حکومت کا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا فیصلہ
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 185 ویں برسی منانے کے لیے بھارت سے 448 سکھ یاتری پاکستان آئے ہیں
حکومت نے پنجاب کے پہلے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 185 ویں برسی پر لاہور میں موجود ان کی سمادھی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آخری بیوی مائی جنداں کی سمادھی کوبھی بحال کیا جائے گا جبکہ گوجرانوالہ میں ان کی آبائی حویلی کی آرائش وتزئین کا کام جاری ہے۔
پنجاب کے وزیر برائے اقلیتی امور اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی (پی ایس جی پی سی ) کے سربراہ سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی منانے کے لیے بھارت سمیت مختلف ممالک سے آنیوالے سکھ یاتریوں کو خوشخبری سناتے ہوئے بتایا کہ گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور کے احاطے میں موجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کی آرائش وتزئین کی جائے گی اور اسے اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔ بادشاہی مسجد کے پہلو اورلاہور کےشاہی قلعہ کے سامنے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی ہے جس پر سفید رنگ کیا گیا ہے۔
سرداررمیش سنگھ نے مزید بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی رانی مائی جنداں کی ایک سمادھی ،مہاراجہ کی سمادھی کے قریب تھی ، اسے بھی بحال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مختلف گوردواروں کی کارسیوا ور آرائش وتزئین کا کام بھی جاری ہے۔
سرداررمیش سنگھ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا لاہور کا شاہی قلعہ جہاں بیٹھ کر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 40 سال تک پنجاب پر حکومت کی وہاں ان کی یاد میں کوئی کوئی یادگاریا پھر سے کوئی مجسمہ لگایا جائے گا تو انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ حالانکہ ستمبر 2015 میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ہی حکومت کے دوران انہوں نے بطور ممبرپنجاب اسمبلی ایک قرار داد منظور کروائی تھی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خدمات کے اعتراف میں لاہور کی کسی اہم سڑک یا عمارت کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کےنام سے منسوب کیا جائے۔ یہ قراردار متفقہ طور پر منظور کرلی گئی تھی لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
واضح رہے کہ سن 2019 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی پر لاہور کے شاہی قلعہ میں ان کا ایک قدآورمجسمہ نصب کیا گیا تھا جسے تین بار نقصان پہنچایا گیا اور بالاخر اس مجسمے کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور مرمت کے بعد گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور میں نصب کردیا گیا تھا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی منانے کے لیے بھارت سے 448 سکھ یاتری پاکستان آئے ہیں۔ پاکستان ہائی کمیشن کی طرف سے 509 سکھ یاتریوں کو 21 سے 30 جون تک کا ویزا جاری کیا گیا ہے۔ برسی کی مرکزی تقریب 29 جون کو لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی پر ہوگی۔
لاہور کی واہگہ سرحد پر جمعہ کے روز بھارتی مہمانوں کا ہار پہنا کر استقبال کیا گیا۔ پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سابق سربراہ سردار ستونت سنگھ ، کمیٹی کی پہلی خاتون ممبر ستونت کور نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ بعدازاں پی ایس جی پی سی کے سربراہ اور صوبائی وزیراقلیتی امور سرداررمیش سنگھ اروڑہ پر متروکہ وقف املاک بورڈ کے ڈپٹی سیکرٹری شرائنز سیف اللہ کھوکھر بھی واہگہ بارڈر پہنچے اور انہوں نے بھارتی مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
بھارتی یاتری مختلف گروپوں کی شکل میں پاکستان آئے ہیں۔ شرومنی گوردوراہ پربندھک کمیٹی کا وفد سردارخوشویندرسنگھ بھاٹیا اور گرمیت سنگھ بھو کی قیادت میں پاکستان آیا ہے۔ ہریانہ کمیٹی کا وفد سردار امرچند، سرناگروپ کا وفد سردار رنجیت سنگھ ، دہلی سکھ گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کا وفد سردارکلویندر سنگھ اور بھائی مردانا کمیٹی کا وفد سردار ترلوک کی سربراہی میں آیا ہے۔
