹرکچرل اصلاحات یا بنیادی نوعیت کی انتظامی، سیاسی ، قانونی اور معاشی نظام کے ڈھانچوں میں تبدیلی کا عمل کیسے ممکن ہوگا ۔ہم محض عالمی مالیاتی اداروں یا عالمی ممالک یا دوست اسلامی ممالک کی امداد کی بنیاد پر انحصار کرتے ہیں اور جو امداد یا منصوبوں کی مد میں سرمایہ آتا ہے اس کا بھی کوئی آڈٹ نہیں ہوتا کہ یہ رقم کہاں استعمال ہوئی اور کیسے اس میں شفافیت کے تقاضوں کو پورا کیا گیا۔
قرضوں اور سود در سود پر کھڑی معیشت سے ہمیں کسی بھی سطح انقلابی تبدیلیوں کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی طاقت ور اشرافیہ کا باہمی مفادات پر مبنی کھیل عام آدمی کو کچھ دے سکے گا یا ان کی سماجی اور معاشی حیثیت کو تبدیل کرسکے گا۔ کیونکہ روائتی اور فرسودہ خیالات کو بنیاد بنا کر ہم معیشت کی درستگی کا جو علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح اس فکری مغالطے سے بھی باہر نکلنا ہوگا کہ ہم سیاسی استحکام کو پیدا کیے بغیر معاشی استحکام کی طرف پیش رفت کرسکیں گے ۔
عام آدمی کو مختلف نوعیت کے خیراتی یا چیرٹی پروگراموں کا حصہ بنا کر ان کو بھکاری بنانے کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے بھی عام آدمی کی معاشی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔یہ حکمت عملی لوگوں کو خو دکفیل بنانے کی بجائے ان کو خیراتی اداروں کا غلام بنادیتی ہے۔
جو کسی بھی سطح پر درست حکمت عملی نہیں ۔اس لیے اصل چیلنج جو اس وقت عوامی مفادات یا عوام کو معاشی تحفظ اور باعزت روزگار یا تحفظ دینے سے جڑا ہے۔ ہمیں نظام کو چیلنج کرکے ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنا ہے ۔کیونکہ جب تک ہم طاقت ور اشرافیہ کو جوابدہی میں نہیں لائیں گے، عام آدمی کی سیاست اور معیشت درست نہیں ہوسکے گی۔