واہگہ بارڈر پر ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے سردار رمیش سنگھ نے کہا کہ وہ بھارت سے آئے مختلف جتھہ داروں کے ذریعے بھارتی حکومت کو یہ پیغام بھیجنا چاہتے ہیں کہ جس طرح پاکستان بھارتی سکھ اور ہندویاتریوں کو ویزےجاری کرتا ہے بھارتی حکومت بھی پاکستانی زائرین کو زیادہ سے زیادہ ویزے جاری کرے اور ویزے کے اجرا کا طریقہ کار آسان بنایا جائے تاکہ پاکستانی زائرین انڈیا میں موجود اولیا کرام کی درگاہوں پر حاضری دے سکیں۔
بھارت کی شرومنی کمیٹی کے رہنما اورجتھہ لیڈر سردار خوشویندر سنگھ نے کہا وہ پہلے بھی کئی بارپاکستان آچکے ہیں ان کی خواہش ہے کہ دونوں ملک پاکستان اور انڈیا ویزوں کے اجرا کا طریقہ کار آسان بنائیں ،تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایک دوسرے ملک میں جاسکیں، پاکستان ان کے اجداد کی سرزمین ہے۔ ان کی یادیں یہاں سے جڑی ہیں۔ انڈیا سے لوگ اپنے اجداد کے آبائی گاؤں اور گھر دیکھنے آنا چاہتے ہیں۔ اس سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بہتری آئے گی۔
سردار گرمیت سنگھ نے کہا وہ یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی منانے آئے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور امن اور آشتی کا دور تھا ۔ ان کے چالیس سالہ دور میں کسی ایک شخص کوپھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔ ان کے وزرا میں مسلمان، ہندو اورمسیحی بھی شامل تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ ایک سیکولر حکمران تھے ۔ انہوں نے عربی اور فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا ، ذریعہ تعلیم بھی فارسی اور عربی تھا۔ لیکن بدقسمتی سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کردار کو متنازعہ بنادیا گیا، تاکہ سکھوں اورمسلمانوں کے مابین دوستی کی بجائے نفرت پیدا کی جاسکے۔
بھارتی سکھ یاتری پاکستان میں دس روز قیام کے دوران گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال، گوردوراہ جنم استھان ننکانہ صاحب، گوردوارہ سچاسودا فاروق آباد، گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور گوردوارہ روڑی صاحب ایمن آباد اور گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور میں بھی حاضری دیں گے۔
بھارتی مہمانوں کو سفر کے لیے ائیرکنڈیشنڈ بسیں فراہم کی گئی ہیں ،ایک سکھ یاتری سے کم وبیش 17 ہزار کرایہ لیا جائے گا تاہم قیام اور کھانے کا اہتمام متروکہ وقف املاک بورڈ کی طرف سے کیا گیا ہے۔
پنجاب کے وزیر برائے اقلیتی امور اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی (پی ایس جی پی سی ) کے سربراہ سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی منانے کے لیے بھارت سمیت مختلف ممالک سے آنیوالے سکھ یاتریوں کو خوشخبری سناتے ہوئے بتایا کہ گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور کے احاطے میں موجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کی آرائش وتزئین کی جائے گی اور اسے اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔ بادشاہی مسجد کے پہلو اورلاہور کےشاہی قلعہ کے سامنے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی ہے جس پر سفید رنگ کیا گیا ہے۔
سرداررمیش سنگھ نے مزید بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی رانی مائی جنداں کی ایک سمادھی ،مہاراجہ کی سمادھی کے قریب تھی ، اسے بھی بحال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مختلف گوردواروں کی کارسیوا ور آرائش وتزئین کا کام بھی جاری ہے۔
سرداررمیش سنگھ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا لاہور کا شاہی قلعہ جہاں بیٹھ کر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 40 سال تک پنجاب پر حکومت کی وہاں ان کی یاد میں کوئی کوئی یادگاریا پھر سے کوئی مجسمہ لگایا جائے گا تو انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ حالانکہ ستمبر 2015 میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ہی حکومت کے دوران انہوں نے بطور ممبرپنجاب اسمبلی ایک قرار داد منظور کروائی تھی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خدمات کے اعتراف میں لاہور کی کسی اہم سڑک یا عمارت کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کےنام سے منسوب کیا جائے۔ یہ قراردار متفقہ طور پر منظور کرلی گئی تھی لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
واضح رہے کہ سن 2019 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی پر لاہور کے شاہی قلعہ میں ان کا ایک قدآورمجسمہ نصب کیا گیا تھا جسے تین بار نقصان پہنچایا گیا اور بالاخر اس مجسمے کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور مرمت کے بعد گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور میں نصب کردیا گیا تھا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی منانے کے لیے بھارت سے 448 سکھ یاتری پاکستان آئے ہیں۔ پاکستان ہائی کمیشن کی طرف سے 509 سکھ یاتریوں کو 21 سے 30 جون تک کا ویزا جاری کیا گیا ہے۔ برسی کی مرکزی تقریب 29 جون کو لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی پر ہوگی۔
لاہور کی واہگہ سرحد پر جمعہ کے روز بھارتی مہمانوں کا ہار پہنا کر استقبال کیا گیا۔ پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سابق سربراہ سردار ستونت سنگھ ، کمیٹی کی پہلی خاتون ممبر ستونت کور نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ بعدازاں پی ایس جی پی سی کے سربراہ اور صوبائی وزیراقلیتی امور سرداررمیش سنگھ اروڑہ پر متروکہ وقف املاک بورڈ کے ڈپٹی سیکرٹری شرائنز سیف اللہ کھوکھر بھی واہگہ بارڈر پہنچے اور انہوں نے بھارتی مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
بھارتی یاتری مختلف گروپوں کی شکل میں پاکستان آئے ہیں۔ شرومنی گوردوراہ پربندھک کمیٹی کا وفد سردارخوشویندرسنگھ بھاٹیا اور گرمیت سنگھ بھو کی قیادت میں پاکستان آیا ہے۔ ہریانہ کمیٹی کا وفد سردار امرچند، سرناگروپ کا وفد سردار رنجیت سنگھ ، دہلی سکھ گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کا وفد سردارکلویندر سنگھ اور بھائی مردانا کمیٹی کا وفد سردار ترلوک کی سربراہی میں آیا ہے۔
واہگہ بارڈر پر ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے سردار رمیش سنگھ نے کہا کہ وہ بھارت سے آئے مختلف جتھہ داروں کے ذریعے بھارتی حکومت کو یہ پیغام بھیجنا چاہتے ہیں کہ جس طرح پاکستان بھارتی سکھ اور ہندویاتریوں کو ویزےجاری کرتا ہے بھارتی حکومت بھی پاکستانی زائرین کو زیادہ سے زیادہ ویزے جاری کرے اور ویزے کے اجرا کا طریقہ کار آسان بنایا جائے تاکہ پاکستانی زائرین انڈیا میں موجود اولیا کرام کی درگاہوں پر حاضری دے سکیں۔
بھارت کی شرومنی کمیٹی کے رہنما اورجتھہ لیڈر سردار خوشویندر سنگھ نے کہا وہ پہلے بھی کئی بارپاکستان آچکے ہیں ان کی خواہش ہے کہ دونوں ملک پاکستان اور انڈیا ویزوں کے اجرا کا طریقہ کار آسان بنائیں ،تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایک دوسرے ملک میں جاسکیں، پاکستان ان کے اجداد کی سرزمین ہے۔ ان کی یادیں یہاں سے جڑی ہیں۔ انڈیا سے لوگ اپنے اجداد کے آبائی گاؤں اور گھر دیکھنے آنا چاہتے ہیں۔ اس سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بہتری آئے گی۔
سردار گرمیت سنگھ نے کہا وہ یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی منانے آئے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور امن اور آشتی کا دور تھا ۔ ان کے چالیس سالہ دور میں کسی ایک شخص کوپھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔ ان کے وزرا میں مسلمان، ہندو اورمسیحی بھی شامل تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ ایک سیکولر حکمران تھے ۔ انہوں نے عربی اور فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا ، ذریعہ تعلیم بھی فارسی اور عربی تھا۔ لیکن بدقسمتی سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کردار کو متنازعہ بنادیا گیا، تاکہ سکھوں اورمسلمانوں کے مابین دوستی کی بجائے نفرت پیدا کی جاسکے۔
بھارتی سکھ یاتری پاکستان میں دس روز قیام کے دوران گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال، گوردوراہ جنم استھان ننکانہ صاحب، گوردوارہ سچاسودا فاروق آباد، گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور گوردوارہ روڑی صاحب ایمن آباد اور گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور میں بھی حاضری دیں گے۔
بھارتی مہمانوں کو سفر کے لیے ائیرکنڈیشنڈ بسیں فراہم کی گئی ہیں ،ایک سکھ یاتری سے کم وبیش 17 ہزار کرایہ لیا جائے گا تاہم قیام اور کھانے کا اہتمام متروکہ وقف املاک بورڈ کی طرف سے کیا گیا ہے۔